کراچی کے کھٹمل اور سندھ اسمبلی میں کرسچن پرسنل لاز


بس یہ خیال سار راستہ ساتھ رہا کہ کراچی میں بہت محتاط ہو کر رہنا ہے۔ جانے سے پہلے بیوی نے بھی کچھ ایسی ہی نصیحتیں کیں مختصراً جو کسی سے کوئی چیز نہ لی کر کھانا، سامان کی خود حفاظت والے پیرائے میں ہوتی ہیں۔ اس ًمحتاط طرزِ عمل میں ایک تو حد سے زیادہ ہی محتاط روی کا مظاہرہ ہو گیا، ائیر پورٹ سے باہر نکلا تو ایک دوست کی کال آگئی اور وہ چھوٹتے ہی فر فر پنجابی بولنے لگا، اس کو کہا کہ بھائی آپ میرے دشمن ہیں کہ دوست، میں کراچی میں ہوں، کمرے میں جا کر آپ کے ساتھ بات، کروں گا، آپ نے پنجابی بولنے سے باز نہیں آنا اور یہاں میری پنجابی سن کر کسی کو اپنی زبان سے محبت نے مجبور کیا تو اتنی دور سے جسدِ خاکی آپ ہی لے کر جائیں گے۔ میں نے سوچا اب تو صورتِ حال ایسی نہیں کراچی کی لیکن برسوں پہلے کوئٹہ مین لسانی امتیاز کا شکار ہونے کی وجہ سے میں محتاط تھا۔

حقیقت میں کراچی اس سے پہلے بھی آیا ہوا ہوں لیکن جتنی بار بھی آیا نہ تو میزبانوں نے ہمت کی کہ کراچی کے گلی کوچے دکھا دیں اور نہ ہم نے ہی کوئی اصرار کیا۔ اس دفعہ لیکن صورتِ حال مختلف تھی، ہمارے میزبان انتھنی نوید بھائی خیر سے ایم پی اے ہیں اور پرانے سیاسی کارکن ہونے کی وجہ سے شہر میں ان کے تعلقات ہیں جو نظر بھی آئے کہ خلقِ خدا انتھنی نوید کو پیار کرتی ہیں نہ کہ ایم پی اے بننے کے بعد ان کے آگے پیچھے پھر رہے ہیں۔

انتھنی نوید نے ہمٰیں گیسٹ ہاؤس سے لیا اور وہ اپنے روٹین کے کاموں کے لیے نکل پڑے، جیسے جیسے ہم کراچی کے مختلف روڈز پر پھرتے رہے، کراچی کے ساتھ میری اپنائیت بڑھتی گئی، تین تلوار، جیکب لائن، کورنگی، طارق روڈ، ملیر، نرسری، گلشن یہ سارے علاقے تو ایسے لگا میں برسوں سے جانتا ہوں، پھر ذہن میں آیا کو کیوں یہ علاقے دیکھے دیکھے لگ رہے ہیں، عمران سیریز کے بعد جب ڈائجسٹ پڑھنے کا زمانہ آیا تو کراچی سے چھپنے والے ڈائجسٹ ہی توجہ کا مرکز بنے۔

ان ڈایجسٹوں میں چھپنے والی کہانیوں کے کردار کراچی کے ان علاقوں کے ساتھ تعلق رکھتے تھے، ان علاقوں کا نام اتنے سال تک پڑھا کہ اب یہ اپنے دیکھے بھالے علاقے لاگ رہے تھے۔ کیا کیا یاد نہ آیا جب ڈایجسٹوں والا زمانہ یاد آیا۔ اب تو کراچی اپنا اپنا لگنا شروع ہو گیا۔ اور محتاط رہنے کی ساری ہدایات ہوا میں اڑ گئیں۔ پھر تو کراچی کے مختلف علاقوں مین انتھنی نوید اور ڈاکٹر صابر مائیکل کے بغیر بلکہ ان سے چھپا کر وہ مٹر گشت کی، کہ سب رنگ، جاسوسی سسپنس اور سرگذشت میں چھپنے والی کہانیوں کے کرداروں کے ساتھ وقت گزار کرمزہ آگیا۔

کراچی کی پہلی رات کو سوچا تھا کہ جاتے ہی کراچی کہ مخالفت میں مضمون باندھوں گا کہ لوگو کراچی کے کھٹمل سونے نہیں دیتے لیکن کراچی کے ساتھ اب اتنا انس ہو گیا ہے کہ کھٹمل والی بات اب درگزر بھی ہو سکتی ہے، تاہم اس نادیدہ دشمن نے تنگ بہت کیا۔

ہم دوست اکٹھے ہوئے تھے قومی اقلیتی وفد برائے اقلیتی حقوق کے پلیٹ فارم سے کہ سندھ حکومت کے ساتھ کرسچن پرسنل لاز پر لابئینگ کی جاے اور ایک جامع ڈرافٹ بل جس میں شادی، طلاق، حقِ وراثت اور نان نفقہ سمیت دگر خاندانی امور کے حوالے سے قانون سازی ہو سکے اور اس سلسلے میں ہماری مصروفیات میں مرتضیٰ وھاب، محترمہ شہلا رضا اور دیگر افراد کے ساتھ ملنا شامل تھا۔ ہندو میرج ایکٹ کی طرح کرسچن پرسنل لاز پر بھی سندھ حکومت کافی یکسو ہے۔ اور حکومتی عہدیداروں نے کرسچن پرسنل لاز پر کافی مثبت رویہ دکھایا۔ اب لگتا ہے کہ اس سلسلے میں کراچی کے مزید چکر لگیں گے۔ لیکن اب میرے سامان سے ایک چیز تو بالکل غائب ہے اور وہ محتاط رہنے کی نصیحتوں کا پلندہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).