چیئرمین نیب اسکینڈل: قومی اسمبلی کی مجوزہ پارلیمانی کمیٹی کی قانونی پوزیشن


مسلم لیگ (ن) آج قومی اسمبلی میں تحریک پیش کرے گی کہ چیئرمین نیب کی منظر عام پر آنے والی مبینہ آڈیو وڈیو کی تحقیق کے لئے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے۔ مسلم لیگ نون کے پارلیمانی رہنما خواجہ آصف پارلیمانی پینل کی تشکیل کے لئے قومی اسمبلی میں طریقہ کار کے قوانین اور کنڈکٹ آف بزنس کے قانون 244 (بی) کا استعمال کریں گے۔

قانون کہتا ہے کہ قومی اسمبلی تحریک کے ذریعے خصوصی کمیٹی کا تقرر کرسکتی ہے۔ وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے واضح کیا ہے کہ کسی پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے نیب چیف کے خلاف تفتیش نہیں کی جا سکتی۔

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ جوں ہی نیب چیف کے انٹرویو اور آڈیو۔ وڈیو ٹیپس کے لیک ہونے کا تنازعہ کھڑا ہوا، مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف نے اپنی جماعت کے رہنماؤں کو اس معاملے سے دور رہنے کی ہدایت کی کیونکہ ہم اس جال میں نہیں پھنسنا چاہتے تھے جب حکومت اپنی ذاتی وجوہات کے لئے جاوید اقبال کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے۔  مسلم لیگ نون ایک عرصے سے نیب چیئرمین کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے لئے سخت حملے کر رہی ہے لیکن اب وہ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ حکومت ایسی صورتحال پیدا کرکے انہیں عہدے سے ہٹانے پر مجبور کردینا چاہتی ہے جہاں وہ دستبردار ہو جائیں۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ نیب اس وقت غیر فعال ہوجائے گا جب اس کے چیف کو کسی بھی وجہ سے جانا پڑے گا کیونکہ چیف کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت ڈپٹی چیئرمین بطور چیئرمین کام نہیں کرسکتا۔ انہوں نے قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ احتساب عدالت میں داخل کیے جانے والے ہر ریفرنس کو چیئرمین سے منظوری لینا ہوتی ہے۔

حکومت اور حزب اختلاف کی موجودہ محاذ آرائی میں نئے چیئرمین کی تقرری ناممکن نظر آتی ہے کیونکہ صدر ایسا قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ مشاورت سے کرسکتا ہے۔ افواہوں کے مطابق حکومت حال ہی میں تقررکیے گئے ڈپٹی چیئرمین حسین اصغر کو اختیارات دینا چاہتی ہے لیکن ایسا نظائری قانون کے تحت نہیں کیا جاسکتا اور نیب کو چیئرمین کے علاوہ کوئی اور نہیں چلا سکتا۔

بیرسٹر عمر سجاد کے مطابق سب جانتے ہیں کہ موجودہ سیاسی کشمکش کے باعث نئی نامزدگی ممکن نہیں اور اعلیٰ عدلیہ فیصلہ دے چکی ہے کہ ڈپٹی چیئرمین بطور نیب چیف کام نہیں کرسکتا تو جو بھی جاوید اقبال کو ہٹانے کے لئے کام کر رہا ہے اس سے صاف طور پر اس خواہش کا اظہار ہوتا ہے کہ انسداد کرپشن کا ادارہ غیر فعال ہوجائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر نیب چیئرمین خود استعفیٰ نہیں دیتے تو نیب چیئرمین کو این اے او کے تحت ہٹانا نہایت مشکل ہوگا۔

 سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کا کہنا ہے کہ نیب چیئرمین کو ہٹانے کے لئے این اے او کے سیکشن 6 میں کوئی بھی فورم مہیا نہیں کیا گیا۔ عمر سجاد کا کہنا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) نیب چیئرمین کے کیس میں ملوث نہیں ہوسکتا اور محسوس ہوتا ہے کہ سیکشن 6 محض بنیادوں کے حوالے سے گفتگو کرتا ہے لیکن کسی بھی ایسے فورم کی تشریح نہیں کرتا جو یہ تعین کرسکے کہ آیا ان بنیادوں سے نیب چیف متاثر ہوئے ہیں یا نہیں اور ایسا کون کرے گا۔

 تاہم ان کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت تفتیش کا حکم دے سکتی ہے کہ آیا نیب چیف جسمانی یا ذہنی معذوری کے باعث اپنے عہدے کی ذمہ داریاں باقاعدہ طور پر ادا کرنے کے لئے نا اہل ہیں یا ناشائستہ فعل کے مرتکب ہوئے ہیں۔ عمر سجاد کا کہنا تھا کہ جیسا کہ صدر قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے چیئرمین کا تقرر کرتے ہیں، وہ اسے صرف انہی سے مشاورت کے بعد ہٹا سکتے ہیں۔

وفاقی وزیر قانون نے تین روز قبل اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ جاوید اقبال کی کارکردگی بہت اچھی ہے اور حتیٰ کہ موجودہ تنازع کے دوران بھی ان کی دیانتداری کے حوالے سے کوئی بھی سوال نہیں اٹھایا گیا۔ عمر سجاد کا کہنا تھا کہ اگر مشورہ دینے والے دونوں افراد انکوائری رپورٹ پر کسی اتفاق رائے تک پہنچ جاتے ہیں جس میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہو کہ نیب چیف جسمانی یا ذہنی معذوری کے باعث اپنے عہدے کی ذمہ داریاں باقاعدہ طور پر ادا کرنے کے لئے نا اہل رہے ہیں یا ناشائستہ فعل کے مرتکب ہوئے ہیں تو تب ہی وہ انہیں عہدے سے ہٹانے کے لئے یہ کیس صدر کو بھیجیں گے۔ تاہم ان کے حالیہ تعلقات پر غور کریں تو وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کسی بھی معاملے پر معاہدے تک ممکنہ طور پر نہیں پہنچیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب ایس جے سی کسی فرد کو ہٹانے کے لئے فورم ہوتا تو آئین میں واضح طور پر کہہ دیا گیا ہوتا جیسا کہ چیف الیکشن کمشنر اور ججز کے کیس میں کیا جاچکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).