جنگل سے جو لاش ملی، ہم سب کی ہے


پندرہ مئی کو اسلام آباد سے ایک دس سالہ معصوم بچی ”فرشتہ مہمند“ غائب ہوئی۔ اس کے والد کی جانب سے پولیس سے رابطہ کیا گیا مگر پولیس نے ہمیشہ کی طرح کسی قسم کی کوئی سنجیدہ کارروائی نہ کی۔ 20 مئی کو اس معصوم کی جلی ہوئی مسخ شدہ لاش جنگل سے ملی۔ لاش کی حالت دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ اس معصوم فرشتہ کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کرکے لاش کو جلا کے جنگل میں پھینکا گیا۔ یہاں ایک دفعہ پھر ریاستی اداروں نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اور نہ صرف یہ کہ مقدمہ درج نہیں کیا گیا بلکہ مقامی ہسپتال انتظامیہ نے یہ کہہ کر پوسٹ مارٹم سے انکار کردیا کہ اب ہسپتال کا ڈیوٹی ٹائم ختم ہو چکا ہے۔

اس معصوم کے والد جلی ہوئی لاش لیے دربدر خوار ہوتے رہے۔ آخرِ کار انہیں احتجاج کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔ اسی اثنا میں یہ خبر ملک بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور لوگوں نے غم و غصے کا اظہار کرنا شروع کردیا۔ اس کے بعد مجبور ہو کر ریاستی مشینری ایکشن میں آئی اور تھانہ چک شہزاد کے ایس ایچ او اور متعلقہ سرکل کے ڈی ایس پی کو معطل کردیا گیا۔ اس طرح ایک دفعہ پھر زینب قتل کیس کی تاریخ دہرائی گئی۔

ایک دوشیزہ کی جب لاش ملی تھی بن سے

شہر پہچانا گیا اپنے کمینے پن سے

یہاں المیہ یہ ہے زینب کے واقعے سے ہم نے کوئی سبق نہیں لیا۔ نہ تو اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی قانوں سازی کی گئی، نہ ہی عوام کو اس سلسلے میں کوئی آگاہی دی گئی۔ آج بھی ہر آنے والا دن اس طرح کی کئی داستانیں ساتھ لے کر طلوع ہوتا ہے۔ اکثر اس طرح کے واقعات رسوائی کے خوف سے سامنے ہی نہیں لائے جاتے۔ جو چند واقعات سامنے آتے ہیں ان میں بھی ریاست کا کردار شرمندگی سے بھرا ہوتا ہے۔ فرشتہ مہمند کیس میں بھی ریاست کی بوسیدگی کھل کر سامنے آئی اور تبدیلی کے دعوؤں ہی قلعی کھل گئی۔

کوئی ہے جو ایدھی کو جا کر بتائے

ریاست کی میت سے بو آرہی ہے

فرشتہ مہمند کے خاندان کا تعلق قبائلی علاقے ضلع مہمند سے ہے۔ اس تعلق کو بنیاد بناتے ہوئے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس کے ساتھ اس طرح کے سلوک کی ایک وجہ اس کا پشتون ہونا بھی ہے۔ اسی وجہ سے پشتون تحفظ مومنٹ بھی اس معاملے پر بھرپور احتجاج کررہی ہے۔ مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ تمام تنظیمیں احتجاج سے محض ریاست پر اپنا دباؤ بڑھانا چاہ رہی ہیں وگرنہ انہیں دراصل فرشتہ مہمند سے کوئی ہمدردی نہیں۔ اس کے والد کا دکھ کوئی نہیں سمجھ رہا، ہر کوئی اس واقعے کی آڑ میں محض اپنا الو سیدھا کرنے کے چکر میں ہے۔ اس کے سینے پر جو گھاؤ لگا ہے وہ کبھی مندمل نہیں ہو سکتا، جب جب اپنی معصوم بیٹی کی جلی ہوئی تشدد زدہ لاش اس کے خیال میں آئے گی وہ سو نہیں پائے گا۔ معاشرے کی ہمدردی بھری نگاہیں اس کے لیے وبالِ جان بن جائیں گی کیونکہ ترس اور ہمدردی کے جذبات خوددار لوگوں کے لیے طعنوں سے بھی بڑھ کر ہوتے ہیں۔

اس نام نہاد اسلامی معاشرے کے زوال کی انتہا یہ ہے کہ یہ واقعہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں ہوا ہے۔ وہ ماہ جس میں شیطان تک کو قید کردیا جاتا ہے، اس میں انسان اگر شیطان کی عدم موجودگی میں یہ فعل انجام دے رہا ہے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان اب شیطانیت کی تمام حدود سے تجاوز کرچکا ہے۔ یہ یقیناً لمحہ فکریہ ہے اس معاشرے کے لیے جو اخلاقیات کے بلند و بانگ دعوے کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔

خدارا محض مذمتی قراردادوں اور نام نہاد احتجاجوں کی روایت سے آگے بڑھیے، ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے وہ اقدامات اٹھائیے جن سے ہماری سنجیدگی کا اندازہ ہو۔ قانون سازی کیجیے کہ جو کوئی درندہ ایسا فعل انجام دے گا اسے عبرت کا نمونہ بنایا جائے گا۔ بطورِ مجموعی بچوں کی حفاظت کے لیے والدین میں آگاہی پھیلانے کے لیے اقدامات کیجیے۔ ایسے اندوہناک واقعات کے متعلق نصاب میں تنبیہی ہدایات شامل کیجیے۔ بچوں کو سکھائیے کہ آج کے اس درندوں بھرے دور میں انہیں رہنا کیسے ہے۔ اگر ہم ایسے ہی محض زبانی دعوؤں، مذمتوں اور احتجاجوں تک محدود رہے تو فرشتہ جیسی معصوم بچیاں اسی طرح درندگی کا نشانہ بنتی رہیں گی اور یہ معاشرہ ناقابلِ برداشت ہوجائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).