فرشتہ کا باپ گل نبی کیا کہتا ہے


میرے سامنے 23 مئی کے اخبارات دھرے ہیں۔ چھوٹی بڑی سرخیاں فرشتہ مہمند کے اندوہناک قتل کے واقعے کا پیش منظر بتا رہی ہیں۔
فرشتہ ایک چھوٹی سی قبر میں سو رہی ہے جس کی تازہ مٹی پر کچھ پھول دھرے ہیں۔ میڈیا اس قبر کی دس سالہ مکین کے بارے میں خبروں سے اٹا پڑا ہے۔ خبروں کی فراہمی کا یہ سلسلہ گذشتہ چار روز یعنی 19 مئی سے جاری ہے۔ پولیس نے اس واقعے کی ابتدائی اطلاعی رپورٹ 19 مئی اتوار کی رات کو فرشتہ کی مسخ شدہ لاش ملنے اور لواحقین کے احتجاج کے بعد درج کی۔ لواحقین نے 15 مئی کو لاپتہ ہوئی فرشتہ کی 19 مئی کو ملنے والی لاش ضروری قانونی کارروائی کی یقین دہانی تک دفن کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کے احتجاج کا سبب وہ رویہ تھاجو وہ چار روز سے تھانے میں دیکھ رہے تھے۔

فرشتہ 15 مئی کو لاپتہ ہوئی تھی۔ اس کے گھر والوں کو علاقے کے تھانے سے رابطہ کرنے پر مایوس کن اور تکلیف دہ رویئے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ عباس نامی ایک پولیس افسر نے جو معلوم نہیں کس میرٹ پر بھرتی ہوا اور پتہ نہیں کون سی پیشہ ورانہ تربیت کے بعد شہزاد ٹاؤن تھانے کا ایس ایچ او لگ گیا تھا، نے ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کر دیا اور غمزدہ خاندان کو بتایا کہ بچی کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہو گی۔ سنا ہے اس وقت وہ تھانے کے صحن میں اپنے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔

فرشتہ نہ ملنے پر جب اس کے گھر والوں نے بے قرار ہو کر بار بار عباس کے تھانے (جہاں معاملات بجائے پاکستان کے قانون کے عباس کے قانون کے تحت چلائے جا رہے تھے ) کا رخ کیا تو ان کا دھیان بٹانے کے لئے عباس اور اس کے ماتحتوں نے مبینہ طور پر انہیں تھانے کے واش روم صاف کرنے پر لگا دیا۔ 15 مئی سے 19 مئی تک قیامت کے ان چار دنوں میں پولیس نے انہیں باہر احتجاج کرنے سے بھی روکنے کی کوشش کی۔ میڈیا کے ایک سیکشن کو غمزدہ لواحقین کے احتجاج میں غیر ملکی سازشیں نظر آ گئیں اور ایک ٹی وی چینل نے بتایا کہ فرشتہ کا باپ تو افغان تھا۔

بے حسی، بے شرمی اور سفاکیت کا یہ مظاہرہ جب حد سے بڑھا اور قریب تھا کہ گل نبی کے اعصاب تڑخ جاتے کہ فرشتہ کی لاش نے دریافت ہو کر باپ کو پاگل ہونے سے بچا لیا۔ اب ساری عمر روتا پھرے گا۔

23 مئی بروز جمعرات کے اخبارات بتا رہے ہیں کہ وزیر اعظم نے اس واقعے کا سخت نوٹس لے لیا ہے۔ چند پولیس اہلکار معطل کر دیے گئے ہیں اور ناقص کارکردگی کی رپورٹ طلب کر لی گئی ہے۔

اخبارات بتاتے ہیں کہ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے معصوم فرشتہ کے بہیمانہ قتل کو انتہائی قابل مذمت قرار دیا ہے۔ اپنے بیان میں فوجی ترجمان نے واقعے کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے اور پاک فوج کی طرف سے اس معاملے پر ہر قسم کی مدد دینے کی بات کی ہے۔

اخبارات مزید بتاتے ہیں کہ اسلام آباد پولیس کے سربراہ انسپکٹر جنرل پولیس محمد عامر ذوالفقار خان فرشتہ کے گھر گئے ہیں اور گل نبی کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ملزموں سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ میڈیا بتا رہا ہے کہ بچی کے والد نے آئی جی کا شکریہ ادا کیا ہے۔ میڈیا کے بقول گل نبی نے کہا کہ آئی جی کی باتوں پر پورا یقین اور اعتماد ہے اور آئی جی نے اصل ملزموں تک پہنچنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ حمزہ شفقات بھی واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دے چکے ہیں۔

امیر جماعت اسلامی سراج الحق بھی فرشتہ مہمند کے گھر گئے ہیں اور پسماندگان سے اظہار تعزیت کے بعد میڈیا سے بات چیت میں حکومت کو چند گھنٹوں کی مہلت دی ہے کہ وہ مجرموں کو پکڑ کر چوک میں عبرتناک سزا دے تاکہ آئندہ ایسا کوئی سوچے بھی نہیں۔

سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سے پارلیمنٹ ہاؤس میں فرشتہ کے والد گل نبی اور لواحقین کو ملوایا گیا۔ سپیکر نے فرشتہ کے خاندان کو مکمل انصاف کی یقین دہانی کروائی ہے اور کہا کہ انصاف نہ صرف ہوگا بلکہ ہوتا دکھائی دے گا۔

سینیٹر شیری رحمان پارٹی وفدکے ساتھ فرشتہ کے گھر آئی ہیں اور مقتول بچی کے والدین سے اظہار تعزیت کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے غفلت برتنے والے پولیس افسران کونوکری سے برطرف کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ انہوں نے میڈیا کو اور میڈیا نے ہمیں بتایا ہے کہ قصور واقعے کے بعد بھی اس طرح کے واقعے دیکھنے کو مل رہے ہیں اور اب یہ معاملہ سینیٹ میں اٹھایا جائے گا۔

ان قائدین کے علاوہ سول سوسائٹی، وکلا تنطیموں، تاجر ایسوسی ایشنوں، پرائیویٹ سکولوں کی تنظیموں کے علاوہ میڈیا ایسے دردمندوں کے بیانات سے بھرا پڑا ہے جو اس واقعے پر بے چین ہیں۔ میڈیا کے مطابق ننھی فرشتہ کے گھر تعزیت کے لئے آنے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔

یہ سب خبریں مجھے بڑی حوصلہ افزا لگ رہی ہیں۔ اہل اختیار اور معاشرہ جاگ اٹھا ہے۔ ہر طرف بے چینی ہے۔ اب کے اس المیئے سے کچھ سبق لیا جائے گا اور ملک کے ہر حصے میں معصوم بچوں کو اس شیطانیت کا نشانہ بننے سے بچانے کا جتن کیا جائے گا۔ لیکن گل نبی پتہ نہیں کیوں ایسا نہیں سوچتا۔ ذرا دیکھیں گل نبی کیا کہتا ہے حالانکہ وزیراعظم سے لے کر نجی سکولوں کی ایسوسی ایشن کے عہدیداروں تک سب اس کا ساتھ دینے کی بات کر رہے ہیں۔

”یہ دیکھ لیں۔ اتنے کارڈوں کو میں کیا کروں گا؟ جو بھی آتا ہے یہ میرا کارڈ رکھ لو۔ یہ کارڈ دیکھ۔ یہ قومی سپیکر سے لے کے نا۔ اب صرف اس میں ایک عمران خان کا کارڈ نہیں ہے اور وزیر کوئی داخلہ نہیں ہے۔ باقی یہ دیکھو یہ سب (جیب سے مٹھی بھر وزیٹنگ کارڈ نکال کر ویڈیو بنانے والے کو دکھاتا ہے ) ۔ میں ان کارڈوں کا کیا کروں گا؟ میت کے گھر میں لوگ کانفرنس بنا رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاسی گفتگو ہو رہی ہے جی۔ کل تک یہاں الیکشن بھی نہ ہو جائے۔ یہ مجھے چھوڑ دیں خدا کے لئے۔ بچی تھی بس گئی۔ آٹھ نو دن ادھر جنگلوں میں پڑی ہیں۔ وہ جانوروں نے کھائی ہیں۔ بس ہمیں کوئی ٹوٹی ہوئی ملی ہیں۔ وہ ہم نے دبا دی ہیں۔ بس چلو چھوڑ دیں بس۔ میں ایک غریب آدمی یہاں ایک کرائے کا چھوٹا سا مکان میں رہ رہا ہوں۔ میرے اوپر جگہ تنگ نہ کریں۔ “

”یہ ایس ایچ او معطل ہو گیا۔ یہ معطل ہو گیا۔ وہ معطل ہو گیا۔ وہ معطل کریں گے نہ کریں گے ان کا مسئلہ ہے۔ مجرم ان لوگوں کا کام ہے پکڑیں نہ پکڑیں، ان کے کام ہیں۔ یہاں ایسا خیال ہی نہیں تھا کہ سرکار کو نہ پتہ ہے۔ بچی میرا مری ہے۔ وجود میرا کٹ گیا۔ الٹا پھر وہی آتا ہے وہی بات کرتا ہے۔ یہ کتنا بندے یہاں کھڑے ہیں؟ رات کے فیصلوں سے کون مطمئن ہے مجھے بتائیں؟ (سب پریشان ہیں، وہاں موجود کوئی دوسرا شخص جواب دیتا ہے ) یہ کیا پتہ ہے، میں کل سے کیا پتہ ہے میں اپنی فیملی کو یہاں سے تالا لگاؤں ہم ایک دوسری جگہ پہ ہفتے کے لئے چلے جاؤں۔ لیکن بے شک ادھر آ جائے کدھر گیا بھائی چلو جی۔ بلکہ میں ادھر لکھ بھی دوں گا دیوار پہ۔ “

”بھائی میں شروع سے میں ٹینشن میں تھا ابھی مجھے مزید اور تنگ کرتے ہیں لوگ۔ مجھے مزید اور ٹینشن دے رہے ہیں۔ یہاں کوئی بھی فائدہ نہیں ادھر جی۔ ان بچی کی وجہ سے میں نے بہت غلطی کی ہے جو میں نے تھانے میں درخواست دی۔ میں ایک غریب آدمی ہوں۔ دن میں ایک پانچ سو ہزار روپے دیہاڑی کمانے والا بندہ ہوں۔ آج جو سات آٹھ دن سے میرا جو فیصلہ آ رہا ہے کوئی سنتا ہے۔ میں بالکل مطمئن نہیں۔ اور میں ہوں گا بھی نہیں۔ مجھے بے شک منسٹر کوئی تسلی دے۔ بے شک صدر دے دے، کوئی بھی دے دے، میں نہیں ہوں گا۔ جب میں شروع سے مطمئن نہیں ہوں، شروع سے انہوں نے مجھے مطمئن نہیں کیا۔ ابھی تو خیر بچی مجھے جس حالت میں ملی ہے، میرے جیسا اولاد اللہ کافر کے والدین کے سامنے بھی نہ آئے۔ جیسا اللہ نے مجھے دکھایا ہے۔ میں پھر کس بات کا پلس کے محکمے سے کہوں۔ آج آئی جی بھی آ رہا ہے۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).