فرشتہ کا قتل اور ہماری بے حسی


ابھی قصور میں ننھی کلی زینب سمیت ایک درجن سے ذائد معصوم بچیوں اور نوشہرہ کی کم سن عاصمہ کا جنسی زیادتی کے بعد قتل ہونے والا زخم ٹھیک سے بھر نہ پایا تھا کہ دنیا کا خوبصورت ترین دارالحکومت کہلائے جانے والے شہر اسلام آباد میں دس سالہ معصوم بچی فرشتہ مہمند کے اغوا اور جنسی تشددکے بعد قتل کے لرزہ خیز واقعے نے ہماری اجتماعی بے حسی اور خاص کر ہمارے بوسیدہ اور تعفن زدہ ریاستی نظام اور اس میں پولیس کے کردار کو ایک بار پھر بے نقاب کردیا ہے۔

واضح رہے کہ اسلام آباد کے علاقے شہزاد ٹاؤن میں رہائش پذیر ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والے گل نبی نے 16 مئی کو متعلقہ تھانے میں رپورٹ درج کروائی کہ اس کی دس سالہ بچی فرشتہ گھر سے غائب ہے۔ اسے شبہ تھا کہ اس کی بیٹی کو اغوا کر لیا گیا ہے لیکن اسلام آباد کی مثالی پولیس نے پہلے توایک غریب محنت مزدوری کرنے والے شخص کی رپورٹ پر ایف آئی آر درج کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی البتہ جب چند روز بعد جب ننھی فرشتہ کی لاش شہزاد ٹاؤن سے ملحقہ جنگل سے برآمد ہوئی اور اس پر سوشل میڈیا میں ہلچل مچی تو پولیس کو عوامی دباؤ اور ممکنہ حکومتی دباؤ سے نمٹنے کی غرض سے فرشتہ کے باپ کی شکایت پر ایف آئی آر درج کرنا پڑی اور اب تقریباً سات آٹھ روز کے بعد جب وزیر اعظم پاکستان کواپنے پہلو میں اس بہیمانہ قتل کی خبرہوئی ہے توانہوں نے سابقہ حکمرانوں کے فرسودہ اور روایتی طریقوں کا سہارا لیتے ہوئے جہاں متعلقہ تھانے کے ایس ایچ اواور ڈی ایس پی کو معطل کردیا ہے وہاں اس واقعے کی انکوائری کے احکامات بھی جاری کر دیے گئے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اگر معاشرے کی ایک معصوم اور کم سن بچی اسلام آباد جیسے پوش اور حساس شہر میں محفوظ نہیں ہے تو ہماری ان گمنام اور کم سن بچیوں کی عزت وناموس اور ان کی زندگیوں کے تحفظ کا کیا حال ہوگا جو بلوچستان، سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا کے دورافتادہ اور ریاستی عملداری سے محروم جنگل نما علاقوں میں اپنی زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔ رہی بات فرشتہ کی تو وہ ننھی پری ایک عام سے محنت کش کی بیٹی تھی اور یہی اس کا سب سے بڑا جرم تھا۔

اگر اس ننھی پری کا تعلق ملک کی اشرافیہ سے ہوتا تو شاید ابھی تک زمین پھٹ چکی ہوتی، پولیس نے قاتلوں کی تلاش کے لئے زمین آسمان ایک کر دیے ہوتے اور شاید اب تک ہماری آزاد عدلیہ بھی اس المناک واقعے کا ازخودنوٹس لے چکی ہوتی لیکن چونکہ فرشتہ کا تعلق اس معاشرے کے ایک کمزور اور زیریں طبقے سے ہے اس لئے ایساکچھ بھی نہیں ہوا اور شاید دوچار روز کے شور اور فوٹوسیشنز کے بعد بھی مزید کچھ ہونا نہیں ہے کیونکہ یہ تومحض ایک واقعہ ہے جو فرشتہ کے والد اور اہل خانہ کی ہمت اور ثابت قدمی کے باعث سامنے آچکا ہے ورنہ کیا اس تلخ حقیقت سے ہم سب واقف نہیں ہیں کہ اس طرح کے واقعات ہمارے اردگرد روزمرہ کا معمول ہیں اور ہمارا فرسودہ ریاستی نظام ان المناک واقعات کو نہ صرف تحفظ دینے میں پیش پیش رہتا ہے بلکہ اس طرح کے واقعات سے متاثرہ خاندانوں کے ساتھ تھانہ کچہری اور سماجی طور پر یہ پورا معاشرہ جو بے رحمانہ سلوک کرتا ہے اس سے بھی ہم سب بخوبی واقف ہیں۔

ننھی فرشتہ کے المناک قتل پر ایک ہفتے بعد ہمارامیڈیا، سیاستدان اور نام نہاد سول سوسائٹی جودھماچوکڑی ڈال رہے ہیں اس کے پیچھے فرشتہ یا اس کے بدقسمت خاندان سے ہمدردی یا اظہا ریکجہتی سے زیادہ اپنے مفادات کی تکمیل اور اپنی اپنی دکانیں چمکانا ہے اگر ایسانہیں ہے تو ان تمام طبقات کا مگرمچھ کے آنسو بہانے کے یہ ڈرامے محض اس طرح کے واقعات رونما ہونے اور یہ واقعات منظر عام پر آنے تک ہی کیوں محدود ہیں۔ ایک سوال یہ ہے کہ ہمارامیڈیا، سیاستدان، متعلقہ ادارے اور بحیثیت مجموعی ہمارا معاشرہ آخر کب تک اس خودغرضی اور بے حسی کا مظاہرہ کرتے رہیں گے کیا کبھی یہ تاریک شب روزروشن میں بھی تبدیل ہوسکے گی یا پھر ان اندھیری راتوں میں ٹھوکریں کھاتے رہنا ہی ہمارا مقدر ٹہرے گا۔

کیا ہماری سیاسی جماعتوں کاکام اس طرح کے اندوہناک واقعات پر محض مذمتی بیانات جاری کرنا ہے۔ کیا ہمارامیڈیا محض ایک دو روز تک اس طرح کے واقعات کو سرخیوں اور بریکنگ نیوز میں جگہ دے کر ان واقعات کے پے درپے اعادے سے خود کو بری الزمہ قرار دے سکتا ہے۔ ہمارے علماء کرام اور فقہائے عظام جن کی سوئی چاند کے نظر آنے اور نظر نہ آنے کے بحث پراٹکی ہوئی ہے کیا وہ معاشرے میں پروان چڑھتے جنسی تشدد اور معصوم کلیوں کے چٹخے جانے کے واقعات میں آئے روز ہونے والے اضافے اور اس طرح کے واقعات پر ہماری بے حسی کو کبھی اپنی تقاریر کا موضوع بنا پائیں گے۔

یہ وہ تلخ سوالات ہیں جن کاجواب پورے معاشرے پر قرض ہے۔ جب تک ہمیں ان سوالات کے جوابات نہیں ملیں گے تب تک فرشتہ جیسی معصوم کلیاں یونہی درندگی اور سفاکی کا شکار ہوتی رہیں گی۔ دراصل قصور کی ننھی زینب کے سفاکانہ قتل کے دلخراش واقعے پر سماجی ردعمل سامنے آنے کے بعدیہ امید ہو چلی تھی کہ شاید یہ بوسیدہ نظام اور بے حس معاشرہ جنسی زیادتی کے مجرمانہ فعل کی مذمت کرتے ہوئے ارباب اختیار کو مجبور کر دے گا کہ وہ اس طرح کے واقعات میں ملوث مجرموں کو دنوں اور ہفتوں پر مبنی ٹرائل کے ذریعے عبرتناک سزائیں دلوائیں گے لیکن شاید یہ ہماری خوش گمانی یاخوش فہمی تھی کیونکہ اگرایسا نہ ہوتا توآج ہمارادل ایک بارپھر فرشتہ اور ہری پور اور بونیر کی اسی طرح کے واقعات کا شکار ہونے والی معصوم کلیوں کے بے دردی سے مسلے جانے پر خون کے آنسو نہ بہا رہا ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).