محبت اور جنس کی کشمکش


ایک تخلیق کار جب کسی خیال کے گرد تخلیقی تار وپور بُنتا ہے تو اس کے سامنے اپنا سماج، رواج اور بشری تعلقات اور ان سے وابستہ سوالات ہوتے ہیں۔ روایت اور جدت کے حُسن میں کہانی اپنا سفر طے کرتی ہے۔ میں نے ناول ”زینہ“ کے بارے میں کچھ ایسا ہی محسوس کیا ہے۔

مجھے یاد ہے جب میں پہلی بار خالد فتح محمد سے گوجرانوالہ میں ملا اس وقت ان کے پہلے ناولٹ ”خلیج“ کی تقریب پذیرائی تھی۔ جس پر میں نے ایک مضمون پڑھا تھا۔ شاید 10 یا 12 برس پہلے کی بات ہے۔ اب 2019 ء ہے اس دوران خالد فتح محمد کی دوسری تخلیقات منظر عام پر آئی ہیں۔ جو اس بات کا ثبوت کہ وہ تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال قلم کار ہیں۔ اگر ”خلیج“ کی اشاعت کو دیکھا جائے اور ان کے موجودہ ناول کے درمیان گیارہ، بارہ برس ہ کا فرق ہے جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے۔

اس دوران ان کے ناول ”پری ٹبا“۔ ”سانپ سے زیادہ سراب“۔ ”شہر مدفون“۔ ”اے عشق بلا“۔ ”جنی“۔ ”کوہ گراں“ اور ”زینہ“ سات ناول ان کے نام سے منسوب ہیں افسانوں کے مجموعوں میں ”داغ داغ اجالا“۔ ”جمع تقسیم“۔ ”پانچ منٹ کی زندگی“۔ ”آئینے سے باہر چہرہ“۔ ”تانبے کے برتن“ اشاعت پذیر ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں چار کتابیں ترجموں کی بھی ہیں جن میں با پ کا گھر بیکارکے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ و سال جمیلہ، بیرک نمبر 72 کے قیدی۔ یو ں ان کی 16 کتب ہمارے سامنے موجود ہیں۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ خالد فتح محمد کس قدر توانا تخلیقی شخصیت کے مالک انسان ہیں۔ جبکہ ان کے دو ناول ”وقت کی باگ“۔ ”سودزیاں کے درمیان“۔ ”بازگشت“ (افسانے ) اور ایک ترجمہ ناول ”بے نام گلیاں“ اشاعت پذیر ہیں۔

خالد فتح محمد نے اپنے وقت کو افسانوں ناولوں اور ترجموں میں جس مہارت سے تقسیم کر رکھا ہے، وہ ان کا خاصہ ہے۔ ان کے تخلیقی ذہین کی بہار کا یہ عالم ہے۔ بیک وقت افسانوں اور ناولوں کے پلاٹ ان کے دماغ میں موجود ہوتے ہیں اس دوران وہ مطالعہ بھی کرتے ہیں اور کوئی انگریزی ناول کو ترجمہ کرنے بیٹھ جاتے ہیں کسی بین الاقوامی ادب کو جب ترجمے کے قالب میں ڈھالتے ہیں۔ زبان کا خیال رکھنا بڑا ضروری بھی ہے غیر ملکی زبان کوجب قومی زبان اردو میں لکھنا ہو تو بھی اردو کی تراکیب اور محاورے استعمال کرنے میں ایک اعلی پائے کی تخلیقی مہارت کا کام ہے۔ لہٰذا ناول کا ترجمہ بھی ایک مکمل تخلیقی عمل بن جاتا ہے۔

خالد فتح محمد کاموجودہ ناول ”زینہ“ بھی ایک اعلیٰ پائے کی ادبی تخلیق ہے جوکہ موجودہ سماجی منظر نامے کی بڑی شاندار تصویر کشی ہے۔ 380 صفحات پر محیط اس ناول کو میں نے تین نشستوں میں پڑھا۔ ناول کی کہانی موضوع کے اعتبار سے اس قدر زبردست ہے کہ قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے راوی جب اپنی کہانی سنانا شروع کرتا ہے تو میں بن کو مخاطب ہوتا ہے۔ صفحہ 109 پر جب پہلی بار اس کانام فیم پکارا جاتا ہے تو پڑھنے والا چونک جاتا ہے اچھا مرکزی کردار کا نام فیم ہے۔

یعنی ناول کا پلاٹ اور انداز تحریر اس قدر متاثر کن ہے۔ قاری کہانی کے بہاؤ میں بہتا چلا جاتا ہے۔ اوروہ مرکزی کردار کانا م جاننے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا۔ ناول میں جو دو موضوعات مجھے ذاتی طور پر بڑے طاقت ور محسوس ہوئے ایک مختلف مذاہب کے افراد کا آپس میں میل جول خصوصاً عورت اور مرد کا اور دوسرے اس ملک کی اصل سرکار کا کردار ہے۔ پہلے دو مذاہب کے مرد اور عورت کے تعلقات کی بات کرتے ہیں۔ کہانی کا ایک مسلمان کردار اپنی مسیحی محبوبہ یا بیوی سے پوچھتا ہے کہ بتاؤ عیسائی اور مسلمان کے بستر میں کیا فرق ہے۔

یہ ایک بہت بڑا سوال ہے اس کے کئی طرح کے جواب دیے جا سکتے ہیں۔ اگر عیسائی عورت بستر کی زیادہ بھرپور ساتھی ہے اس کے کیا محرکات ہیں کیونکہ سماجی لحاظ سے دونوں عورتیں ایک ہیں پھر اگر ایک زیادہ بھرپور ہے تو   اس کے پیچھے کیا محرکات ہیں، مذہبی تعلیم کا عمل دخل تو نہیں کیا؟ یہاں گناہ اور ثواب تو کارفرما نہیں ہیں؟ کہیں مسلمانوں کی حد سے زیادہ مذہبی تعلیم بستر میں بے دلی کا باعث تو نہیں؟ کیا زیادہ توانا اظہار کے باعث کوئی خاتون جنسی طور پرمردوں پر بھی حاوی ہو جاتی ہے۔

بہرحال ناول کا یہ باب جس میں دو مسلمان مرد ایک عیسائی عورت سے جنسی مکالمہ کرتے ہو ئے نظر آتے ہیں۔ ان دونوں مردوں میں ایک مسلمان مرد کسی اور مسیحی عورت کے عشق میں مبتلا ہوتا ہے۔  اور وہ مسیحی عورت اپنی مرضی سے مکالمہ کرنے والے دوسرے مرد سے ایک خواب نما ہم بستری کرتی ہے جو شاید ایسی گزرتی عمر کی اپنے سے چھوٹے عمر کے مرد سے ایک آخری ہم بستری ہوتی ہے ایک جملہ جو اس عورت کے منہ سے نکلتا ہے جو ہمارے سماج کے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ ہے وہ کہتی ہے تم مسلمان مرد ہم عیسائی عورتوں کو کھوتیاں سمجھتے ہو۔ یہ بھی ہمارا ایک سماجی سچ ہے ہم اپنے سماج کی اقلیتوں اور خاص طور پر اقلیتی عورتوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔

سندھ میں ہندو عورتوں اور پنجاب میں عیسائی عورتوں کے ساتھ شادی کے واقعات آئے دن اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ہمارا مائنڈ سیٹ اس طرز پر استوار ہے کہ اپنے آپ کو برتر اور دوسرے مذاہب کو کمتر سمجھو اور ان کی عورتوں کو لونڈیاں بنا کررکھو۔ ناول کے اس نکتے کواگر محرک بحث بنایا جائے تو بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے مردوں عورتوں کے آ پسی مذاہب تعلقات یعنی دو مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے مرد عورت کے جسمانی تعلقات خاصے کم ہیں۔ ان سے بہت کم آپس میں قانونی طور پر شادیاں کرتے ہیں۔ بہرحال یہاں اٹھائے گئے سوالات ایک بڑی بحث کا باعث بن جاتا ہے۔ ہماری تعلیم ہمیں سیکس کو گناہ سمجھنے کا ذریعہ بناتی ہے۔ کیا یہی وجہ ہے کہ مشرقی عورتوں کی بستر میں پھڑک کم ہو جاتی ہے جب کہ یورپ امریکہ کی عورتیں زیادہ بھرپور ہیں۔

”زینہ“ کا ایک اور طاقت ور موضوع اس ملک کی سرکار کا کردار ہے۔ راقم نے ایک مضمون پڑھا تھا جس میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ آخر سکھوں کو انگریزوں کی بے جا حمایت کا کیا صلہ ملا۔ اس سوال کو خالد فتح محمد کے ناول ”زینہ“ میں ہم آگے لے کر جاتے ہیں 70 سال سے ہماری اصل سرکار اور ان کی کٹھ پتلیوں کو امریکی سامراج کی مسلسل حمایت کا کیا صلہ ملا؟

افغان جہاد ہماری سرکار نے شروع کیا، ملا بھاڑے کے ٹٹو کی طرح اس جہاد کا حصہ بنا اور اصل سرکار کے پیدا کردہ سیاست دان آج میں جمہوریت کا بھاشن دے رہے ہیں۔ قائد جمہوریت جیل میں ہیں دختر جمہوریت کے اندر سے ایک نیا انقلابی ہمارے کچھ کامریڈز کو نظر آ رہا ہے یعنی کرپشن کی گندی نالی سے پیدا ہونے والے بدبودار لوگوں سے ہمارے بایاں بازو کے لوگ انقلاب کی امید رکھے رہے ہیں۔ ان عظیم کامریڈوں کی سیاسی بصیرت کو سلام، شکر ہے خدا کا، پاکستان میں تجربہ کامیاب نہیں ہوا۔

خیر واپس ناول ”زینہ“ کی طرف چلتے ہیں۔ سرکاری اور میڈیا کے گٹھ جوڑ کے حوالے سے اس ناول میں بھرپور بات ہوئی ہے۔ صحافی وہی پاپولر ہوتا ہے جس پر اصل سرکار کا ہاتھ ہوتا ہے یہ بات جزوی طورپر ٹھیک ہے مگر مکمل طور پر نہیں۔ ہمارے ملک کے صحافی اصل سرکار کی آشیرباد کے بغیر ہی کامیاب ہیں۔ تاہم ہیئت مقتدرہ کو ایک بات سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر سماج سازی کرتی ہے، سماج کو بدلنا ہے اور آگے بڑھنا ہے اس کے لیے ادیبوں دانشوروں اور باشعور صحافیوں سے مشاورت کرنا ہوگی۔ کجا یہ کہ ان کو اپنے ڈھب پر چلایا جائے۔

”زینہ“ ایک بڑاناول ہے جو اردو ادب کی فکشن میں شاندار اضافہ ہے۔ خالد فتح محمد مسلسل لکھ رہے ہیں اور عصر حاضر کے اہم فکشن رائٹر ہیں۔ ان کی تخلیقی عمر کی درازی کی دعا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).