کیا مودی ایک نئے دور کی ابتدا کرسکیں گے؟


اس بات کا اندازہ تو سب کو ہی تھا کہ بھارتی انتخابات میں مودی او ران کی جماعت جیتے مگر سیاسی پنڈتوں کے بقول اس بار انتخابی نتائج عملی طور پر ماضی کے نتائج سے مختلف ہوں گے۔ منطق یہ دی جارہی تھی کہ جیت تو مودی کی ہوگی مگر نتائج کے تناظر میں بھار ت میں مخلوط او رکمزور حکومت بننے کے امکانات زیادہ ہوں گے۔ ایک دلیل یہ بھی دی تھی کہ بھارت میں حکومت بنانے میں کنجی کا کردار وہاں کی علاقائی جماعتیں ہی کریں گی اور وہ بی جے پی او ر کانگریس میں سے جس کی حمایت میں اپنا پلڑا ڈالیں گی وہی حکومت بناسکے گا۔

مگر نریند ر مودی کے جادواور سحر نے سب کچھ بدل ڈالا او ر 2014 کے نتائج کے مقابلے میں زیادہ برتری حاصل کرکے ثابت کیا کہ وہ مشکل حالات میں بھی بڑا سیاسی معرکہ جیتنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کے سیاسی مخالفین جن میں کانگریس اور علاقائی جماعتیں شامل تھیں پانی کا بلبلا ثابت ہوکر وہ کچھ نہ کرسکیں جو ان کے حمایتی چاہتے تھے۔

بھارت انتخابات کے نتائج کی اچھی بات یہ ہے کہ اس نے بی جے پی اور نریندر مودی کو واضح اور شفاف مینڈیٹ دے کر ثابت کیا کہ وہ عملا بھارت میں کسی بھی طرح کی کمزور حکومت کے مقابلے میں ایک مضبوط حکومت کے خواہش مند تھے۔ اب جو واضح اور بڑا مینڈیٹ مودی کو ملا ہے جسے خود تمام حزب اختلاف کی جماعتوں نے نہ صرف قبول کیا بلکہ مودی کو مبارکباد دی وہ یقینی طور پر بھارت کے انتخابی و جمہوری عمل اور نظام کی سیاسی ساکھ کو یقینی بناتاہے۔

خطہ کی سیاست کے تناظر میں بھی اچھی بات یہ ہے کہ مودی ایک بڑے مینڈیٹ کے ساتھ دوبارہ اقتدار کا حصہ بنے ہیں او راس وقت بھارت میں ایک مضبوط حکومت ہی بھارت اور خطہ کی سیاست کے لیے اہم نکتہ ہے۔ کیونکہ کمزور طرز پر مبنی جمہوری حکومتیں عملی طور پر داخلی بحران کا شکار ہوتی ہیں اور بھارتی ووٹرز کو داد دینی ہوگی کہ وہ کسی ذہنی الجھاؤ اور مودی مخالف مہم کا حصہ بننے کی بجائے مودی کے ساتھ کھڑے نظر آئے جو مودی مقبولیت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔

مودی کو ایک بات کی داد دینی ہوگی کہ اس کا یہ انتخابی معرکہ 2014 کی انتخابی جیت سے بڑا معرکہ ہے۔ کیونکہ 2019 کا سیاسی ماحول کو دیکھیں تو بظاہر اس میں مودی کو ماضی کے مقابلے میں بڑا چیلنج تھا۔ بڑا نعرہ سیکولر بھارت اور ہندواتہ پر مبنی بھارت کے درمیان تھا۔ یقینی طور پر سیکولر سیاست کے حامیوں کو شکست ہوئی اور بھارت کے ووٹرز نے مودی کے سیاسی بیانیہ اور ہندواتہ پرمبنی سیاست کی حمایت کرکے ثابت کیا کہ وہ سیکولر سیاست کے اب حامی نہیں رہے۔

اگرچہ بہت سے لوگ مودی کی جیت کو محض ہندواتہ پر مبنی سیاسی ایجنڈے کے تناظر دیکھتے ہیں مگر یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ اسی ایجنڈے میں مودی سرکار کے کچھ عوامی خدمات سے جڑے منصوبے او رترقی کا عمل بھی ان کی بڑی کامیابی کی ضمانت بنا ہے۔ کیونکہ برحال ووٹرز کے سامنے جہاں نظریاتی سوچ کا غلبہ ہوتا ہے وہیں وہ اپنی مقامی سیاست سے جڑے مسائل کو بھی بنیاد بنا کر ووٹ ڈالتے ہیں۔ اس جیت کی اہم بات یہ بھی کہ گذشتہ برس پانچ ریاستوں کے انتخابات میں مودی جماعت کی شکست کے بعد ایسا لگتا تھا کہ مودی کی شکست کی لہر آگے بڑھے گی، مگر یہ اندازے مودی نے غلط ثابت کردیے۔

میں بھارت کے انتخابات کو محض بھارتی انتخابات تک محدود ہوکر نہیں دیکھتا۔ یہ انتخابی نتائج فطری طور پر جنوبی ایشیا، خطہ سمیت پاکستان کے لیے بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ کیونکہ بھارت کے انتخابی نتائج او رحکومت سازی سے ہم خطہ کی سیاست اور پاک بھارت تعلقات کی عملی سیاست کا بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے تو انتخابات سے قبل ہی مودی کی جیت کی نہ صرف پیش گوئی کی تھی بلکہ اپنی اس خواہش کا بھی اظہار کیا تھا کہ مودی جیتیں گے او رہم مل کر خطہ کی سیاست کو امن اورترقی میں لے کر آگے بڑھیں گے۔ خود وزیر اعظم سے جب بھی پاک بھارت کشیدگی پر بات ہوتی تو وہ یہ دلیل پیش کرتے تھے کہ انتخابات کے نتائج کے بعد مودی حکومت کو پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی پیش قدمی کرنا ناگزیر ہوگا۔

اب سوال یہ ہے کہ مودی دوبارہ اقتدار کا حصہ بن گئے ہیں۔ ان کے سامنے جہاں بھارت کی داخلی سیاست کے مسائل ہیں وہیں ان کے سامنے خطہ سے جڑے مسائل جس میں کشمیر، پاک بھارت تعلقات اور خطہ کے دیگر مسائل شامل ہیں۔ عمومی طور پر انتخابی مہم او راس سے جڑے مسائل اور طرز عمل کافی مختلف ہوتا ہے۔ لیکن انتخابات کے بعد کا ماحول انتخابی مہم کے ماحول سے کافی مختلف بھی ہوتا ہے۔ کیا واقعی ہم مودی کا دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد ایک نئے نریندر مودی کو دیکھ سکیں گے جو محض انتخابی سیاست کے ماحول سے زیادہ ایک بڑے مدبر اور فہم فراست پر مبنی سیاست کی قیادت کرسکے گا۔

نریندر مودی کے سامنے تین بڑے چیلنجز ہیں۔ اول کیا وہ ایسے کسی ماحول کی قیادت کرنے کے لیے تیار ہیں جو پاک بھارت ڈیڈ لاک کو تو ڑ کر باضابطہ مذاکر اتی عمل کو شروع کرسکے۔ کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان مسائل اپنی جگہ مگر بڑا مسئلہ ڈیڈ لاک او ربداعتمادی کی فضا ہے جو ماحول کو اور زیادہ کشیدگی کی طرف بڑھاتا ہے۔ اس کے لیے مودی کو ماضی او رہندواتہ سے جڑے انتہا پسند مودی کے خول سے باہر نکل کر عملا ایک بڑے سیاست دان کا کردار ادا کرنا ہے جو ماضی کی بجائے مستقبل کی طرف دیکھتا ہے۔

دوئم ایک عمومی تصور جو درست بھی ہے کہ مودی سیکولر سیاست کی بجائے ہندتوا او رانتہا پسندی کی سیاست کے حامی ہیں۔ ان کے مخالفین بھی اسی بڑے مسئلہ کو ہتھیار بنا کر ان کے خلاف مخالفانہ مہم چلاتے ہیں کہ وہ بھارت کی مذہبی بنیاد پر تقسیم کے ذمہ دار ہیں۔ کیا اب جیت کر مودی اسی ہندتوا کی سیاست میں شدت کو پیدا کریں گے یا اس میں بندھ باندھ کر کچھ نیا دکھائیں گے۔ سوئم کشمیر کے مسئلہ پر ان کی جارحانہ پالیسی او ربالخصوص آئین میں ترمیم کے نکتہ کو آگے بڑھاتے ہیں یا وہاں جاری کشیدگی میں کمی کی سیاست کرکے خود کو قابل قبول بناتے ہیں۔

سیاسی پنڈت مودی کی مستقبل کی سیاست کے بارے میں تقسیم ہیں۔ ان کی مستقبل کی سیاست کے تناظر میں حمایت او رمخالفت دونوں پہلو موجود ہیں۔ ایک طبقہ کا خیال ہے کہ مودی زیاد ہ شدت کے ساتھ اپنی ہندواتہ کی سیاست کا پرچار کرے گا او ریہ بڑا مینڈیٹ اسی بنیاد پر ملا ہے کہ وہ اپنے ہندواتہ پر مبنی ایجنڈے کو آگے بڑھائے۔ کیونکہ ماضی میں بھی مودی سرمایہ داروں کے ترقی سے جڑے ایجنڈے سے ہٹ کر ہندواتہ پر مبنی سیاست کے ساتھ جڑے نظر آئے او ران کی انتہا پسند پالیسیوں نے خطہ کی سیاست کو بھی متاثر کیا۔

ان کے بقو ل جو لوگ مودی میں بڑی تبدیلی دیکھ رہے ہیں وہ مودی کے اس بڑے مینڈٹ کو نہ بھولیں جو اسے اسی پالیسی کی بنیاد پر ملا ہے جو عملا اس نے بھارت و خطہ میں اختیار کی ہوئی تھی۔ اس لیے جب بھی مودی کسی نئے کردار میں سامنے آتے ہیں تو ان کی اپنے ووٹ بینک اور ہندتوا  کی سیاست کرنے والوں سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ ے گا۔

جبکہ اس کے مقابلے میں بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو اگرچہ کم ہیں لیکن وہ اس دفعہ مودی کی جیت سے زیادہ توقع ماضی کے ایجنڈے سے مختلف دیکھتے ہیں۔ اس میں جہاں داخلی سیاست ہے وہیں امریکہ سمیت عالمی ایجنڈا بھی ہے جو پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے عمل کو دیکھنا چاہتا ہے۔ مودی کے پاس اچھا موقع ہے کہ وہ اس دفعہ ماضی کے مودی سے مختلف نظر آئے۔ کیونکہ اگر مودی نے محض سیاست دان خود کو ثابت کرنا ہے تو وہ سابقہ ایجنڈے تک بھی محدود رہ سکتے ہیں۔ مگر اگر وہ سیاست دان کے مقابلے میں وہ خطہ میں ایک بڑے راہنما کے طور پر سامنے آنا چاہتے ہیں تو اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔

یقینی طور پر خطہ او ربالخصوص پاکستان اور بھارت کے معاملات پیچیدہ ہیں لیکن کسی نے تو اسے بریک کرنا ہے۔ اس وقت پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت ذہنی طور پر بھارت سے بہتر تعلقات چاہتی ہے تو اس کا ہر سطح پر فائدہ اٹھانا چاہیے۔ مودی اگر چہ بڑ ی جیت سے جیتے ہیں مگر ان کے مخالفین موجود ہیں او ر مودی کا بڑا پیغام بھی بھارت اور خطہ کی ترقی ہی ان مخالفین کو ہوسکتا ہے کہ میں بھارت او رخطہ کی کشید گی کو کم یا ختم کرنا ہے۔ یہ کا م مودی کرسکتے ہیں او ران کے پاس صلاحیت بھی ہے او رایک بڑا مینڈیٹ بھی جو مودی سے بڑے کردار کی توقع رکھتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).