بھارت کے انتخابی نتا ئج: مودی کی جیت کہانی


معروف تجزیہ کار سعید نقوی کے مطابق موجودہ انتخابی نتائج نے بھارت کے چہرے سے نقلی سیکولرازم کا نقاب اتار دیا ہے ۔اس سیکولر ازم کی آڑ میں پچھلی سات دہائیوں سے مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ کیا گیا، اس کی عکاسی 2005ء میں جسٹس راجندر سچر کمیٹی نے کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک ڈیکلیرڈ اور دیانت دار ہندو اسٹیٹ ایک کھوکھلی سیکولر اسٹیٹ سے بدرجہا بہتر ہے۔ ان انتخابات میں تو سیکولر جماعتوں نے بھی مسلمانوں سے ووٹ مانگنے سے پرہیز کیا۔

اسکے باوجود ہندو ووٹروں نے ان کو کوئی پذیرائی نہیں بخشی۔اتر پردیش میں ملائم سنگھ یادو اور دلتوں کی لیڈر مایاوتی کو پتا ہی نہیں چلا کہ کب ان کا ‘ ‘کور ووٹر‘‘ دلت اور یادو ان کے دامن سے کھسک گیا ،کیونکہ امیت شاہ ان کے ووٹروں کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ ان کے لیڈران مسلمانوں کی نازبرداری میں لگے ہوئے ہیں جس سے ایک طرف ہندو ذات پات کی حدود کو چھوڑکر اپنے ان لیڈروں کوسبق سکھانے کے لئے بی جے پی کے حق میں متحد ہوگئے۔

یہ ایک انتہائی شاطر چال تھی جوکامیاب ہوکر بی جے پی کے لئے ایک تاریخی مینڈیٹ لائی۔ یہ الیکشن مسلمانوں کے لئے بھی عبرتناک اسباق چھوڑ گیا ہے۔ عام مسلمانوں نے ہر جگہ اْس سیکولرپارٹی کا ساتھ دیا جو فرقہ پرستوں کے مقابلے میں مضبوط نظر آرہی تھی ۔اس کے مقابلے اپنے لیڈروں کو جو میدان میں قسمت آزمائی کر رہے تھے، بی جے پی کا ایجنٹ تک کہہ ڈالا یہ طے ہے کہ مسلمان اپنے بل بوتے پر کامیاب نہیں ہوسکتے ۔

معروف صحافی پرشانت جھا نے اپنی کتاب How BJP Wins Elections میں لکھا ہے کہ مودی کی ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم آرایس ایس نے ایک ایسے قائد کے طو رپر تشہیر کی ہے جو پاکستان کو سبق سکھا سکتا ہے اور اعلیٰ ذات کی خواہشات کی تکمیل بھی کرسکتا تھا۔ قوم پرستی کے جذبے کو اس حد تک پروان چڑھایاگیا کہ نوٹ بندی اور نئے ٹیکس سسٹم جی ایس ٹی کے بداثرات نظر انداز کرکے لوگوں نے ووٹ بی جے پی کودیئے۔

اسکے علاوہ امت شاہ نے جس طرح بی جے پی کو یوپی او رپھر دوسری ریاستوں میں اپنے قدموں پر کھڑا کیا وہ کانگریس یا کسی دوسری سیکولر پارٹی کا کوئی قائد نہیں کرسکا۔ ضلع اور تعلقہ کی سطح سے بوتھ کی سطح تک بی جے پی کو متحرک کرنا ایک بڑا کام تھا۔بی جے پی نے پولنگ بوتھ سطح پر ’ادھ پر پنا پرمکھ ‘یعنی ووٹر لسٹ میں درج 50گھروں کا ایک انچارج بنایاتھا۔ ان کو ہدایت تھی کہ ان گھروں میں افراد خانہ کے یوم پیدائش و دیگر تقاریب و اموات کا خیال رکھیں اور ایسے موقعوں پر ان کے گھر وں پر حاضری دیں۔

اسکے علاوہ روز انہ ان کے حال احوال پوچھنے کیلئے ان کے گھروں پر دستک دیا کریں۔ یہ ایک ایسی حکمت عملی تھی، جس نے بی جے پی کو عام لوگوں کی روز مرہ کی زندگی کا حصہ بنادیا او ران لوگوں میں بھی بی جے پی نے جڑیں پکڑلیں جو اس پارٹی اور اسکے نظریہ سے دور تھے۔ اسکے علاوہ ہندو ۔مسلم تناؤ کو، بھی بی جے پی نے انتخابی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔پرشانت جھا لکھتے ہیں کہ اپنے اس مقصد کے لئے بی جے پی’پروپیگنڈے’ اور ‘جھوٹ’کا سہارا لیتی چلی آئی ہے۔

جھوٹے ویڈیو سوشل میڈیا پر پھیلائے گئے تھے او ربی جے پی کو یہ سب کرنے میں کسی طرح کی شرم نہیں محسوس ہوتی ہے۔ بی جے پی کا یہ پروپیگنڈہ خوب کام آیا کہ اس ملک میں وہ سیاسی پارٹیاں جو خود کو سیکولر کہتی ہیں مسلمانوں کی منہ بھرائی کرتی چلی آرہی ہیں اور ہندوؤں کو نظر اندا زکرتی ہیں۔ یہ وہ پروپیگنڈہ تھا جس نے بہت سارے ہندوؤں، کو مسلمانوں کے خلاف اْکسایا ۔ ایک پروپیگنڈہ ہندوؤ ں کے غیر محفوظ ہونے کا بھی تھا ۔

یہ جھوٹ پھیلایاگیا کہ مسلمانوں کے ظلم سے تنگ آکر مغربی یوپی کے مسلم اکثریتی قصبہ کیرانہ سے ہندو منتقل ہورہے ہیں۔شمال مشرقی صوبوں کے عیسائی علاقوں میں بھی بی جے پی نے کانگریس سے ناراض دیگر علاقائی سیاسی پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم فراہم کیا۔ بی جے پی کے لیڈروں نے چانکیہ نیتی کے تحت سام (چاپلوسی) دام(رشوت)، ڈھنڈ (سزا) اور بھید (خوف) کا استعمال کرکے کم وبیش 40 چھوٹی اور بڑی جماعتوں کے ساتھ اتحاد تشکیل دے کر بازی مار لی ۔

شیو سینا کی گالیاں کھانے کے باوجود، جس نے بارہا نریندر مودی کو نشانہ بنایا، پارٹی صدر امیت شاہ نے ممبئی جاکر سینا کے سربراہ ادھو ٹھاکرے کی چوکھٹ پر نہ صرف ماتھا رگڑا، بلکہ پانچ سیٹوں کی قربانی بھی دی۔

اسی طرح بہار میں بھی اس نے موجودہ کئی اراکین پارلیمان کی قربانی دیکر جنتا دل (یونائیٹڈ) کے ساتھ اتحاد تشکیل دیکر فتح کیلئے راہ ہموار کر دی۔ دوسری طرف کانگریس، کرناٹک، بہار، مہاراشٹرہ اور تامل ناڈو کے علاوہ کسی بھی دیگر صوبہ میں کوئی قابل ذکر اتحاد تشکیل دینے میں کامیاب نہیں ہوئی ، جس کی بڑی حد تک وہ خود ذمہ دار ہے۔ دہلی میں بسیار کوششوں اور درخواستوں کے باوجود عام آدمی پارٹی (عآپ)کے ساتھ اتحاد کرنے سے انکار کردیا۔

اسی طرح سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش میں بھی مقامی سیکولر پارٹیوں اور انکے اتحاد کو مضبوط کرنے کے بجائے کانگریس نے اکیلے ہی انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا۔ پرینکا گاندھی کو میدان میں اتار کر سہ رخی مقابلے کی فضا تیارکی۔آسام میں بدرالدین اجمل کی یونائٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ سے اتحاد کی دعوت کو حقارت سے ٹھکرایا۔

مہاراشٹر میں اسدالدین اویسی اور دلت لیڈر پرکاش امبیڈکر کے اتحاد کے ساتھ انتخابی مفاہمت سے انکار کیا۔ خیر مودی کے سر پر اب وزارت عظمیٰ کاتاج سج گیا ہے۔ ان کی کامیابی کی ضمانت اسی پر منحصر ہے کہ ملک کا کوئی بھی شہری خود کو غیر محفوظ نہ سمجھے۔ اقلیتی طبقے کوذہنی تنائو سے آزادی دلا دے۔ مزید تمام ہمسایہ ملکوں کے ساتھ اچھے روابط اور دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی اشد ضرورت کو سمجھے۔ (ختم شد)

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).