ٹریفک حادثات دہشت گردی سے بھی بڑا خطرہ!


پاکستان میں روزانہ روڈ حادثات میں مرنے والوں کی تعداد دہشت گردی میں مرنے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اقتدار کا مزہ لوٹنے والوں کی مجرمانہ خاموشی اور بے حسی کی وجہ سے روزانہ کئی خاندان سڑکوں پر ویران ہو رہے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او (who) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباًتیس ہزار لوگ روڈ حادثات میں اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں۔ موٹروے پولیس کے مطابق گزشتہ برس روڈ ایکسیڈ نٹ میں مرنے والوں کی تعداد 36000 ہزارتھی۔ بڑھتی ہوئی ٹریفک کے ساتھ ہر سال ٹریفک حادثات میں حیران کن حد تک اضافہ ہورہا ہے۔

ٹریفک حادثات میں زیادہ تر نقصان موٹر سائیکل، رکشہ اور چھوٹی گاڑیوں پر سوار لوگوں کا ہوتا ہے اور ان میں سے اکثروہ لوگ ہوتے ہیں جو خاندان کی آمدنی کا واحد ذریعہ ہوتے ہیں یا جن پر پوری فیملی انحصار کر رہی ہوتی ہے۔ لین دین یا کام کے سلسلے میں ا یسے لوگ زیادہ ترسفرپر رہتے ہیں۔ ان لوگوں کے یوں بے وقت چلے جانے سے لواحقین در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ایسے لاوارث خاندانوں کو ان کاآسرا چھیننے والی قاتل حکومت کی طرف سے بھی معاشی مدد نہیں ملتی۔

قمر زمان کائرہ کے جواں سال بیٹے کی موت کے بعد چند صحافیوں نے اس موت کو قتل قرار دیا جو میری رائے میں کہ بالکل درست ہے۔ انہوں نے قاتل ہمارے ملک میں ان مہنگی گاڑیو ں کو تیار کرنے والی کمپنیوں کو ٹھہرایا ہے جو ان گاڑیوں میں حفاظتی ایئر بیگز کا سسٹم نہ لگا کر ان گاڑیوں میں سفر کرنے والوں کی جانوں کے تحفظ کو یقینی نہیں بناتیں۔

انسانی جان کو اہمیت دینے والے ملکوں میں روڈ پر چلنے والی ہر کار میں یہ سسٹم لازمی ہوتا ہے اور اگر ایکسیڈنٹ کی صورت میں ایئر بیگ کام نہ کرے توگاڑی کی متعلقہ کمپنی کے خلاف کیس درج کروا دیا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان میں تیار کردہ اور باہر سے لائی گئی گاڑیوں میں اس حفاظتی سسٹم کے نہ ہونے کے باوجود ان کی فروخت پر ہماری حکومت کی طرف سے پابندی کا عائد نہ کیا جانا حکومت کی نا اہلی اور بے حسی ہے۔ اس نا اہلی کی وجہ سے مرنے والوں کے قتل کی ذمہ داری ڈائریکٹ ہماری حکومت پر آتی ہے۔

مزید براں، ہمارے ہاں مسئلہ اس سے کہیں زیادہ گھمبیر ہے او ر یہ صرف کاروں میں ایسا حفاظتی نظام لگانے سے حل نہیں ہو گا۔ اس سے پہلے ہمیں اپنے ملک میں ہونے والے ٹریفک حادثات کی تمام تر قابل کنٹرول وجوہات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ حادثات ہوں ہی نہیں۔ اس کے بعد ہمیں ایئر بیگ جیسی حفاظتی تدابیر کی بات کرنی چاہیے کیو نکہ موٹر سائیکل، رکشہ یا ہائی ایس میں سوار غریب آدمی کو تو مہنگی گاڑیوں میں لگے ایئر بیگ جان لیوا حادثات سے نہیں بچا پائیں گے۔ اس لئے یہاں پر ہم اس خطرناک مسئلہ کو ہر زاویہ سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

موٹروے پولیس اور حکومت کے مطابق ٹریفک حادثات کی سب سے بڑی وجہ لوگوں کا ٹریفک قوانین کی پیروی نہ کرنا ہے۔ لوگوں کی دوران ڈرائیونگ موبائل فون یا ہینڈفری کے استعمال کرنے، سگنل توڑنے، ون ویلنگ کرنے، غلط سائیڈ سے کراسنگ کرنے، دوران سفر میوز ک سننے اور منشیات یا شراب پی کر ڈرائیونگ کرنے جیسی کوتاہیاں انہیں ٹریفک حادثات سے دو چار کرتی ہیں۔

ہمارے ہاں 80 فیصد لوگ سیٹ بیلٹ باندھنے جیسے بنیادی ٹریفک قوانین کو فالو نہیں کرتے۔ ایسے لوگ ا پنے قاتل خود ہیں جو اپنی لاپرواہی کی وجہ سے موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔

یہاں پر سوال یہ جنم لیتا ہے کہ لوگ ایسی جان لیوا لاپرواہی آخر کیوں کرتے ہیں؟ اس کا جواب جہالت اور ٹریفک قوانین سے لاعلمی ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے عوام کو ٹریفک قوانین سے آگاہی دینے کی ضرورت ہے جس کے لئے ٹریفک قوانین اور ٹریفک حادثات سے بچنے کی احتیاطی تدابیر پر مبنی ایک لازمی مضمون ہمارے اسکولوں اور کالجوں میں پڑھایا جانا چاہیے۔ ڈرائیونگ لائسنس کے لئے اپلائی کرنے والوں کے لئے بھی ایسے مضمون پر مشتمل ایک پیپر پاس کرنے کی شرط ضرور ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ میڈیا اور سوشل میڈیا کمپین کے ذریعے بھی ٹریفک قوانین کی افادیت سے لوگوں کو آ شناکرنے کی ضرورت ہے۔

نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے مطابق اور سپیڈنگ ٹریفک حادثات کی سب سے بڑی وجہ ہے لیکن یہ ادارہ بھول گیا کہ اورسپیڈنگ کی اس لعنت کو کنٹرول کرنا بھی تو اسی کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اور سپیڈنگ اور اوپر بیان کردہ کوتاہیوں کی روک تھام کے لئے قوانین تو موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے ان کو لاگو نہیں کیا جاتا۔ یہاں پر حکومت، موٹر وے اور ٹریفک پولیس اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو قاتل ٹھہرایا جائے گاجو ٹریفک قوانین کو لاگو کرنے میں ہمیشہ ناکام ر ہے ہیں۔

انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے ہمیں ٹریفک قوانین اور سزاؤں کو انتہائی سخت کرنے کی ضرورت ہے۔ مزید براں، ٹریفک اور موٹروے پولیس ان قوانین اور تدابیر کو ہر قیمت پر لاگو کرنے کی پابند ہونی چاہیے۔

موٹروے سے دور اضلاع کے ساتھ ملحقہ زیادہ تر سنگل سڑکیں انتہائی مصروف ہیں جہاں پر ایک ہی سڑک پر ٹریفک ایک دوسرے کی مخالف سمت میں آ اورجا رہی ہوتی ہے۔ یہاں پر معمولی سی غلطی کی وجہ سے آئے روز خطرناک حادثات وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں جن میں کئی معصوم جانیں ضائع ہو جاتیں ہیں۔ اس سے بڑھ کر ظلم کی بات یہ ہے کہ ان خطرناک روڈوں پر بڑی گاڑیاں ہر وقت دندناتی پھر رہی ہیں جو کہ موٹر سائیکل، کار اور چھوٹی ہائی ایسوں پر سوار مسافروں کو چھوٹی سی غلطی پر اپنے نیچے رگڑ دینے کے لئے تیار رہتی ہیں۔

ان حادثات سے انسانی جان جیسی قیمتی چیز کو بچانے کے لئے ان تمام سڑکوں کو ون وے بنانے کی ضرورت ہے۔ ان ون وے سڑکوں پر موٹر سائیکل سواروں، جن کی تعداد سب سے زیادہ ہے، کے لئے ایک علیٰحدہ لائن ہونی چاہیے۔ بڑی گاڑیوں جیسے بائیس ویلر، ٹرکوں اور کوچوں کے روڈ پر چلنے پر پر صبح آفس ٹائم اور شام کے وقت مکمل پابندی ہونی چاہیے تاکہ جب روڈ پر چھوٹی گاڑیوں کا زیادہ رش ہو تو اس وقت ایکسیڈنٹ کے خطرہ کو کم کیا جا سکے۔ ایسے کام کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔

ہمارے حکمرانوں کا یہ المیہ ہے کہ وہ عوام کو بنیادی سہولیات دینے سے قاصر ہیں۔ ہمارے ہاں ریل کا نظام انتہائی سست اور خراب ہے۔ ٹرینیں ہر ضلع کو آپس میں ملاتی ہیں اور نہ ہی ہر وقت دستیاب ہوتی ہیں۔ ایسی صورت حال میں ٹرانسپورٹ کی اس خلا کو سر مایہ دار پرائیویٹ ٹرانسپو ر ٹر ز نے پُر کر رکھا ہے۔

سرمایہ دار طبقہ کے لئے انسانی جان کی نہیں بلکہ صرف اور صرف پیسہ کی اہمیت ہوتی ہے۔ اس لئے یہ زیادہ پیسہ کمانے کے چکر میں اُورلوڈنگ جیسے بنیادی ٹریفک اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں جس سے حادثات رونما ہوتے ہیں۔ با اثر سرمایہ دار ٹرانسپوٹرز اور ان کے عملہ کے لئے قوانین کو توڑنا کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ پاکستان میں قانون کی پہنچ صرف غریب لوگوں تک ہے۔

امیر اور طاقتور ٹرانسپوٹرز ٹریفک قوانین کے رکھوالوں کو منتھلی دے کر قوانین کی خوب دھجیاں اڑانے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔ ٹریفک پولیس والوں کو بھی سارا قانون موٹر سا ئیکل، رکشہ اور ہائی ایس والوں کا چلان کاٹتے وقت یاد آتا ہے جبکہ بڑے ٹرانسپوٹرز کی کوچوں کی دھول تک کے قریب نہیں بھٹکتے۔ ان ٹرانسپو ٹرز کے ڈرائیور بغیر کسی قانونی خو ف اورا حتیاط کے ڈرائیونگ کے دوران لوگوں کو کیڑ ے مکوڑے سمجھ کر رگڑ دیتے ہیں۔ ان کے ڈرائیوروں کو اپنے طاقتور اوربا اثر ٹرانسپوٹر کی مکمل سپورٹ حاصل ہوتی ہے او ر حادثہ کی صورت میں بہترین وکیل بھی مہیا ہوتے ہیں، اس لئے دو تین لوگوں کو پہیوں کے نیچے قتل کرنے سے وہ نہیں گھبراتے۔

کچھ عرصہ بعد وہی ڈرائیور پھر انہیں ٹرانسپوٹر ز کی کسی بس کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ہوتا ہے۔ کیا اس کاڈرائیونگ لائسنس ختم کرنے کے لیے ایک یا دو آدمیوں کی جان کی قربانی کافی نہیں؟ کیا انسانی جان کی قدر کرنیوالے ملکوں میں ایسی لاپرواہی کرنیوالوں کے لائسنس تاحیات منسوخ نہیں ہوتے؟ عام اور غریب آدمی کی جان کا تحفظ کس کی ذمہ داری ہے؟

تیز رفتار اے سی بسوں کے آنے سے بھی ٹریفک حادثات میں ایک واضح تیزی آئی ہے۔ جب یہ بسیں سنگل اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر سپیڈ مارتی ہیں تو اس سے انسانی جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ ان بسوں کی لمبائی، چوڑائی اور سپیڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں صرف موٹروے یا ون وے سڑک پر چلنے کی اجازت ہونی چاہیے یا پھرکم از کم سنگل سڑک یا شہری آبادی میں تو ان کو صرف ایک خاص حد تک سپیڈ کی اجازت ہونی چاہیے۔

انٹر نیشنل ٹریفک اخلاقیات کے مطابق 10 سال سے پرانی گاڑیوں کو ریٹائر کر دینا چاہیے اور ان پرانی گاڑیوں کے روڈ پر چلنے پر مکمل پابندی عائد ہوتی ہے۔ لیکن بد قسمتی سے بیرون ملک سے پرانی گاڑیاں لا کر ہمارے ملک میں استعمال کی جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں پاکستان میں رجسٹر شدہ گاڑیوں میں آدھے سے زیادہ تعداد ان گاڑیوں کی ہے جن کی عمر 30 سال سے بھی زیادہ ہے۔ ایسی پرانی گاڑیاں ایکسیڈنٹ کا موجب بنتی ہیں۔ ایسی انسانی جان کی دشمن مشینری سے جان چھڑانے کے لئے حکومت کو ایک جامع حکمت عملی بنانی چاہیے۔

آخر میں ہم ڈرائیونگ لائسنس کی طرف آتے ہیں۔ ہر مہذ ب ملک میں ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کے لیے ایک انتہائی سخت طریقہ کار سے گزرنا پڑتا ہے، جس سے صرف ڈرائیونگ اور ٹریفک اصولوں میں مہارت رکھنے والے لوگ ہی ڈرائیونگ لائسنس حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں بدقسمتی سے کرپشن اور نا اہلی کی وجہ سے ان لوگوں کو بھی لائسنس مل جاتا ہے جو ڈرائیونگ ٹیسٹ بھی نہیں دیتے۔

اس سلسلے میں گورنمنٹ کی طرف سے پایہ دارادارے نہ ہونے کی وجہ سے نا اہل ترین پرائیویٹ ٹریننگ سنٹرز نے جگہ لے رکھی ہے، جہاں پروفیشنلزم نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ ایسے اداروں کو بند کر کے گورنمنٹ کی طرف سے انتہائی پروفیشنل ٹریننگ سنٹرز کو قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد ڈرائیونگ لائسنس صرف ان لوگوں کو ملنا چاہیے جو ایک سخت ترین میرٹ پر مبنی ڈرائیونگ امتحان پاس کرکے آگے آئیں۔

ہم عوام اور حکمران طبقہ کو اس مریض مائنڈ سیٹ کہ ٹریفک حادثات ایک قدرتی آفت ہیں یا کسی کی موت قدرت کی طرف سے ایسے ہی لکھی تھی کو ترک کر کے اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس خطرناک مسئلہ کو جلد از جلدکنٹرو ل کیا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).