اخلاقیات پڑھائیے


گزشتہ چار روز سے چیرمین نیب کی مبینہ وڈیو سارے میڈیا پر حاوی ہے۔ آ وازوں کا نہ تھمنے والا شور ہے جو سماعتوں کو چیر ڈالتا ہے۔ یہ وڈیو صحیح ہے یا غلط مجھے (اور میرے جیسے کئی جہلاء ہوں گے ) اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔

مگر راقم کو یہ مشاہدہ ضرور ہوا کہ اس ”محبتی“ وڈیو کے منظر عام پر آتے ہی دلداروں کی تو جیسے چاندی ہی ہو گئی۔ تمام صنف مخالف سے معذرت کے ساتھ پاکستانی مردوں کا ”محبت“ کے معاملے میں باقی دنیا کے مردوں سے کوئی مقابلہ ہو ہی نہیں سکتا یہ اول ہیں اور اول رہیں گے۔

ایک وڈیو جاوید اقبال کی سامنے آئی۔ جواب میں جو روپوش جاوید اقبال سامنے آئے بخدا انہوں نے قوم کو ( اگر فحاشی کے زمرے میں نہ آئے تو) مزہ کرا دیا۔

ایسے ایسے لطائف، اشعار، چٹکلے، ذومعنی فقرے نظر سے گزرے کی بندہ تنہائی میں پڑھ کر شرما جائے۔ زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ صنفِ نازک بھی بساط بھر تڑکے لگاتی رہی۔

ایک بار تو یہ سوچ کر خود کو تسلی دی کہ دکھ درد، مہنگائی، غربت اور مسائل کی ماری ہوئی قوم کو کسی بہانے ہنسی، ٹھٹولا کرنے کا موقع ملا ہے تو کرنے دو۔ لیکن سچ تو یہ ہے ”میرے عزیز ہم وطنوں“ کے قوم تو اپنے مسائل میں اتنی الجھی ہوئی ہے اور سر سے پاؤں تک اتنی نڈھال ہے کہ یہ وڈیو والی واردات اگر براہ راست بھی اس کے سامنے کی جاتی تو وہ ”مٹی پاؤ“ کہہ کر آ گے بڑھ جاتی۔

ان قسم کی رنگ رلیوں سے تو وہ پانچ فیصد طبقہ لطف اندوز ہوتا ہے جن کی دکانیں سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر کھلی ہیں۔ اور خوب چل رہی ہیں جن کی فراغتیں دیکھ کر ساحر لدھیانوی کے اشعار

یہ جشن، یہ ہنگامے، دلچسپ کھلونے ہیں

کچھ لوگوں کی کوشش ہے، کچھ لوگ بہل جائیں

جو وعدہ فردا پہ اب ٹل نہیں سکتے ہیں

ممکن ہے کہ کچھ عرصہ اس جشن پہ ٹل جائیں

یاد آ گئے۔

لیکن درحقیقت لوگوں کا اخلاقی انحطاط دیکھ کر کئی سال پہلے ایک معروف اسکول سسٹم کی پرنسپل سے کیا ہوا اپنا مکالمہ یاد آ گیا۔

جماعت ہفتم کی اسلامیات کی جو کتاب انھوں نے نصاب میں شامل کی تھی وہ ایک مخصوص فرقے کی تعلیمات پر مشتمل تھی اور اس میں کئی اختلافی موضوعات کو چھیڑا گیا تھا۔ ( سچ تو یہ ہے کہ وہ کتاب انھوں نے خود بھی نہیں پڑھی تھی کتاب پڑھنے کی بیماری سب کو لاحق نہیں ہوتی)

راقم نے نشان دہی کی تھی کہ اسکول کی شہرت لبرل ہے اور بچے سوال کرتے ہیں اس سے تو بہتر ہے کہ آپ صوبے کی ٹیکسٹ بورڈ کتاب تجویز کر لیں۔

میڈم نے انتہائی لاپرواہی سے کہا بورڈ کی کتاب میں تو صرف اخلاقیات ہے اسلامیات نہیں!

جو طالب علم مشنری درسگاہوں سے مستفید ہوئے ہیں وہ تو بخوبی واقف ہیں جو عام درسگاہوں کے طلباء ہیں ان کی آ گاہی کے لیے بتانا ضروری ہے کہ مشنری درسگاہوں کے فارم میں ایک خانے میں پوچھا جاتا ہے ”اگر کوئی کمیونٹی سروس کی ہے“

اس خانے کو مسلم والدین خط کھینچ دیتے ہیں کہ یہ خانہ غیر مسلموں کے لیے ہے۔

سوچا جائے تو یہ خط دراصل ہم اپنی اخلاقی اقدار پر کھینچتے ہیں۔ کاش کہ ہم یہ جان سکتے کہ کمیونٹی سروس کی جتنی ضرورت اس اخلاقی بیمار معاشرے کو ہے اتنی کسی اور کو نہیں۔

جب اس قسم کی خرافات سے لطف اٹھایا جائے گا تو پھر معصوم پھولوں کو ریپ کرنے والی سوچ ہی ترویج پائے گی۔ ہم نے اسلامیات تو اپنے لیے رکھ لی اور اخلاقیات غیر مسلموں کو دے دی۔

کیسی ناقدری سی ناقدری ہے اور پھر روتے ہیں کہ معاشرہ بے راہ روی کی طرف جا رہا ہے۔

اپنے ہاتھوں سے اپنی فصل کیسے اجاڑی جاتی ہے کوئی ہم سے سیکھے۔

دنیا کی سب سے حسین اور نفیس زبان اردو کے ہم وارث ہیں اور کیسی رذیل گفتگو ہم ایوانوں میں اور اس کے باہر ہر جگہ ہم ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ ہم فحش گوئی پر خوش ہوتے ہیں جو جتنی زیادہ گھٹیا زبان استعمال کرے گا وہ اتنی ہی زیادہ شہرت حاصل کرے گا۔

بہت تکلیف ہوتی ہے اپنوں کا یہ حشر دیکھ کر!

ایک غم ہو تو بکھر جائے میرے چہرے پر

لاتعداد مصائب کا ضیاع کیسے ہو

تو جناب چیرمین نیب اور ان کی عشاقیوں پر مسلمانوں نے رمضان کے مقدس مہینے میں جیسے لطف کشید کیا ہے کسی شرم، لحاظ کے بغیر اور مزے داری یہ کے کچھ بقراط ذاتی وسرکاری مصروفیات کو علیحدہ خانوں میں تقسیم کرنے پر کمر بستہ ہیں۔ واقعی یہ کافر تو پاگل ہیں جو سیکس فری ممالک ہونے کے باوجود بے چارے کلنٹن کا مواخذہ ہی کر ڈالا صرف اخلاقیات کے نام پر۔

خیر جانے دیں ہمیں کیا جنت میں تو ہم ہی جائیں گے۔

ارے ہاں یہ تو سن لیں میں نے میڈم کو کیا جواب دیاتھا۔

” بچوں کو اسلامیات نہیں اخلاقیات پڑھائیے اس قوم کو اس کی اشد ضرورت ہے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).