چئیرمین نیب کی جعلی جپھی وغیرہ


ہم وہ لوگ ہیں جو جعلی چیزوں کو اصلی جان کر بہت شوق اور مزا لے لے کر کھاتے، پیتے، پہنتے اور ”محظوظ“ ہوتے ہیں۔ اسی لئے کبھی گدھے کے گوشت کو بکرا سمجھ کر، کبھی اینٹوں کے برادے کو خالص مرچیں جان کر اور اکثر پاؤڈر کے شربت کو اصلی دودھ مان کر اپنی صحت بناتے بناتے دل کے دورے سے مر جاتے ہیں۔ اپنے اسی مخصوص مزاج کی وجہ سے گزشتہ چند دنوں سے چئیرمین نیب کی جعلی ویڈیو و آڈیو کو اصلی جان کر ہمارے جوان مذاق اڑارہے ہیں جبکہ بزرگ کڑھ رہے ہیں۔

22 کروڑ میں سے راقم الحروف سمیت چند سو لوگ ہی ہوں گے جنہیں وڈیو دیکھتے ہی یقین ہوگیا کہ یہ اگرتلہ سازش کیس کی طرح وطن عزیز کی چولیں ہلانے کے لئے ایک منصوبہ ہے جس کا واحد مقصد ملک پاک میں لڑی جانے والی بدعنوانی کے خلاف جنگ کو روکنا ہے۔ ایسی تمام جعلی چیزوں کو بنانے اور پھیلانے میں بدعنوان اپوزیشن کا فائدہ ہے کیونکہ وہ کڑے احتساب سے بچنا چاہتی ہے۔ یاد رہے کہ ایک صفحہ پر ہونے والی حکومت معصوم عن الخطا ہوتی ہے جب تک وہ اس صفحے سے نہ سرکے یا سرکنے کی کوشش کرے اوراسی طرح ہر اپوزیشن انتہائی بدعنوان ہوتی ہے جب تک وہ قومی سلامتی کے صفحے پر آ نہ جائے یا پھر اوپر اوپر سے اپوزیشن لگے لیکن اندر سے حکومت کے بارے میں دل موم رکھے۔

مجھے اپنی ذہانت اور فطانت پر بہت پیار آیا جب مجھے احساس ہوا کہ میرا شمار ان چند فطین وزرا، ارب پتی میڈیا مالکان، ٹوئٹر پر موجود ہزاروں محب وطن افراد میں ہوتا ہے، جن میں سے زیادہ تر نے اپنی تصویر کے بجائے پاکستان کا جھنڈا لگایا ہوا ہے اور جو کلپس کو دیکھتے ہی سمجھ گئے کہ یہ ”حقائق کے منافی“ ہیں۔ یہ پیار اس پیار سے تھوڑا کم تھا جو چیئرمین نیب کو اپنی آخری پریس کانفرنس میں اپنے آپ پر آرہا تھا اور اس سے توبہت کم تھا جو جعلی ویڈیو میں جعلی شخص کو اصل بلیک میلر خاتون پر آرہا تھا۔

وہ تمام کالم نگار جو سائنس سے شغف اور آرٹ کا باریک پیشہ اپنائے ہوئے ہیں انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ چونکہ کیمرہ ایک سائنسی ایجاد ہے اس لیے وڈیو اور آڈیو کو جعلی ثابت کرنے کے لئے سائنس کا سہارا لیا جائے۔ اگرچہ اس پر ملک کا کوئی خاص خرچ نہیں آنا کیونکہ جب جعلی ہی ثابت کرنا ہے تو بیالوجی یا کیمسٹری کا سائنسدان بھی چل جائے گا لیکن پہلے ہی 200 ارب ڈالر کی وہ لوٹی ہوئی رقم جو حکومت نے واپس لانی ہے اس میں سے ایک کوڑی نہیں ملی اس لیے اس کام پر چند ڈالرز بھی خرچ کرنا حفیظ صاحب جو شیخ بھی ہیں فضول خرچی سمجھیں گے۔ آئیں میں ثابت کرکے بتاتا ہوں کہ یہ سب جھوٹ کا پلندہ ہے۔

جس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بدعنوانی سمجھا جاتا ہو وہاں انسداد بدعنوانی کے محکمہ کی سربراہی بہت بڑا عہدہ ہے۔ اس عہدے پر موجود شخص نہ صرف ادھیڑ عمر بزرگ ہیں بلکہ ملک کے سابق قائم مقام چیف جسٹس اور اہم کمیشنز کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ وہ بھلا عمر کے اس حصہ میں کیسے جھوٹ بول سکتے ہیں؟ وہ اگر خود کہ رہے ہیں یہ سب ”حقائق کے منافی“ ہے تو وہ ٹھیک ہی کہ رہے ہوں گے ۔ اگر خدانخواستہ ہم یہ سمجھیں کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں تو پھر اپنے ججی کے زمانے میں انہوں نے جو پھانسیاں دیں، جو ملزم بری کیے جو خلع کروائیں تو کیا ایسے ہم ان کے فیصلوں پر بھی شک کا اظہار نہیں کر رہے؟

دوسرا ہمارا وہ الیکٹرانک میڈیا جو بال کی کھال اتارنے کا ماہر ہے اور ہمارے وہ اینکرز جو سیاسیات، سائنس، علم النجوم، فلسفہ، ”عمرانیات“، ”نظام زر“ اور ”پاناما“ کے جغرافیہ تک پر مکمل عبور رکھتے ہیں ان کا ان کلپس پر خاموش رہنا ان کو جعلی ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔ تیسرا ہماری وہ حکومت جو انتہائی شفاف طریقے سے اپوزیشن کے احتساب پر یقین رکھتی ہے اور جس کے سربراہ میں ہزار خامیاں ہو سکتی ہیں لیکن وہ کرپٹ نہیں ہے، اگر وہ حکومت اس کو سازش قرار دے رہی ہے تو اس کی بات نہ ماننا جمہوریت اور جمہوری روایات پر کمزور ایمان کی نشانی ہے۔

یہاں ایک نفسیاتی بیماری کا ذکر بھی موزوں رہے گا۔ سٹاک ہوم سنڈروم ایک ایسی نفسیاتی بیماری ہے جس میں مغوی اپنے اغوا کار سے محبت میں مبتلا ہوجاتا ہے اور اکثر اپنی بازیابی کی کوشش کرنے والے اداروں سے تعاون بھی نہیں کرتا۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ خاتون جس نے جعلی کلپس میڈیا کو دیے اصل میں دوران تفتیش چئیرمین صاحب کو دل دے بیٹھی۔ عارضے میں مبتلا ہونے کی وجہ سے جعلی چئیرمین بنا کر اس سے محبت کی عکسبندی کرتی رہی۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اگر چئیرمین کی نظر کرم ہوتی تو خاتون جیل کیوں جاتی؟ اور پھر نیب ریفرنس کیوں داخل کرتی؟ اور پھر اس ریفرنس میں چئیرمین کیوں کہتے کہ مجھے بلیک میل کیا گیا؟ کیونکہ بھلا اصل ویڈیو سے آج تک کوئی بلیک میل ہوا ہے؟ جو بھی ہوا وہ جعلی ویڈیوز سے ہی ہوا۔

اگرچہ یہ سب جعلی اور من گھڑت ہے لیکن پتہ نہیں مجھے کیوں خیال آ تا ہے کہ اگر یہ سب اصل ہوا تو اگلے چند دنوں میں چئیرمین ایک بیان جاری کریں گے کہ انسان خطا کا پتلا اور کمزور ہے۔ غلطی ہو گئی اور میں جذبات کی رو میں بہ گیا۔ قوم مجھے معاف کرے اور آئندہ میری اصل اور جعلی دونوں قسم کی جپھیوں سے توبہ۔ یہ اور بات ہے کہ یہ قوم سب کچھ قبول کرلیتی ہے لیکن معافی اور توبہ قبول نہیں کرتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).