دھندا ہے پر بہت گندا ہے


سکول کالج کے زمانے میں بک سٹالوں پر ’’چترالی‘‘ اور اس قسم کے ناموں کے رسالے پڑے ہوتے تھے۔ جس میں تاثر یہ دیا جاتا تھا کہ یہ بہت فحش رسالے ہیں۔ مقصد قاری کو گھیرنا یا راغب کرنا ہوتا تھا۔ کچھ فلم ایکٹریس کی، نیم عریاں تصاویر بھی ہوتیں تھیں۔ اور کچھ پڑھنے کے لئے چٹخارے دار مواد بھی ہوتا۔ خیر ان کا رسالہ بِک جاتا۔ پڑھنے والے کی رائے سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔

پرنٹ میڈیا کے دور کو زوال آ گیا۔ پھر الیکٹرانک میڈیا بھی ”جو دِکھتا ہے وہ بِکتا ہے کی روش پر چل نکلا۔ اب ہم سوشل میڈیا، انٹرنیٹ کے دور میں جی رہے ہیں۔ دنیا گلوبل ولیج بہت پہلے بن چکی تھی۔ اب یہ گلوبل ولیج موبائل کی شکل میں آپ کے ہاتھ میں ہے۔ جو دیکھنا چاہیں، پڑھنا چاہیں۔ خبریں، ویڈیوز انٹرٹینمنٹ، پورن سائٹس سرچ کرنا چاہیں، آپ اپنی مرضی کے مالک ہیں۔ یقیناً آپ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے۔ اس سے باخبر رہنا چاہیں گے۔ سماجی معاشی نظام کو سمجھنا چاہیں گے۔

دنیا میں بدلتے ہوئے نظریات پر بحث کرنا چاہیں گے۔ اور اس دنیا کا حصہ بننا چاہیں گے، لکھاری بننا چاہیں گے۔ ستایش کی توقع رکھنا آپ کا حق بھی ہے۔ اثباتِ ذات کا تقاضا بھی۔ اور اب یہ ممکن بھی ہے۔ آپ فیس بک وال پر لکھ سکتے ہیں۔ اور اگر کچھ بہتر لکھ سکتے ہیں تو مختلف ویب ہیں۔ جو آپ کی بات زیادہ سے زیادہ قارئین تک ڈلیور کر سکتے ہیں۔ ’’ہم سب‘‘ تقریباً سب سے زیادہ پڑھی جانے والی ویب ہے۔ اس کی پالیسی بھی مثالی ہے۔

دائیں یا بائیں بازو کا بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ آپ کی تحریر نظریات کی بِنا پر رد نہیں کی جاتی۔ میری اپنی تین تحریریں چھپ چکی ہیں اور میں ’’ہم سب‘‘ کا مستقل قاری بھی ہوں۔ جنس بھی قابلِ بحث چیز ہے۔ اس پر بھی بات کرنا شچرِ ممنوع نہیں۔ لیکن کوئی بات، کوئی نظریہ، کوئی سوچ کچھ تو ہو۔ بھلے غلط ہو یا صحیح کوئی موقف تو ہو۔ اب ’’ہم سب‘‘ انتظامیہ نے یہ وتیرہ بنا لیا ہے۔ کہ کوئی بھی انڈین میڈیا سے گھسی پٹی بولی وُڈ کی نیوز لیتے ہیں اور اسے چٹخارے دار بنا کر ویب کی زینت بنا دیتے ہیں۔ آپ لنک کھولیں گے تو دو سطری خبر ہو گی۔ فلاں اداکارہ نے فلاں فلم میں یہ سین کیا۔ بھائی آپ کا یو ٹیوب والوں سے کوئی معاہدہ ہوا ہے کہ لوگ پہلے آپ کی نیوز پڑھیں، پھر یو ٹیوب پر جا کر سین سرچ کریں؟ اب بظاہر یہی دلیل متوقع ہے کہ ویب کے اخراجات ہیں۔ کمرشل ادارہ ہے لنک کھلتا ہے۔ تو پیسے آتے ہیں۔ پیسے تو بہت سے لوگ معیاری کام کر کے بھی بہت اچھے کما رہے ہیں۔

’’ہم سب‘‘ کی ٹیم میں صفِ اول کے لکھاری ہیں۔ جن کی ایک شناخت ہے، عزت ہے معیار ہے۔ لوگ آپ سے متاثر ہوتے ہیں۔ آپ جیسا۔ لکھنا چاہتے ہیں بننا چاہتے ہیں۔ آپ جو کچھ بھی علمی ہے، ادبی ہے، معلوماتی ہے، جو بھی ہے، جیسا بھی ہے پیش کریں۔ لیکن اگر آپ صرف یہ کہیں کہ ہم نے تو ایک کاروبار کیا ہے۔ جیسے منافع ہو گا ویسے ہی چلائیں گے، پھر یہی کہا جا سکتا ہے۔ کہ اگر یہ دھندا ہے تو پھر بہت گندا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).