محصور من الملک


میں نے صبح کے اس وقت زندگی میں کچھ نہیں لکھا۔ مجھے نماز فجر کے بعد سو جانا چاہیے تھا مگر پہلی بات تو یہ کہ کمرے میں کوئی جھینگر اپنے پر مل رہا ہے جس سے ایک یکساں چک چک یا ٹک ٹک، جیسا بھی سمجھ لیں، قسم کی آواز نکل کے دماغ میں بج رہی ہے دوسرے ملک میں ایسے ایسے جھینگر اپنی اپنی آوازیں نکال رہے ہیں۔ کہیں وزیر سائنس و ٹکنالوجی فرماتے ہیں کہ وزارت سائنس سے سائنس کا کوئی تعلق نہیں تو کہیں رویت ہلال والے مفتی منیب الرحمن فرماتے ہیں کہ ہم دنیا بھر کی سائنس کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں مگر کاریں، ایرکنڈئشنر، دور حاضر کے مشروبات اور حد تو یہ ہے کہ معروف توپ نما چاند بین جو سب کی سب سائنس کی دین ہیں ان کا استعمال ترک نہیں کریں گے یوں سائنس کے سینے پہ مونگ دلیں گے۔ کہیں ملک میں غداری کی مہر کی آواز کا جھینگر چکچکا رہا ہے تو کہیں ”سرتاپا“ بدن بوس ہونے کی شہنائی بج رہی ہے، ایسے میں یہ اللہ مارا روگی کیسے سوئے؟

جس طرح کسی مذہب کے حامل کو اپنے ہی مذہب کا عالم کہنا یوں غلط ہے کہ اس نے تو سب سے پہلے یہی طے کیا کہ اپنے مذہب کی سربراری کرے گا اور اسے باقی مذاہب پہ فائق ثابت کرے گا، اسی طرح ملک کے اندر رہ کر ملک کے نظام سے سودمند ہونے والے کو آپ تجزیہ کار نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس نے بھی طے کیا ہوتا ہے کہ لکیر کے اس جانب کھڑے ہو کر دلائل و براہین کا طومار باندھنا ہے یا لکیر کے دوسری طرف کھڑے ہو کر اپنی بین بجانی ہے اور وہ بھی بھینسوں کے سامنے، ایسا کیے جانے کو انگریزی زبان میں خنزیر کے سامنے موتی رولنا کہا جاتا ہے۔

مگر ملک سے باہر ایک طویل مدت گذارنے والا جب پھر سے ملک عزیز میں آ کر کسی ذاتی وجہ سے محصور ہو کر رہ جاتا ہے تو وہ صرف ملک میں جاری معاملات کا شاہد ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ بعینہ اس عالم مذاہب کی مانند جو مختلف مذاہب کا مطالعہ کرتا ہے اور اسے نہ کسی مذہب سے کوئی تعصب ہوتا ہے اور نہ کسی مذہب سے عقیدے کی مانند اندھا تعلق چنانچہ وہ مذاہب کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے کسی مذہب کی کمیوں کوتاہیوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے نہیں ہچکچاتا، بلکہ بے لاگ تجزیہ کرنے کے بھی قابل ہوتا ہے۔ میں اسی نوع کا ”محصور من الملک“ ( عربی قواعد معاف شاید فی الملک درست ہو یا کچھ اور ) شخص ہوں جس کی نیند میں کچھ خلل تو سحری کی وجہ سے ہے مگر زیادہ خلل ان نابغہ روزگار افراد کے بیانات کے سبب ہے جو ملک عزیز کی سیاست و سماجیات کی بیخ و بن کے امین بنے ہوئے ہیں۔

لگتا ہے ہر شخص اپنی نفیری بجا رہا ہے اور بے غرض ہو کر کہ اسے نفیری بجانے سے متعلق کوئی تربیت حاصل بھی ہے یا وہ بچے کی طرح عید کے موقع پر دو روپے میں خریدی پیپنی بجا کر خوش ہے کہ اسے لگتا ہے جیسے لوگ اس کی لے سن کر کے مبہوت ہو چکے ہیں جبکہ لوگوں کے منہ ایک بڑی عمر کے شخص کو منہ میں پیپنی اڑسے بجاتے دیکھ کر کھلے کے کھلے رہ گئے ہیں۔

دیکھیے یہ زمانہ بھی آنا تھا کہ دو آنے کی پیپنی کو دو روپے کی لکھنا پڑا بلکہ وہ وقت دور نہیں جب اسے دو سو روپے کا بھی لکھنا پڑ جائے کیونکہ دنیا کے شاطر ترین مالیاتی ادارے سے محض 6 ارب یعنی چھ سو کروڑ ڈالرکا قرض اور وہ بھی 38 ماہ کی اقساط پر یعنی ایک کروڑ چھپن لاکھ ڈالر ماہانہ پر لے کر یہ باور کرانا کہ اس قرض سے ملک کی معیشت مستحکم ہوگی جبکہ درحقیقت ایسا بے مایہ قرض لینے سے ملکی معیشت سراسر متزلزل ہوگی مگر ان نابغہ روزگار لوگوں کو اس سے کیا لینا دینا بس پیپنی ہونی چاہیے چاہے دو سو روپے کی کیوں نہ ہو۔

پہلے پیپنی دو سو ارب ڈالر اگلے ہی روز لا کر قرض دہندگان کے منہ پر دے مارنے کی بجتی تھی اور اب ناک رگڑ کر بنیے سے قرض لیے جانے کے مصداق مٹھی بھر قرض لے کر محل تعمیر کرنے کے دعوے کی پیپنی بجتی ہے۔ پہلے دوسرے ملکوں سے لوگ روزگارکے حصول کی خاطر پاکستان بھاگے چلے آنے کا ذکر تھا، پھر ملک میں تیل و گیس کے ذخائر دریافت ہونے کی نوید اور ساتھ ہی دو ہفتوں میں ملک میں روزگار کی بہتات ہونے کی کہ ملازمت کے خواہاں لوگ کم پڑ جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔

ایسے حالات و معاملات کا تجزیہ ملکی تجزیہ نگار تو کر سکتے ہوں گے مگر ایک محصور من الملک یا فی الملک سارے قرائن کو جھوٹ کے طومار باندھنے اور احمقانہ بیانات دے کے لوگوں کو بے سود باتوں میں الجھائے رکھنے کے جتن کرنے کے سوا کیا کہہ سکتا ہے؟

جھینگر کی چک چک سے نیند غارت ہو سکتی ہے تو ان انسان نما نمایاں جھینگروں کی، کیونکہ حقیقی جھینگر تو کہیں کسی درز میں چھپ کر آپ کے ذین پر زد کرتا ہے، چک چک سے تو انسانوں کی عمریں متاثر ہو رہی ہیں۔ یہ تو غذا کی کمی سے متاثر بچوں کی جسمانی کمزوری اور ذہنی کم مائیگی کو بہتر کرنے کا وعدہ لے کر بر سر اقتدار آئے تھے مگر الٹا لوگوں کی عمریں گھٹانے کا سحر پھونکنے پر مامور ہو گئے ہیں۔

ملک میں رجائیت پسندی کی کوئی رمق نہیں مگر حاکم وقت نے ایک بار پھر دو ماہ کا وقت دے دیا ہے کہ تمام مشکلات رفع ہو جائیں گی۔ لوگ تو مجبور ہیں کہ جائیں تو جائیں کہاں لیکن محصور من الملک یا فی الملک کو لگتا ہے انشاءاللہ آزادی میسر آ جائے گی اور وہ لوٹ جائے گا وہاں جہاں جھینگر ہوتے نہیں اور جہاں کے حکام جھینگر تلف کرنے میں مشاق ہیں مگر کیا کیا جائے دل یہیں لگا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).