مفتی منیب اور مفتی پوپلزئی چاند کے معاملے میں متفق ہو گئے


قوم کئی برس پریشان رہی، پھر اب گزشتہ کئی برس سے لطیفے بنا بنا کر ہنس رہی ہے، لیکن وطن عزیز میں عید رمضان کی خبر لانے والا پہلی تاریخ کا چاند مسلسل تین چار دن دکھائی دیتا رہا ہے۔ پشاور اور نواح میں وہ باقی ملک سے ایک دن پہلے مفتی شہاب الدین پوپلزئی کی غیر سرکاری رویت ہلال کمیٹی کو دکھائی دے جاتا ہے۔ ایک مرتبہ ادھر قبائلی علاقوں میں ان سے بھی ایک دن پہلے گواہوں نے دیکھ لیا تھا۔ عموماً یہ چاند افغانستان اور سعودی عرب میں بھی انہی تاریخوں میں دکھائی دیا کرتا ہے۔ جبکہ مفتی منیب کی سرکاری رویت ہلال کمیٹی والا چاند بھارت اور بنگلہ دیش کے ساتھ دکھائی دیا کرتا ہے۔ قوم پریشان تھی کہ مفتی منیب اور مفتی شہاب کب چاند پر متفق ہوں گے۔ شکر الحمدللہ اس عید پر وہ چاند کے معاملے میں متفق ہو گئے ہیں۔

ہوا کچھ یوں کہ ہمارے وزیر سائنس و ٹیکنالوجی جناب فواد چوہدری نے چارج سنبھالتے ہی یہ فیصلہ کیا کہ علم فلکیات کا تعلق سائنس سے ہے، فقہ سے نہیں۔ کہنے لگے کہ اب تو سائنسدان فٹوں اور انچوں کی درستگی کے ساتھ چاند تاروں کی نقل و حرکت بتا دیتے ہیں بلکہ ان کی رفتار وغیرہ ماپنے کے بعد اب تو یہ بھی بتایا جا سکتا ہے کہ سو پچاس سال بعد وہ کس مقام پر ہوں گے اور زمین کہاں۔ انہوں نے سائنس کی روشنی میں اپنا کیلنڈر بنا دیا جس میں اگلے پانچ برسوں کے لئے عید شبرات کی تاریخ بتا دی۔

اب مفتی صاحبان کے نزدیک چاند اور دیگر اجرام فلکی کا تعلق سائنس کے علم فلکیات سے نہیں ہے بلکہ چاند کو صرف شریعت کی روشنی میں ہی دیکھنا ممکن ہے۔ پہلا رد عمل مفتی منیب کا آیا۔ مفتی منیب الرحمان نے چاند کی رویت کے حوالے سے سائنسی طریقے کو مستر د کرتے ہوئے کہا کہ یہ ذمہ داری رویت ہلا ل کمیٹی کی ہے اور وہی ادا کرے گی، خاص طور پر اس پورے خطے کے مسلمان کبھی اس نظریے کو قبول نہیں کریں گے اس لیے فیصلہ رویت پر ہو گا اور رویت بصری پر ہوگا، جب چاند دیکھ کر روزہ اور عید کرنے کا حکم ہمارے نبی ﷺ کا ہے تو دنیا کی ساری سائنس اور ٹیکنالوجی کو ہم جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔

مفتی منیب صاحب اور دیگر سرکاری رویت ہلال کے علما ایک طرف تو سائنس کو جوتے کی نوک پر رکھ رہے ہیں لیکن دوسری طرف سائنس کی عطا کردہ عینک ناک کی پھننگ پر جمائے ایک بلند و بالا عمارت کی چھت پر لفٹ کے ذریعے چڑھ کر سائنس دانوں کی بنائی ہوئی دوربین کے ذریعے چاند ماری کیا کرتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ سب علما دوربین کے محتاج ہیں۔ سرکاری کمیٹی کے ایک مفتی صاحب کی تصویر خوب چلی تھی جس میں وہ سرکاری مجبوریوں کی وجہ سے دوربین پر آنکھ تو جمائے ہوئے تھے لیکن جو آنکھ دوربین پر رکھے تھے وہ بند تھی اور اپنی آزاد آنکھ کے ذریعے چاند دیکھ رہے تھے۔ ان علما کو چاہیے کہ اپنے گھر کی چھت پر چڑھ کر کسی دوربین اور عینک کے بغیر ننگی آنکھ سے چاند دیکھ کریں۔ سائنس کو جوتے کی نوک پر رکھنا فرض ہے۔

اچھا اب ادھر ایک اور سوال اٹھتا ہے۔ اگر سرکاری رویت ہلال کمیٹی کو بیس منزلہ عمارت پر چڑھانے کی بجائے چالیس ہزار فٹ کی بلندی پر سفر کرتے ہوئے جہاز پر چڑھا دیا جائے تو کیا ادھر سے اپنی آنکھ سے چاند دیکھ کر وہ عید کرنے پر راضی ہو جائیں گے؟ “رویت بصری” کا شرعی تقاضا تو پورا ہو گیا نا؟ یا پھر اگر سرکار انہیں ایسی دوربین فراہم کر دے جو خلا میں موجود ہبل ٹیلی سکوپ سے تصویر براہ راست لے کر اپنے پردے پر دکھا رہی ہو تو چاند کو آنکھ سے دیکھنے کی شرط پوری ہو جائے گی یا نہیں؟

مفتی شہاب الدین پوپلزئی کا موقف مفتی منیب سے ملتا جلتا ہے اور وہ چاند کے معاملے میں ان سے متفق ہیں۔ لیکن وہ کچھ وسعت قلبی دکھا رہے ہیں۔ وہ سائنس کے اس حد تک خلاف نہیں کہ اسے اپنے جوتے کی نوک پر رکھ کر اپنا پاپوش مبارک آلودہ کر لیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ انہیں اسلامی کیلنڈر لانچ کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے مگر اسے رمضان اور عید الفطر کے لئے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے فرمایا کہ ”ہم اسلامی کیلنڈر کی لانچنگ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اسے سرکاری دفاتر، عوامی مقامات اور گھروں میں آویزاں کیا جانا چاہیے تاکہ اسلامی قمری مہینوں کا اور ان کی اہمیت کا پتہ چلے۔ “

مفتی صاحب نے نہایت دکھی دل سے بتایا کہ گزشتہ سال انہیں دبئی جانے پر مجبور کر دیا گیا تھا لیکن باقی غیر سرکاری کمیٹی پر سرکار نے پیسہ نہیں خرچا، اس نے چاند دیکھ لیا۔ ہمیں امید ہے کہ دبئی میں بھی مفتی صاحب نے اپنی غیر سرکاری کمیٹی بنا کر شریعت کے تقاضوں کے مطابق خود گواہیاں اکٹھی کر کے عید کا خود اعلان کیا ہو گا اور امارات کے سرکاری عمال و اعلانات پر تکیہ نہیں کیا ہو گا۔ ہم سفارش کرتے ہیں کہ اس مرتبہ مسجد قاسم خان کی پوری غیر سرکاری رویت ہلال کمیٹی کو سعودی عرب بھیجا جائے تاکہ ادھر بھی وہ شرعی تقاضوں کے مطابق خود سے چاند کی گواہیاں اکٹھی کر کے عید کا اعلان کریں۔ ہمیں شہزادہ محمد بن سلمان پسند بھی بہت ہیں۔ وہ ہیں ہی بہت اچھے۔ یقین نہیں آتا تو زائد حامد صاحب سے پوچھ لیں۔

جہاں تک ہماری بات ہے تو ہمیں فواد چوہدری، مفتی منیب اور مفتی پوپلزئی تینوں کی حمایت کرتے ہیں۔ بھلے وقتوں میں غالباً پیپلز پارٹی کی مرکز اور اے این پی کی صوبہ سرحد میں حکومت کا پہلا سال تھا کہ عید آ گئی۔ باقی ماندہ ملک میں رمضان کا آغاز تو مفتی منیب کے چاند سے ہوا تھا لیکن عید کا چاند اے این پی والوں نے مفتی پوپلزئی کا دکھا دیا۔ نتیجہ یہ کہ پاکستان کے سرکاری رویت ہلال کمیٹی والے علاقوں میں 28 دنوں کے روزوں کے بعد عید کر لی گئی۔ اب ان دونوں مفتیان کرام کے بعد فواد چوہدری صاحب بھی کچھ تعاون کر دیں تو اس برس ایک روزہ مزید کم کر کے 27 روزوں کی عید کی جا سکتی ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar