آئی ایم ایف کے بعد دیگر مالیاتی اداروں سے قرضوں کا حصول ممکن ہو گا: عبدالحفیظ شیخ


حفیظ شیخ
حفیظ شیخ کے مطابق حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جو ٹیکس دے رہے ہیں ان پر مزید بوجھ نہیں ڈالا جائے گا

وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ آئندہ مالی سال کی بجٹ کی بنیاد کفایت شعاری ہو گی۔ انھوں نے اس بجٹ میں محصولات کا ہدف 5.55 ٹریلین روپے رکھنے کا اعلان کیا جو کہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں ایک تہائی سے بھی زیادہ ہے۔ عبدالحفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ مالیاتی استحکام، کفایت شعاری اور محصولات میں اضافہ موجودہ حکومت کے معاشی منصوبے کے تین بنیادی ستون ہوں گے۔

سنیچر کو دارالحکومت اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آنے والا مالی سال پاکستان کے لیے استحکام کا سال ہو گا جس میں معیشت کو ایسی پائیدار بنیاد فراہم کی جائے گی جس سے آئندہ ترقی کا سفر آسان ہو سکے گا۔

’آئندہ سال کا بجٹ کفایت شعاری کا بجٹ ہو گا اور اس میں ہم سب ساتھ کھڑے ہیں چاہے سویلین ہوں، فوج ہو یا نجی کاروباری ادارے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ آئندہ مالی سال کے لیے ’محصولات کا ہدف 5550 ارب روپے رکھا گیا ہے۔‘ معاشی ماہرین کے مطابق یہ ہدف گذشتہ مالی سال کے مقابلے میں 36 فیصد زیادہ ہے جس کا حصول بظاہر مشکل نظر آتا ہے۔

فوج کے اخراجات

دفاعی بجٹ کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ’تمام ادارے بشمول سویلین اور فوج اس بات پر متفق ہیں کہ سنجیدہ اور پائیدار ادارہ جاتی اصلاحات ہونی چاہییں اور اس کے لیے مشکل فیصلے کرنے پڑے تو کیے جائیں گے۔‘

تاہم انھوں نے کہا کہ پاکستان ایک ’مشکل خطے‘ میں واقع ہے جہاں ہمارے ہمسایہ ممالک ’مشکل ہمسائے‘ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کسی بھی ملک کے لیے اس کی عزت، وقار اور لوگوں اور ملک کی سرحدوں کی حفاظت سب سے بڑی چیز ہوتی ہے۔ باقی سب باتیں اس کے بعد آتی ہیں۔‘

حفیظ شیخ نے یہ بھی کہا کہ ’ہم پاکستان اور اس کے لوگوں کی حفاظت کے لیے جو بھی قربانی دے سکیں گے وہ دیں گے اور اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے۔ نہ ان لوگوں کو جو پاکستان کا اچھا سوچتے ہیں نہ وہ جو ملک کا برا سوچتے ہیں۔‘

مشیر خزانہ نے بتایا کہ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ کیا گیا ہے اس کے مطابق چھ ارب ڈالر کا قرض 3.2 فیصد شرح سود پر ملے گا اور یہ رقم ادارے کے بورڈ سے منظوری کے بعد پاکستان کو مل جائے گی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے بعد ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک بھی پاکستان کو دو سے تین ارب ڈالر کا قرض دے سکیں گے جبکہ اسلامی ترقیاتی بینک سے بھی 1.2 ارب ڈالر کے حصول کی راہ ہموار ہو گی۔

‘یہ قرض مخصوص پروگرام کے عوض ہوں گے نہ کہ منصوبوں کے عوض۔ پاکستان کو گذشتہ دو برسوں سے ان مالیاتی اداروں سے قرض نہیں مل رہا تھا مگر اب آئی ایم ایف کے بعد یہ سلسلہ بحال ہو جائے گا۔’

آئی ایم ایف
آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر کا قرض 3.2 فیصد شرح سود پر ملے گا

انھوں نے کہا کہ اس قرض کے حصول سے دنیا کو پیغام ملے گا کہ پاکستان باقاعدہ طریقے سے اپنی معیشت کو آگے لے کر بڑھنا چاہ رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سعودی عرب نے پاکستان کو سالانہ 3.2 ارب ڈالر ادھار تیل کی سہولت دی ہے جو کہ اگلے تین سال تک جاری رہے گی۔ ‘اس سے زرمبادلہ کے ذخائر پر جو بوجھ پڑتا ہے وہ کم ہو گا۔’

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو معیشت بری حالت میں ملی تھی تاہم دوست ممالک بشمول چین، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی مدد سے حاصل ہونے والے 9.2 ارب ڈالر، درآمدات کی حوصلہ شکنی اور شرح سود میں اضافہ کر کے حکومت نے حالات کو مکمل خراب ہونے سے روکا۔

حفیظ شیخ نے یہ بھی بتایا کہ اگلے چند ہفتوں میں اور بجٹ کے آنے کے بعد اہم معاشی فیصلے کیے جائیں گے۔

آئی ایم ایف کے پاس جانے کے حوالے سے ہونے والی تنفید کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کے آئی ایم ایف اسی لیے بنا ہے کہ جب رکن ممالک مشکل معاشی صورتحال سے دوچار ہوں تو ان کی مدد کر سکے۔ پاکستان اس سے قبل متعدد مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جا چکا ہے جبکے دوسرے ممالک بھی جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان معاشی اقدامات اور قرضوں کے حصول کی وجہ سے پاکستان کی مارکیٹ میں لوگوں کا اعتماد بحال ہوا ہے۔ ’سٹاک مارکیٹ جو گذشتہ کافی عرصے سے ڈھیلے انداز میں چل رہی تھی اس میں سات فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔‘

مہنگائی کم اور محصولات بڑھیں گی

مشیر خزانہ کا کہنا تھا کے حکومت صرف اسی صورت میں عوامی فلاح و بہبود کا کام کر سکتی ہے اگر محصولات اکٹھے ہوں اور اس لیے ایف بی آر کے نئے سربراہ شبر زیدی کو ’5550 ارب روپے ٹیکس اکٹھا کرنے کا ہدف دیا گیا ہے۔’

انھوں نے کہا کہ پاکستان کے امیروں کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ ’پاکستان میں اکٹھا ہونے والا ٹیکس ہماری آمدن کا صرف 11 فیصد ہے جبکے خطے کے دوسرے ممالک میں یہ شرح 16 سے 20 فیصد تک ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’پاکستان میں صرف 20 لاکھ ٹیکس دہندگان ہیں جن میں سے چھ لاکھ لوگ تنخواہ دار طبقے سے ہیں جن کا ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے جبکہ صرف 360 لوگ اور کمپنیاں ایسے ہیں جو اکٹھے ہونے والے ٹیکس کا 85 فیصد ادا کرتے ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جو ٹیکس دے رہے ہیں ان پر مزید بوجھ نہیں ڈالا جائے گا جبکہ جو نہیں دے رہے ان کو ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جائے گا۔

’28 ممالک سے حاصل ہونے والے ڈیٹا اور ملک میں موجود ڈیٹا کی مدد سے ٹیکس چوری کرنے والوں کی نشاندہی کی جائے گی اور ان کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔‘ انھوں نے بتایا کہ بجلی کے لاسز 38 ارب روپے ماہانہ سے 26 ارب پر لائے جا چکے ہیں اور سنہ 2020 تک بجلی کے نقصانات کو مکمل ختم کر دیا جائے گا۔

حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ ملک میں مہنگائی کی بنیادی وجوہات روپے کی قدر میں کمی اور تیل کی قیمت کا عالمی سطح پر بڑھنا ہے، جس پر حکومت کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ سنہ 2014 میں تیل کے فی بیرل کی قیمت 24 ڈالر تھی جو کہ سنہ 2019 میں 69 ڈالر فی بیرل ہے۔

’ہماری پالیسی یہ ہو گی کہ ہم اپنے کمزور ترین طبقوں کی حفاظت حکومتی امدادی پیکج کے ذریعے کریں گے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp