کیا سوال غدار ہیں؟


فاطمہ جناح، باچا خان، ولی خان، غوث بخش بزنجو، عطا اللہ مینگل، خیر بخش مری، ذوالفقار علی بھٹو، اکبر بگٹی، بے نظیر بھٹو، نواز شریف، الطاف حسین۔ یہ سب افراد پاکستانی ریاست کے کبھی نہ کبھی غدار رہے ہیں۔ تاہم ان تمام لوگوں میں ایک قدر مشترک ہے کہ یہ سبھی ہمیشہ غدار نہیں تھے۔ یہ کبھی غدار تھے اور کبھی محب وطن۔

یہ جملے پاکستان کے سب سے مقتدر ایوان جسے میں نے اور آپ نے اپنے ووٹوں چُنا ہے وہاں پہ بیٹھے ایک منتخب عوامی نمائندے کے ہیں جو اس وقت موجودہ حکومت کے اہم حمایتی ہیں۔ اگر آپ ان کے نام سے واقف نہیں ہیں تو انہیں سردار اختر مینگل کہتے ہیں اور یہ تحریک انصاف پاکستان کی حکومت کی اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور معزز رکن قومی اسمبلی ہیں۔

گزشتہ روز حقوق انسانی کی ایک کارکن جن کا تعلق پنجاب کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت سے ہے، ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ ہمیں ہمارے ملک میں برابری کا حق اس صورت ملے گا جب آپ جیسے لوگ جن کا تعلق پاکستان کے اکثریتی مذہبی طبقے سے ہے، ہمارے حق میں اور ہمارے حقوق کے لئے آواز بلند کریں گے۔

مجھے اس پہ کوئی شرمندگی یا فخرنہیں کہ میرا تعلق اکثریتی مذہب سے ہے یا اکثریتی نسلی و لسانی گروہ سے ہے۔ یہ وہ جبری شناخت ہے جس کو چُننا یا اختیار کرنا میرے بس میں نہیں تھا۔ لیکن قومی اہمیت کی اس نازک گھڑی میں جب کسی ایک قومی طبقے کے پڑھے لکھے اور باشعور نوجوانوں نے اپنے جائز اور منصفانہ حقوق کے لئے آواز اٹھا رہے ہیں۔ وہ آئینی اور قانونی جدوجہد کے دائرے میں رہ کر وفاق اور پارلیمان سے اپنے خطے اور علاقے میں ہونے والے جنگوں اور فوجی کارروائیوں کا حساب مانگتے چلے آرہے ہیں۔ یہ سب سیاسی اور انسانی مطالبات ہیں۔ ان کی بنیاد انسانی حقوق کی مکمل فراہمی کے اس وعدے میں پوشیدہ ہے جو ہمارے آئین میں درج ہیں۔

پاکستان کا قیام برصغیر کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت کے سیاسی مطالبے کا نتیجہ تھا جسے تحریک پاکستان کے عہد میں اس وقت کے پنجاب کی مسیحی اور بنگال و سندھ کی شیڈول کاسٹ ہندوبرادری کی حمایت بھی حاصل تھی۔ اس کے بنانے میں اس خطے کے لوگوں کی مرضی بھی شامل تھی اور ہندوستان کے وسط میں واقع متحدہ صوبہ جات کی مسلم اشرافیہ کی کوشش و کاوش بھی۔

لہذا متنوع قومی، مذہبی اور لسانی شناختوں کے حامل اس جغرافیائی خطے کے باسی افراد کو جنہوں نے اس سرزمین میں جنم لیا ہے، اس کے ساتھ وفاداری نبھانے کے لئے میرے یا آپ کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے۔

ہمیں اس وقت غداری اور حب الوطنی کی تقسیمات سے باہر نکل کر دیکھناہوگا کہ وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے کچھ سوال رکھے ہیں۔ سوال ایک سیال مادے کی مانند اپنی جگہ خود بنا لیتا ہے اور اگر اس کا جواب نہ بھی دیا جائے تو یہ مرتانہیں ہے بلکہ باقی رہتا ہے۔ اس کی منزلیں مختلف ہوتی ہیں مگر اس کا رستہ قائم ہے۔ اسے باہمی احترام اور مکالمے کے ساتھ طے کیا جاتا ہے۔ سوال کے جواب میں گالی، گولی اور تشدد سوال کو مضبوط بناتا ہے اور اس کی منزل کایک طرفہ فیصلہ آسان کردیتا ہے۔ منزلوں کا تعین ہوجائے تو رستے مل جاتے ہیں اور اگر زاد راہ نہ ہوتو کئی مدد گار آن پہنچتے ہیں۔ ہم اپنی قومی تاریخ میں ان تاریک ابواب سے گزر چکے ہیں۔

سوال پوچھنے والی آوازوں کو جبراً خاموش کروا دینے سے اگر عوام کے جائزحقوق کے خلاف جنگ جیتی جاسکتی تو تیسری دنیا کے کئی ممالک کے جغرافیے تبدیل نہ ہوتے۔ قوم کا ہر باشعور اور ترقی پسند ذہن ریاستی جبر کی ہر صورت سے تنگ ہے۔ اگر ہم میں سے کوئی تاحال خاموش ہے تو اس کی وجہ سوائے اس بھیانک خوف کے اور کچھ نہیں جس کی عملی تصویر لاشوں اور جبری گمشدگیوں کی صورت آئے روز ہمارے آس پاس بھوت بن کر ڈراتی رہتی ہے۔

آئیے اور اختر مینگل کی بات سنیئے کیونکہ ان کی بات میں دلیل کا وزن ہے۔ اگر اکثریتی مذہبی نسلی اور لسانی گروہ زمینی و تفہیمی مضافات میں آباد ایسے لوگوں کو تک نہ پہنچ سکا جنہیں ہماری خاموشی میں اپنی موت کی چاپ سنائی دیتی ہے تو آگاہ رہیئے گا کہ انسانوں کی مثال مسافروں کی سی ہے اور اللہ کی زمین بہت وسیع ہے۔
ہم اپنی قومی تاریخ کے تقویمی کیلنڈر میں مزید کسی سیاہ دن کی گنجائش نہیں رکھتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).