زیرو پوائنٹ فائیو: اسلام آباد ماموں


آپ چاند کی مثال لے لیجیے۔
چاند ہمارے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے لگ بھگ ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل کی فاصلے پر افق میں عمودی سمت پر واقع ہے۔ یہ ایک نسبتاً گول دکھائی دینے والا ایسا سیارچہ ہے جو وفاقی دارالحکومت سے عموماً صاف دکھائی دیتا ہے۔ یہ اپنے رنگ بدلتا رہتا ہے۔ کبھی یہ سنہرے رنگ کا ہوجاتا ہے کبھی سفید ہو جاتا ہے کبھی اس پر سرخ رنگ غالب آ جاتا ہے تو کبھی یہ معشوق کے تل کی مانندسیاہ دکھائی دیتاہے۔ چاند کو بچپن میں چندا ماموں کہتے ہیں۔

یہ ماموں بچوں کے جوان ہونے پر ماموں کے رتبے سے گر کر صرف چندا رہ جاتا ہے اور ہر عاشق کو اپنی اپنی چنداؤں کے چہروں میں بھی دکھائی دینے لگتا ہے۔ آپ کسی دن چاند کا ڈیٹا نکال کر دیکھ لیں۔ آپ حیران رہ جائیں گے۔ چاند پر پانی نہیں ہے۔ چاند پر ہوا نہیں ہے۔ چاند پر برف پوش پہاڑ نہیں ہیں۔ چاند پر جنگل نہیں ہیں اور چاند پر وسیع و عریض صحرا بھی نہیں ہیں۔ چاند پر کچھ بھی نہیں ہے۔ ہم میں سے اکثر نے بچپن میں چاند سے متعلق بہت سی کہانیاں سنی ہوئی ہیں۔

ایک کہانی کے مطابق چاند پر ایک بڑھیا بیٹھی چرخہ کات رہی ہے۔ نیل آرم اسٹرونگ نے 1969 میں چاند پر پہلا قدم رکھتے ہی اس کہانی کو غلط قرار دے دیا تھا۔ اس نے زمین پر آتے ہی یہ بیان دیا تھا کہ چاند پر اسے کوئی بڑھیا دکھائی نہیں دی۔ پھر آخر چاند پر کیا ہے؟ چاند پر تا حد نگاہ میدان ہیں اور اونچے نیچے ٹیلے ہیں اس کے علاوہ چاند پر کچھ بھی نہیں ہے۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ چاند پر کچھ نہ ہونے کے باوجود بہت کچھ ہے۔ وہ کچھ کیا ہے؟ اس پر ہم آگے چل کر بات کریں گے۔

اب ہم اپنے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی طرف آتے ہیں۔ مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں واقع اس شہر میں ہماری پارلیمنٹ واقع ہے اور اس پارلیمنٹ کو چاند سے ایک خاص نسبت ہے۔ وہ نسبت کیا ہے؟ وہ نسبت یہ ہے کہ چاند کی طرح پارلیمنٹ بھی دور سے پر کشش دکھائی دیتی ہے۔ لوگ چاند کو دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں بالکل ویسے ہی لوگ پارلیمنٹ کو دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں۔ چاند پر پہنچنا بظاہر نا ممکن ہے اور اسی طرح ایک عام آدمی کا اسلام آباد میں واقع ایوان کے اقتداروں میں پہنچنا بھی تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ہے۔

جیسے چاند ہم سب کا ہے اور ہم چاند پر جانا چاہتے ہیں مگر وہ ہماری پہنچ سے دور ہے ویسے ہی پارلیمنٹ بھی ہم سب کی ہے اور ہم سب پارلیمنٹ میں جانا چاہتے ہیں مگر یہ ہماری پہنچ سے دور ہے۔ چاند کو ہم نے نہیں بنایا اور دراصل موجودہ پارلیمنٹ کو بھی ہم نے نہیں بنایا۔ ہم بچوں کو بتاتے ہیں کہ چاند دراصل چندا ماموں ہے۔ اور ہم اپنے بچوں کو قہقہہ مار کر یہ بھی بتاتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں بیٹھنے والے ہم سب کو ماموں بناتے ہیں۔

چاند بے نیازی سے دور افق پر بیٹھ کر ہمارا تماشا دیکھتا رہتا ہے اور بالکل ایسے ہی ہماری پارلیمنٹ بھی بے ”نیازی“ سے دور دور سے ہمارا تماشا دیکھتی رہتی ہے۔ آپ کو یقین نہیں آتا؟ آپ کسی دن وقت نکال کر سوشل میڈیا کا رخ کر لیں اور ملک میں پھیلی ہوئی بے امنی ملاحظہ فرما لیں پھر اس کے بعد ہمارے پارلیمینٹیرینز کی بے حسی ملاحظہ کر لیں۔ آپ اچھی طرح سمجھ جائیں گے۔

قارئین کرام! آپ کسی چھٹی کے دن کمپیوٹر پر بیٹھ جائیں۔ آپ اسلام آباد اور چاند کا جائزہ لینا شروع کر دیں۔ آپ اپنا سر پیٹ لینے پر مجبور ہو جائیں گے کہ یہ اس کالم نگار نے ہمیں کس کام پر لگا دیا ہے۔ بھلا چاند اور اسلام آباد کا آپس میں کیا تعلق ہو سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے آپ کو کوئی ڈیٹا نہ ملے۔ مگر آپ ٹھنڈے دل سے غور کریں گے تو آپ پر انکشافات کے دروازے کھلتے چلے جائیں گے۔ آپ کو معلوم ہو گا کہ چاند کی طرح اسلام آباد میں بھی اونچے نیچے ٹیلے موجود ہیں۔

اسلام آباد بھی چاند کی طرح ایک خاموش جگہ ہے۔ اور اسلام آباد بھی چاند کی طرح رنگ بدلتا ہے۔ چاند پر ہوا نہیں چلتی مگر اسلام آباد میں ہوا اکثر الٹے رخ پر چلتی ہے۔ یہاں کے ”علاقہ مکین“ ہوا کے رخ کا خاص خیال رکھتے ہیں اور اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالتے رہتے ہیں۔ اسلام آباد بنیادی طور پر کرایہ دارانہ مزاج کا حامل ایک شہر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں اکثر کرایہ دار آ کر پانچ برس کے لیے ٹھہرتے ہیں۔ ملک مکان اپنے کرایہ داروں سے ہمیشہ یہ توقع رکھتے ہیں کہ کرایہ دار ان کے گھر کی حفاظت کریں گے اور اسے کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔

اس شہر کے کرایہ دار مگر گھر کی حفاظت سے زیادہ اپنی حفاظت کرنے میں مصروف رہتے ہیں اور یوں گھر بے چارہ شکستگی کا شکار ہوتا رہتا ہے۔ اسلام آباد میں کرایہ داری کا قانون نافذ ہے۔ اس قانون کے تحت کرایہ داری کے معاہدے کی ہر سال تجدید کرنا پڑتی ہے۔ اور ہر سال کرایہ میں دس فیصد اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ مگر آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ اسلام آباد میں ہی ایک دو ایسے گھر ہیں جہاں کرایہ داری کے معاہدے کی تجدید پانچ اور چھ سال کے بعد کی جاتی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان گھروں کے کرایہ دار مالک مکان کو کرایہ دینے کے بجائے کرایہ وصول کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں دستور ہے کہ مکان کا کرایہ مالک مکان بڑھاتا ہے مگر یہ دو گھر ایسے ہیں جن کا کرایہ بڑھانے کی درخواست خود کرایہ دار کرتے ہیں اور بعض اوقات کرایہ بڑھانے کے لیے ایک سال کا انتظار بھی نہیں کرتے۔ گویا اسلام آباد ایک دلچسپ شہر ہے۔ گذشتہ سال اسلام آباد کے کرایہ داروں کے معاہدے کی تجدید کا سال تھا۔ اس سال بہت سے کرایہ داروں نے اسلام آباد کو خیر باد کہ دیا اور نئے کرایہ داروں نے ان کی جگہ سنبھال لی۔ کرایہ داری معاہدے میں تجدید کرتے وقت ایک بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اپنا گھر صرف اس کرایہ دار کو کرایہ پر دیں جو کرایہ داری کا حق ادا کرنے والا ہو۔

اب ہم واپس چاند کی طرف آتے ہیں۔ چاند میں کچھ نہ ہونے کے باوجود بہت کچھ ہے۔ یہ بہت کچھ کیا ہے؟ جب رات ہو جاتی ہے تو چاند سورج سے روشنی پا کر زمین کے اندھیرے حصوں کو ایک نرم ملائم سی روشنی مہیا کرتا ہے۔ یہ روشنی سکون پہنچاتی ہے۔ اور یہ دھیمی سی روشنی پردہ بھی رکھتی ہے۔ گویا چاند ہماری امید ہے۔ اسی طرح اسلام آباد بھی ہماری امید ہے۔ اسلام آباد میں ہماری پارلیمنٹ واقع ہے اور یہ پارلیمنٹ ہمارے اچھے مستقبل کی امید ہے۔

اس وقت ہماری زندگیوں میں سے سکون رخصت ہو چکا ہے اور ہر قسم کے پردے رفتہ رفتہ اٹھتے جا رہے ہیں۔ تاریکی تیزی سے اپنا تسلط قائم کرتی جا رہی ہے۔ ہمارا چندا ماموں شاید ہم سے ناراض ہو گیا ہے۔ ہمیں اپنے چندا ماموں کو منانا ہے۔ ہماری پارلیمنٹ ہمارا چندا ماموں ہے۔ ہمیں اپنے اسلام آباد ماموں کو سر سے پاؤں تک منانا ہے۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad