جسٹس قاضی فائز عیسیٰ: عدالتی خودمختاری کی آخری امید


سپریم جوڈیشل کونسل نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کریم خان آغا کے خلاف بیرون ملک اثاثے رکھنے کے الزام میں دائرکیے گئے ریفرنس کی سماعت 14 جون کو کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اٹارنی جنرل کو اس حوالے سے معاونت کے لئے طلب کرلیا گیا ہے۔ ان دو ججوں کے خلاف یہ ریفرنس صدر پاکستان عارف علوی نے دو روز پہلے سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوائے تھے، جو ججوں کے خلاف کارروائی کرنے والا واحد مجاز ادارہ ہے۔ اس کی سربراہی ملک کے چیف جسٹس کرتے ہیں۔

اخبارات میں خبر سامنے آنے کے بعد ایک طرف ایڈیشنل اٹارنی جنرل زاہد فخرالدین جی ابراہیم نے اس فیصلہ کو اعلیٰ عدلیہ پر ناروا حملہ قرار دیتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفی ٰ دے دیا تھا تو اس کے ساتھ ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت کو ایک خط ارسال کیا تھا جس میں اس ریفرنس کے بارے میں استفسار کیا گیا تھا۔ انہوں نے اس خط میں صدر عارف علوی سے درخواست کی تھی کہ وہ اس بات کی تصدیق یا تردید کریں کہ کیا ان کے خلاف ریفرنس بھیجا گیا ہے۔ اگر ایسا کیا گیا ہے تو قواعد کے مطابق انہیں اس کی نقل فراہم کی جائے۔ انہوں نے خط میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا تھا کہ طریقہ کار کے برعکس میڈیا کو یہ خبر فراہم کی گئی جو ان کی کردار کشی کے مترادف ہے۔

قیاس کیا جا سکتا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے صدر مملکت کے نام خط کے مندرجات سامنے آنے کے بعد فوری طور سے اس معاملہ میں پیش رفت کی اور ریفرنس کی سماعت کے لئے دو ہفتے بعد کی تاریخ مقرر کردی ہے۔ تاہم سپریم جوڈیشل کونسل نے دو معزز ججوں کے خلاف قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ریفرنس کی خبر میڈیا تک پہنچانے کا نوٹس لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اور نہ ہی صدر پاکستان عارف علوی نے ان نکات کا جواب دیا ہے جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خط میں اٹھائے تھے۔ اس کی بجائے ریفرنس کی سماعت کا اعلان کر کے اس کی تصدیق کر دی گئی ہے اور جلد از جلد ضابطے کی کارروائی کر کے اس معاملہ سے نمٹنے کا عندیہ بھی دیا گیا ہے۔ یہ طریقہ کار اعلیٰ عدلیہ کی خود مختاری اور وقار کے منافی اور انصاف کے اصولوں سے درگزر کرنے کے مترادف ہوگا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو با اصول اور اثر قبول نہ کرنے والا جج سمجھا جاتا ہے۔ وہ اپنے فیصلوں میں بے باکی اور دیانتداری سے رائے دینے اور معاملہ کو اس کے درست تناظر میں سمجھنے اور واضح کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ طاقت ور حلقوں میں ان کے بارے میں ناپسندیدگی کی وجہ لبیک تحریک کے دھرنے کے بارے میں اس سال کے شروع میں دیا جانے والا بے باکانہ فیصلے کو قرار دیا جا رہا ہے۔ اس فیصلہ میں انہوں نے وزارت دفاع کے ذریعے مسلح افواج کے سربراہان کو حکم دیا تھا کہ وہ ان افسروں کے خلاف کارروائی کریں جنہوں نے فیض آباد دھرنے کے دوران اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقدام کیا تھا۔

واضح رہے نومبر 2017 میں دیے جانے والے اس دھرنے کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اسے عسکری حلقوں کی درپردہ حمایت حاصل تھی۔ اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بے بس کرنے کے لئے اس کی سرپرستی کی گئی تھی۔ تین ہفتے تک جاری رہنے والا لبیک تحریک کا یہ دھرنا فوج کی مداخلت پر 27 نومبر 2017 کو حکومت کے ساتھ ہونے والے ایک معاہدہ کے نتیجے میں ختم ہؤا تھا۔ معاہدے کی اس دستاویز پر میجر جنرل فیض حمید کے دستخط بھی ثبت ہیں۔ بعد میں یہی جنرل مظاہرین میں رقوم بانٹنے کے لئے فیض آباد پہنچ گئے تھے۔ اس بارے میں ابھی تک فوج کا واضح مؤقف سامنے نہیں آیا۔

اس حوالے سے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ سال اکتوبر میں اسلام ہائی کورٹ کے سینئر جج شوکت عزیز صدیقی کو خفیہ ایجنسیوں کے عدالتی کارروائی پر اثرانداز ہونے کے بارے میں تقریر کرنے پر ان کے عہدے سے برخواست کردیاتھا۔ انہوں نے بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کے طور پر فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت کی تھی اور دوران سماعت عسکری اداروں کے بارے میں سخت ریمارکس دیے تھے۔

جولائی 2018 میں راولپنڈی بار ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شوکت صدیقی نے کہا تھا کہ آئی ایس آئی کے نمائیندے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے ذریعے مختلف مقدمات میں مرضی کے جج لگوانے کے لئے دباؤ ڈالتے ہیں۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے اس تقریر کے فوری بعد گزشتہ سال جولائی میں ہی شوکت صدیقی کے خلاف ریفرنس کی مختصر سماعت کی اور انہیں عہدے سے برخواست کردیا گیا۔ سپریم جو ڈیشل کونسل کے اس فیصلہ کے خلاف شوکت صدیقی نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی ہوئی ہے لیکن ابھی اس کی باقاعدہ سماعت نہیں ہوئی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali