مشفقی مفتی منیب الرحمن صاحب سے رہنمائی درکار ہے


فواد چوہدری کے ساتھ ہماری کبھی ہماری ذہنی ہم آہنگی نہیں رہی۔ البتہ انہوں نے جو رویت ہلال کمیٹی ختم کرنے کی بات کی اور اس کے مقابلے میں جدید سائنسی طریقے سے قمری کیلنڈرتیار کر کے آئندہ پانچ سال تک کی عیدالفطرکی تاریخوں کا اعلان کیا ہے، اس نے ہمارے ناپختہ ذہن کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس کے مقابلے میں ہمارے مرشد و ممدوح مفتی منیب الرحمٰن کے فرمان نے ہمیں اور بھی کنفیوژ کر دیا ہے کہ ہم ننگی آنکھ سے چاند دیکھنے کے مقابلے میں کسی جدید سائنس و ٹیکنالوجی کو نہیں مانتے۔ تیری آواز مکے اور مدینے۔

شعلہ بار لہجے اور دشنہ و خنجر کی زبانیں…. لگتا ہے کہ یہی ہمارا کل اثاثہ ہے۔ یہاں رواداری اپنی شرمناک پامالی پر ماتم کناں ہے اور انسانیت بکھرے انسانی اعضا پر دوزانو بیٹھی بین کرتی ہے۔ حرص و ہوس اور شدت پسندی سے آلودہ ایسے زہرناک ماحول میں چند نادر و نایاب مستثنیات غنیمت ہیں، جن کا وجود خزاں رسیدہ سر زمین پر نوید بہارکی مانند ہے۔ مفتی منیب الرحمٰن بھی انہی مستثنیا ت میں سے ہیں۔

اس صلح کل عالم اور واعظ خوش کلام کی پرمغز گفتگو ساون کے خروش کی بجائے دسمبرکی رم جھم جیسی ہے، جو پھوار کی طرح برستی، دلوں کو نہال کر جاتی ہے۔ نظریاتی اختلافات کی بات کرتے بھی کوئی تند و تیز لفظ، نہ کوئی تلخ جملہ اور نہ کوئی ناتراشیدہ تبصرہ۔ فکری الجھاﺅ، نہ جذباتی ہیجان۔ ان کی نستعلیق اردو اور تصوف کی اصطلاحات سے مزین تحریر کشت تمنا کو سیراب کرتی ہے اور لب لعلین سے جو بات بھی نکلتی ہے، اثر رکھتی ہے۔ مفتی صاحب نے روزنامہ دنیا کے ادارتی صفحات پر 25 نومبر 2018 کے اپنے کالم ”ہمارے لبرل کرم فرما“ میں استاذی مستنصرحسین تارڑ اور اس ادنیٰ قلم کار کے کالموں پر اپنے مخصوص عملی و ادبی انداز میں تنقید فرمائی۔ اشارتاً جناب ایاز امیر کے خیالات پر بھی اسی انداز میں گفتگو کی گئی ہے۔ لبرل طبقے کے ساتھ اپنے نظریاتی اختلافات کی بات کرتے کرتے آپ نے اپنی شخصیت کے متعلق ہمارے موقف بالا کی حمایت ان الفاظ میں کی ہے”میں آتش مزاج نہیں ہوں، الحمداللہ علیٰ احسانہ! ٹھنڈے مزاج کا حامل ہوں، متانت اور وقار سے بات کرتا ہوں، نظریاتی اختلاف کرتے ہوئے بھی شخصی احترام کو ملحوظ خاطر رکھتا ہوں، زبان و بیان قابو میں رکھتا ہوں، نہ نفرت انگیز باتیں کرتا ہوں اور نہ کسی سے نفرت کی روشنائی میں قلم ڈبو کر لکھتا ہوں“ آپ نے یہ باتیں مستنصر حسین تارڑ کے اس کالم کے جواب میں لکھی ہیں، جس میں تارڑ صاحب نے رویت ہلال کمیٹی کی افادیت پر سوال اٹھایا ہے۔

اس ناقص القلم کے بارے میں مفتی منیب الرحمٰن نے ازراہ کرم لکھا تھا ”ایک اور ہمارے پسندیدہ کالم نگارجناب وقارخان ہیں، حضرت بھی لبرل ہیں، لیکن زبان وبیان کے چٹخارے کے لیے جب فرصت ہو تو ان کا کالم پڑھ لیتا ہوں، وہ بھی وقفے وقفے سے رویت ہلال کے موضوع کو زیربحث لاتے رہتے ہیں“ زہے نصیب، مفتی صاحب کے یہ الفاظ ہمارے لیے سرمایہ اعزاز ہیں۔ انہوں نے ہمیں لبرل قرار دیا…. نوازش، کرم، شکریہ، مہربانی۔ کاش ہماراحلقہ احباب بھی یہ حقیقت تسلیم کر لے۔ ہمیں قریب سے جاننے والے تو کہتے ہیں کہ تمہارا لبرل ازم زبان وبیان کے چٹخارے تک ہی محدودہے۔ یہ وہ احباب ِمحترم ہیں، جن کے نزدیک لبرل ازم لادین لوگوں کے نظریات سے عبارت ہے۔ گویا ان کے خیال میں یہ گناہ گار بھی اندر سے دین دارحضرات میں شامل ہے۔ اقبال نے کہا ہے:

زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا

اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں

چیئرمین رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمٰن سے پہلی مرتبہ ہمارا براہ راست رابطہ 2015ء میں ہوا۔ اس سے قبل ہم ان کے غائبانہ مداحین میں شمار ہوتے تھے۔ معاصر میں اثنائے کالم نگاری ، ہمارا ایک کالم ”غالب بنام ظفر اقبال“ مسترد ہوا۔ جناب ظفراقبال نے کمال اعلیٰ ظرفی سے اس گستاخانہ تحریر کو ”دنیا“ میں اپنے کالم میں شامل کیا۔ اس خط کے آخر میں ”غالب“ ظفراقبال سے کہتے ہیں ”ہمہ صفت مصنف کتب کثیرہ!عریضہ ہذا کے توسط سے ایک مشورہ دیتا ہوں، اگر خفا نہ ہو جاﺅ گے تو مفاد و حظ اٹھاﺅ گے۔ قبر میں پاﺅں لٹکائے بیٹھے ہو اور پیرانہ سالی میں ضعف بصارت کاعارضہ بھی لاحق ہے۔ میری مانو تو مشق سخن کی مشقت ترک کرو اور خصائص بالا کی بنیاد پر بے دھڑک رویت ہلال کمیٹی میں شامل ہو جاﺅ، دال دلیہ بھی چلتا رہے گا اور عید بقرعید قوم کی دعائیں بھی لیتے رہو گے“ مفتی صاحب نے ناراض ہونے کی بجائے گستاخ کے ان ناہنجارسے الفاظ کا لطف اٹھایا اور فون کر کے حوصلہ افزائی کے بعد اپنی اور رویت ہلال کمیٹی کے دیگر ارکان کی مراعات کے بارے میں وہی وضاحت کی، جوانہوں نے اپنے کالم متذکرہ میں کی ہے۔

حق وصداقت کے اس مبلغ کی گہری دانائی اور سچائی میں گندھی گفتگو میں ناصحانہ رنگ و نیرنگ اور عالمانہ لطافت و شگفتگی بھی نمایاں ہے۔ عاجز کو ان کے اس کالم کے ذریعے ہی معلوم ہوا ہے کہ وہ حقیقی لبرل ہے، ورنہ جیسا کہ عرض کیا جا چکا، ناچیز کے جاننے والے تو اسے قدامت پسند اور کئی نیم لبرل خیال کرتے ہیں، جو نیم مُلا کی طرح خطرناک ہوتا ہے۔ ویسے غلط یہ احباب بھی نہیں کہ یار لوگ علاقے میں ”جماعت والے“ کے نام سے موسوم ہیں۔ غریب خانے کا پتہ ہم مہمانوں کو یوں سمجھاتے ہیں کہ گاﺅں پہنچ کر میانوالی روڈ کے ساتھ جس رستے پر”خوش آمدید، جماعت اسلامی“ کا بورڈ جگمگا رہا ہو گا، وہ سیدھا ہمارے ڈیرے پر آتا ہے (یعنی ہمارے گھرکے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے) مراد یہ ہے کہ خادم ایک روایتی دیہاتی مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتا ہے، جہاں زندگی معروف معنوں میں کافی خشک ہے اور ہم لوگ اس پر خوش ہیں۔

بجا کہ ”اِکو پاسا رہندا ہیرے، یا کھیڑے یا رانجھے“ مگر ڈیجٹل عہد کے اس کج فہم کو اپنے ایک ذہنی خلجان پر مرشدی منیب الرحمٰن کی مہرباں رہنمائی درکارہے کہ اگرہماری اس ”خشک“ زندگی کے مقابلے میں کسی کے شب وروز”تر“ ہیں تو ہمیں اس پر کبھی اعتراض نہیں ہوا۔ اس بے نوا قلم کار کا ناقص خیال ہے کہ اگر کسی کا کوئی فعل ریاست کی منتخب پارلیمان کے بنائے گئے قوانین کے تحت خلاف قانون ہے تو ریاست ہی کو اس کے خلاف بروئے کار آنا چاہیئے۔ ہمارے سمیت کسی کو اختیار نہیں کہ اس کے خلاف ڈانگ اٹھا لے، جیسا کہ یہاں ہوتا ہے۔ احقر کا جی چاہتا ہے کہ کسی بھی شہری کو کسی دوسرے سے اپنے مسلمان ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی ضرورت نہ ہو۔

اب آپ سے کیا چھپانا، ہم ذاتی طور پر ان مورکھوں میں سے ہیں، جس نے کبھی جھوٹے منہ بھی کسی کو ”ہیپی ویلنٹائن ڈے“ نہیں کہا اور نہ کبھی حیا ڈے منایا ہے۔ البتہ دل سے دعا نکلتی ہے کہ ویلنٹائن ڈے منانے والوں کی خیر اور حیاڈے منانے والوں کا بھی بھلا۔ اگرکوئی دوسرے کی پرائیویسی متاثر کیے بغیر نئے سال کو خوش آمدید کہنے کے لیے رات بھر جاگتا ہے تو اسے مبارک اور اگر کوئی عبادت کی خاطر شب بیداری کرتا ہے تو اسے صد مبارک۔ جو اپنی حدود میں رہ کر بسنت مناتا ہے اسے سلام اور جو کسی روحانی محفل میں سکون پاتا ہے اسے دو سلام۔ جس نے ٹریفک اور دوسرے شہریوں کی زندگی متاثر کیے بغیرعورتوں کے حقوق کے لیے جلوس نکالا، اسے صدآفریں اور جس نے میلاد شریف کے لیے یہ نیک عمل کیا، اسے ہزار آفریں۔ جو فقط اپنے کمرے تک آواز محدود کر کے موسیقی سے دل بہلاتا ہے اسے آداب اور جو ہال کا منی سپیکر کھول کر وعظ وتبلیغ کرتا ہے اسے سر جھکا کر آداب۔ پوچھنا یہ ہے کہ کہیں اس طرح کے ذہنی خلجان لبرل ازم کے زمرے میں تو نہیں آتے؟کچھ دانشورتو لبرل ازم کی تعریف ایسے ہی الفاظ میں کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ذہنی کشادگی کا دوسرا نام ہے، اگرچہ عاجزکی ذہنی کشادگی اس کے رزق کی طرح خاصی محدود ہے۔

اس حقیر پرتقصیر کے خیال میں قابل مذمت اورقابل گرفت جرائم اپنی قانونی اوراخلاقی حدودسے تجاوز کرنا، جبر و تشدد کے ذریعے مخلوق خدا پر اپنے نظریات ٹھونسنا، ناجائزذرائع سے دولت اکھٹی کرنا، دوسروں کے حقوق اور آزادی رائے غصب کرنا، ٹیکس چوری اورخیانت ہیں، چاہے وہ کوئی بھی طبقہ کرے۔ البتہ کوئی بھی نظریہ اپنانا جرم نہیں۔ طالب علم کا خیال ہے کہ مہذب دنیا کی طرح یہاں بھی کوئی نظریہ یا تہذیب اپنانے کی اجازت ہونی چاہیئے۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ پاک سرزمین پر بھی فکر و تدبر کے صدیوں پرانے مقفل کواڑ کھول دیے جائیں، جدید سائنس و ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا جائے، تاکہ شعلہ بار لہجوں اور دشنہ و خنجر کی زبانوں کی جگہ مفتی منیب الرحمٰن کی جیسی شائستہ زبان اورعالمانہ انداز میں صحت مند مکالمے کا آغاز ہو سکے، نیز تین تین عیدیں منانے کی جگ ہنسائی کا خاتمہ ہو سکے؟ رہنمائی درکار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).