باوفا عاشق، بے وفا شوہر اور اضافی روٹیاں


یہ بات تب شروع ہوتی ہے جب ایک دن سکول جاتے ہوئے اچانک سے وہ اس کے سامنے آگیا تھا۔ وہ ہچکچائی، ڈری اور سہمی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ اس نے آہستہ سے ایک کاغذ کا ٹکڑا اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔ ٹکڑا پکڑنے کی دیر تھی کہ وہ دیکھتے ہی دیکھتے گلی کی آخری نکڑ سے یوں اوجھل ہوا کہ جیسے چند منٹ پہلے وہ یہاں موجود ہی نہیں تھا۔

عنبرین کو جنید ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا حالانکہ وہ اس کے چچا کا لڑکا تھا لیکن اس کی کچھ عادتیں تھی ہی ایسی۔ وہ عنبرین کو ہمیشہ یہ باور کرانے کی کوشش کرتا تھا کہ وہ اس کی معشوقہ ہے اور اس کو اسی کے ساتھ شادی کرنی ہے۔ زبانی باتوں تک تو یہ باتیں عنبرین بھی سہتی آرہی تھی لیکن آج یوں جنید کی طرف سے بیچ رستے رک کر رقعہ پکڑانے والی حرکت پر وہ تھوڑا ڈر گئی تھی۔

دسویں کلاس کے سالانہ امتحانات کے بعد کالج میں داخلے کے خواب دیکھنے والی عنبرین یہ نہیں جانتی تھی کہ زندگی اس کا کتنا بڑا امتحان لینے کی تیاری کر رہی ہے۔ سکول جاتے عنبرین کو رقعہ دینے والی حرکت کا علم جب دونوں گھر والوں کو ہوا تو انہوں نے جنید کو ڈانٹنے کی بجائے دونوں کے رشتے کی سوچ بچار شروع کر دی۔

عنبرین شادی کے معنی سے ابھی تھوڑی ناواقف تھی بس اسے اتنا معلوم تھا کہ اسے ایک پڑھا لکھا لڑکا چاہیے جو اس کی عزت کرے اور اسے زندگی کی آسائشیں دے۔ گھر کی محرومیاں وہ بچپن سے دیکھتی آرہی تھی۔ باپ کسی دور میں تانگہ چلاتا تھا لیکن پھر معاشی تبدیلی کے بھنور سے پریشان ہو کر ایک شام گھوڑے کی رکاب اتارنے کی بجائے بیچ ڈالی اور گھر بیٹھ گیا۔

دو لڑکے تھے جنہوں نے چھ بہنوں کا بوجھ سر پے اٹھا رکھا تھا۔ عنبرین ان میں سے تیسرے نمبر پر تھی لہذا ایک بڑے کنبے کا بوجھ کبھی کبھی وہ بھی محسوس کرتی تھی۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ پڑھ، لکھ کر استانی بنے اور اپنی بہنوں کو بھی اعلیٰ تعلیم دلوانے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر کی حالت بدلنے میں کچھ حصہ ڈالے۔

اس کے برعکس جنید کی کہانی تھوڑی مختلف تھی۔ باپ ریلوے سے ریٹائر ہوا تھا اور ریٹائرمنٹ کے چند سال بعد زندگی سے بھی ریٹائر ہو گیاتھا۔ گھر ریلوے کا وہ کوارٹر تھا جس کا خرچ کچھ زیادہ نہیں تھا۔ دو بڑی بہنوں کی شادی وقت سے پہلے ہی ہوگئی تھی اور اب اماں اور وہ اس کواٹر میں اکیلے تھے۔

گھر کی دال روٹی چلانے کے لیے اس نے بڑے شہر جانے کا سوچا لیکن جانے سے قبل وہ عنبرین کو یہ باور کروانا چاہتا تھا کہ کمائی کے چند مہینوں کے بعد وہ اسے بیاہ لے جائے گا۔ اسے بچپن سے ہی وہ بہت پسند تھی۔ خوبصورت نین، بھرپور جسم، روشن چہرہ اور اس کی ملنسار عادت جنید کو ہمیشہ اپنی جانب کھینچتی۔

جنیدخود میں یہ محبت کا بیج کب سے پھلتا، پھولتا محسوس کر رہا تھا اس کا علم شاید اسے خود بھی نہیں تھا۔ وہ اسے اچھی لگتی تھی اور یہ آواز اس کے اندر سے آتی تھی بس!

گھر سے نکلنے کے بعد اس نے لاہور میں اعلیٰ بوتیک اور ڈریس میکنگ کا کام سیکھ لیا تھا اور اس دوران اپنی محبت کے قصے اپنے کئی یاروں کو سنا چکا تھا۔ گھر میں پرانی پڑی کسی البم میں سے عنبرین کی ایک پرانی تصویر کی اپنے موبائل سے تصویر بھی بنا لی تھی جسے جب دل کرتا جی بھر کے دیکھتا۔

عنبرین کے گھر والے بھی رشتے کے لیے راضی تھے لیکن خود عنبرین راضی نہیں تھی اور اسے سمجھانا بھی تھوڑا مشکل تھا۔ گھر والوں کو لگتا تھا کہ موٹی کتابیں پڑھ، پڑھ کے اس کی عقل بھی موٹی ہوگئی ہے جو گھر آئے برادری کے رشتے کو ٹھکرا رہی ہے۔ کل کو ایسے رشتے بھی نہیں ملیں گے تو گھر کی دہلیز پر ہی بوڑھی ہو جائے گی۔

وہ رمضان کا مہینہ تھا جب ایک دن افطاری کے بعد اس کی طبعیت اچانک سے خراب ہوگئی۔ کھانے کی بدہضمی تھی یا کچھ اور انجیکشن لگنے کے بعد بھی طبعیت سنبھل نہ سکی۔ تب جنید نے ایک دوست کے ہاتھ لاہور سے 3 ہزار روپے بجھوائے جو عنبرین کی ماں کو رات گئے پہنچائے گئے اور ساتھ ہی یہ پیغام دیا کہ اسے کسی اچھے ہسپتال سے دوائی دلوائیں۔

اگلے دن اماں کو پرائیویٹ ہسپتال کی طرف مڑتے دیکھ کر عنبرین اچانک سے بیچ رستے رک گئی۔ اماں میں ٹھیک ہوں۔ دو، تین روزے رکھوں گی تو جسم عادی ہو جائے گا تو اتنے پیسے خرچ کرنے کیوں بھلا مجھے یہاں لے جا رہی ہے لیکن اماں نے اسے پرچی لینے کے بعد بتایا کہ یہ پیسے جنید نے بھیجے ہیں کہہ رہا تھا کہ عنبرین کو دوائی دلوا دیں۔

تب عنبرین کو حقیقی طور پر یہ محسوس ہوا کہ اس کے گھر والے بھی اس کے ساتھ نہیں ہیں۔ اس نے پھر سے دوائی لینے پر ہنگامہ کیا لیکن امی کے سامنے بے بس تھی۔ اس شام اسے دوائیاں نجانے کیوں اور بھی کڑوی لگ رہی تھیں۔

جنید نے اس دن کے پیسوں کے بعد اس پر تھوڑا زیادہ حق جتانا شروع کر دیا۔

عنبرین انٹرمیڈیٹ کے سالانہ امتحان پاس کرنے کے بعد سکول میں پڑھانے لگ گئی تھی۔ سکول کے پرنسپل کا برتاؤ اس سے اچھا تھا اور وہ متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والی اس ہونہار بچی کی قدر کرتے تھے۔

سکول کے اوور ٹائم کی بات آئی تو انہوں نے تین اساتذہ کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ بچوں کو سکول دورانیہ کے علاوہ بھی پڑھائیں جس کا معاوضہ انہیں الگ سے دیا جائے گا۔ ان اساتذہ میں عنبرین، ایک اور تجربہ کار استانی اور نئے میل ٹیچر سر وقار بھی شامل تھے۔

سر وقار بھی ایک متوسط طبقے کی نمائندگی کرنے والے ایک ذہین اور محنتی انسان تھے۔ یونیورسٹی سے پڑھ رہے تھے لیکن ساتھ ساتھ اخراجات کو متوازن رکھنے کے لیے سکول میں بھی پڑھاتے تھے۔ شروع شروع میں دسویں جماعت کے چند نکمے لڑکوں نے جب مس عنبرین کو دوران پڑھائی مختلف حرکتوں سے زچ کرنے کی کوشش کی تو سر وقار نے انہیں خوب اخلاقی سبق پڑھایا۔

وہ کسی بھی مشکل میں اپنے ساتھی اساتذہ کی ہمیشہ مدد کرتے اور یہی وجہ تھی کہ ان کے اخلاق کی وجہ سے عنبرین ان سے بہت متاثر تھی۔

یہ باتیں کہیں باتوں، باتوں میں گھر اور گھر سے جنید تک پہنچی تو وہ ہنگامہ کھڑا ہوا کہ چند دن بعد عنبرین کو سکول چھوڑنا پڑا۔ خود عنبرین کے گھر والے بھی اس کام کے لیے کوئی نا کوئی جواز ڈھونڈ کر بیٹھے تھے۔ انہیں گھر کے حالات کا ماتم کرنا تو گوارہ تھا لیکن بیٹی کا یوں گھر سے باہر کام کرنا برداشت نہیں تھا۔ عنبرین کے لیے ان سب باتوں کی تلخی اپنی جگہ اور اوپر سے جنید کے بے مطلبی حق نے اسے کئی نفسیاتی الجھنوں میں الجھا رکھا تھا۔

عنبرین سے بڑی بہن کی شادی کے دن آئے تو جنید نے پانچ ہزار کے نوٹ اس کے سامنے رکھ دیے کہ وہ ان پیسوں سے اپنے لیے کپڑے خریدے، ہار سنگھار کرے اور جوتے خریدے لیکن اس نے وہ پیسے جنید کو یہ کہہ کر واپس دیے کہ اس کا ان پیسوں پر کوئی حق نہیں اور وہ یہ پیسے نہیں لے سکتی لیکن وہ اس کا بندوبست بھی کر کے بیٹھا تھا اس نے اماں سے کہہ کر بڑی بہن کی شادی کے ساتھ ہی چھوٹی کی منگنی کی فرمائش بھی کر ڈالی اور یہ پانچ ہزار روپے عنبرین کی ماں کے ہاتھ پے رکھ دیے۔

گھر والوں کو رشتہ پہلے ہی منظور تھا بس عنبرین کو سمجھانے میں تھوڑی دیری لگی۔ بڑی بہنوں نے عنبرین کو بتایا کہ جنید اس سے کتنا پیار کرتا ہے اور ایسے تن، من، دھن قربان کرنے والے لڑکے کم ہی ملتے ہیں۔

بات بنی تھی یا بگڑ گئی تھی، عنبرین کی جنید سے منگنی ہوگئی اور سال بعد شادی طے پاگئی۔ عنبرین کو منگنی پر نئے جوڑے اور نئے جوتے ملے جو اس نے شادی پر بڑی بہن کو تحفے میں دے دیے اور خود اس منگنی کی گھتیوں میں الجھ کر رہ گئی۔

جب محرومیوں کا سایہ ہو اور انسان خود کو تنہا تصور کرے تو ناچاہتے ہوئے بھی ان چاہی منزل کو قبول کرنا پڑتا ہے۔ عنبرین نے بھی یہی کیا۔ اس نے حالات سے سمجھوتا کر لیا تھا۔ اس نے جنید سمیت ہاتھ کی انگلی میں پھنسی اس انگوٹھی کو اپنانے کا سوچ لیا تھا۔

یہ خیالات جیسے ہی جنید تک پہنچے وہ خوشی سے نہال ہوگیا۔ اس نے بڑی عید پر دو جوڑے عنبرین کو گفٹ کیے جو عنبرین نے پہنے بھی اور یوں اس نے جنید کی اس جیت پر مہر ثبت کر دی۔

اس نے دل کو سمجھا لیا تھا اور دل بھی جیسے اس کے اپنوں جیسا نکلا، منٹوں میں مان گیا۔ اس نے جنیدکو قبول کر لیا اور بالاآخر ایک دن وہ دلہن بن کر اس کے گھر آن پہنچی۔ وہ سنتی آرہی تھی کہ شادی کی رعنائیاں چار دن کی چاندی کی طرح ہوتی ہیں لیکن اسے جنید پے یقین تھا کہ وہ اسے شادی کے بعد بھی اتنی ہی محبت دے گا جتنی وہ اس سے قبل اس کے لیے دل میں رکھتا تھا۔

پر عنبرین کی یہ خوش فہمی محض چند دن ہی درست ثابت ہوئی اور پھر چار دن کی چاندی لوٹ گئی۔ جنید کی محبت میں دن بدن کمی آتی جا رہی تھی۔ وہ عنبرین کو اس طرح سے ٹائم نہیں دیتا تھا جس طرح سے وہ سمجھتی تھی کہ اس کا حق ہے۔

وہ صبح اٹھتا کام پے چلا جاتا، کام سے شام کو گھر واپس پھر موبائل اور ٹی وی اور اس کے بعد لمبی نیند۔ عنبرین نے کئی دفعہ اس سے بات کرنا چاہی تو اس نے سخت غصے سے اسے ٹوک دیا کہ وہ اس کے کسی کام میں اپنی ٹانگ مت اڑائے۔ اس کا موڈ کیسا ہے کیسا نہیں وہ اسے کیوں بتائے۔ اس کا بس ایک ہی کام ہے کہ وہ گھر کی صفائی ستھرائی کرے، اس کی ماں کی خدمت کرے اور اسے اس کے حال پے چھوڑ دے۔

ایک وہ عنبرین تھی جو جنید سے کبھی دور بھاگتی تھی لیکن اب ایک یہ عنبرین تھی جو جنید کے لیے شبنم سی تاثیر بننا چاہتی تھی لیکن وہ اس سے کوسوں دور تھا۔ ایک رات آنکھ کھلنے پر جنید کو موبائل پر فحش مواد کے ساتھ مگن دیکھ کے تو جیسے عنبرین کے پاؤں تلے سے زمین ہی نکل گئی تھی اور شاید یہ ضبط کا آخری دامن تھا۔ وہ جنید کے سامنے کھڑی ہوگئی جس کا جواب اسے ایک زناٹے دار تھپڑ کی صورت میں ملا جس کا وہ گمان نہیں کر رہی تھی۔

روتی آنکھوں سے عنبرین نے جنید کو اس کی محبت یاد دلانا چاہی تو اس نے اسے جواب میں اتنا کہا کہ وہ اس محبت کو احسان سمجھے جو اس نے ترس کھاتے ہوئے اس پر کی۔ اس نے اسے پہننے کے لیے اچھے کپڑے دیے، اسے جوتے دلائے اور کئی طرح کی ضروریات زندگی کی اعلیٰ معیاری چیزیں فراہم کی جس کا وہ اپنے چھوٹے سے گھر میں تصور بھی نہیں کر سکتی تھی لہذا اس محبت کو جواز بنا کر وہ اپنا رعب نہیں جما سکتی۔

اس دن عنبرین کو محسوس ہوا کہ اس زمانے میں غریب کے گھر پیدا ہونا بھی کتنا بڑا جرم ہے اور جرم بھی ایسا کہ لوگ غریبی کو دیکھتے ہوئے محبت بھی احسان سمجھ کر کرتے ہیں۔ جنید نے عنبرین کو سامان پیک کرنے کا کہا اور اسے اس کے گھر چھوڑ آیا۔

گھر والے پہلے ہی گن کر روٹیاں بناتے تھے ایسے میں گھر لڑ جھگڑ کر آئی بیٹی کی ایک اضافی روٹی بھی انہیں بوجھ لگ رہی تھی لہذا انہوں نے سارا قصور اسی کا ہی نکالا اور اسے واپس جانے کو کہا۔

عنبرین اس انجام سے بھی خوب واقف تھی لیکن جس ناواقفی پے اسے رنج تھا وہ جنید کی محبت تھی۔ جنید نے کئی دوسری لڑکیوں کے ساتھ مراسم استوار کر رکھے تھے اور وہ ان سے فون پر ہر وقت رابطے میں رہتا تھا۔ یہ ان سے تعلق کی گہرائی تھی یا کچھ اور کہ اب اسے عنبرین کے تیکھے نین او ر بھرپور جسم نظر نہیں آتاتھا بلکہ شاید اب اسے وہ ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی کیونکہ وہ اسے حاصل کر چکا تھا۔

عنبرین نے سکول دور میں ایک دفعہ کسی رسالے میں پڑھا تھا کہ محبت کا حاصل آپ کو کبھی کبھی آزاد کر دیتا ہے کیونکہ آپ یہ باور کر چکے ہوتے ہیں کہ جس محبت کو پانے کی آپ جستجو رکھتے ہیں وہ اب آپ کی ہی ہوئی اور آپ نے اسے حاصل کر لیا ہے لہذا اس طرف سے بے فکر ہو جائیں۔

اسے لگا کہ جیسے عورت کا مول صرف تب تک ہے جب تک اسے حاصل نہ کر لیا جائے اور جیسے ہی وہ لاحاصل سے حاصل ہوئی اس کی وقعت ختم ہوگئی یا پھر ان لاحاصل کے پردوں میں کہیں چھپ گئی جنہیں بعد میں چاک کر دیا جاتا ہے۔

اسے بیمار ہوئے آج تیسرا دن تھا اور جنید سے معافی مانگنے پر بھی جب صلح کا کوئی حل نہ نکلتا نظر آیا تو ایک دن اس نے خود ہی گھر لوٹنے کا سوچا لیکن شاید اسے ایسا نہیں سوچنا چاہیے تھا کیونکہ گھر پہنچ کر جو راز اس پر افشاں ہوا وہ یہ تھا کہ اس کے کمرے میں لگی اس کی شادی کی ساری تصویریں کہیں غائب تھیں اور کمرے کی حالت بتا رہی تھی کہ یہاں کچھ نہ کچھ ایسا ہوا ہے جو کہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اسے لگا جیسے اس کے بستر پر کسی نے ڈاکہ ڈالا ہو۔

شام کو گھر لوٹے جنید کے لیے عنبرین کا یوں گھر میں موجود ہونا حیران کن تھا لیکن اس نے زیادہ بات چیت کیے بغیر اس سے ایک ہی تقاضا کیا کہ اگر اس گھر میں رہنا ہے تو سب کچھ چپ، چاپ اور خاموشی سے برداشت کرنا ہوگا ورنہ وہ واپس اپنے گھر جا سکتی ہے۔

عنبرین گھر سے تو یہ سوچ کر آئی تھی کہ وہ جنید کو اس کی محبت کی پہلی کونپل کھلنے کی نوعید سنائے گی جس سے ہو سکتا ہے کہ پہلے والا جنید واپس لوٹ آئے لیکن فی الحال جنید، کمرہ اور خود اس کی زبان اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھی۔

اس نے پھر سے سمجھوتا کر لیا تھا۔ ہاتھ دھو کر جنید کے لیے کھانا گرم کیا۔ آٹے کے چار پیڑے کیے۔ دو روٹیاں جنید کی، ایک اماں کی اور ایک اس کی۔ اس نے برتن میں پڑے باقی آٹے کو ٹکٹکی باندھ کر غور سے دیکھا۔ پیچھے مزید روٹیوں کا اضافی آٹا موجود تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).