جمیل نقش سے ایک ملاقات


کراچی اور نوے کی دہائی کے اوائل سے بہت سی یادیں وابستہ ہیں جن کچھ بہت اچھی اور کچھ تلخ یا دیں ہیں، کیوں کہ نوے کے اوائل میں کراچی ایک بہت مشکل دور سے گزر رہا تھا۔ کراچی میں ہر طرف خوف کا عالم ہوا کرتا تھا کیو آن کہ لسانی جھگڑے عروج پر تھے اسنائپر فائرنگ عام تھی۔ رپورٹر کی حیثیت سے روز شام کو ایدھی کی ہیلپ لائن پر فون کیا کرتا تھا کہ آج شہر کی کیا صورتحال ہے، آگے سے جواب ملتا کہ سر آج کا اسکور دس رہا یا بارہ رہا۔ یعنی شہر میں دس یا بارہ افراد موت کی گھاٹ اتار دیے گئے۔

لیکن انہی تلخ یادوں میں جو یاد گار اور ہمیشہ ذہن میں تازہ رہ جانے والی یادیں ہیں ان میں سر فہرست ممتاز مصور جمیل نقش سے ایک طویل ملاقات بھی شامل ہے جو ان کے گھر کراچی کے علاقے بلوچ کالونی میں ہوئے۔ میری ہی ٹی وی کے ساتھی اقبال جمیل جن کے نقش صاحب سگے خالو تھے ایک دن مجھے ان کے گھر لے گئے۔ گھر میں ان کے کمرے میں ہرطرف بڑی بڑی پینٹنگز آویزاں تھیں جن میں کیلیگرافی، فیگیوریٹو آرٹ، پرندوں خاص کر کبوتر۔ اور زندگی کو انہوں نے خوبصورتی سے کینوس پر اتارا ہوا تھا۔

وہ کرتا پاجامہ میں ملبوس جب کمرے میں داخل ہوے تو نیچے زمین پر بیٹھ گئے اور ہم جو کرسیوں پر بیٹھے تھے پریشان تھے کہ اب کیا کریں۔ تو اقبال جمیل نے بتایا کہ پریشانی کی بات نہیں یہ ان کا اصول ہے کہ جو ان سے ملنے آیا وہ زیادہ قابل احترام ہے۔ خیر مجھ سے رہا نہ گیا اور میں بھی ان کے پاس بیٹھ گیا۔ جمیل نقش کے ساتھ ہی پان دان اور اگالدان رکھا تھا جو ان کی نفاست کی عکاسی کررہے تھے۔

گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا تو انہیں نے یو پی بھارت سے اپنی پاکستان آمد سے بات چیت کا آغاز کیا۔ وہ بے سر و سامانی کے عالم میں پاکستان پہنچے جہاں وہ پہلے لاہور پھر راولپنڈی میں سر چھپانے کی کوشش میں ادھر ادھر مارے پھرتے رہے۔ کبھی ایک وقت کا کھانا مل گیا تو کبھی بھوکے پیٹ ہی سڑک پر سو لئے۔ دیواروں پر کوئلے سے تصاویر بنا کر چند سکے جمع کر لیتے تھے جو ان کے گزر اوقات اور ایک دو وقت کھا نے کے لئے کافی ہو جایا کرتے تھے۔

انہوں نے ایک گہری سوچ کے ساتھ اوپر چھت کو تکتے ہوے بتایا کہ وہ بہت مشکل اور کڑا دور تھا لیکن ہمت نہ ہاری۔ جمیل نقش کو پہلے پہلے برش سے رنگوں کا استعمال نہیں آتا تھا وہ صرف کوئلے اور چاک سے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔ لیکن لاہور میں ان کی ملاقات میو اسکول آف آرٹس (موجودہ نیشنل کالج آف آرٹس) کے استاد محمد شریف سے ملاقات ہوئی جنہوں نے انہیں رنگوں اور برش کا استعمال سکھایا۔ اور یوں سکھایا کہ وہ اس فن میں آج ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔

بات چیت کے دوران ان کی بیٹی مونا چائے لے آئیں۔ مونا خود بھی پینٹر آرٹسٹ ہیں۔ چائے پر بات چیت جاری رہی۔ انہوں بتایا کہ روزگار تھا نہیں ملازمت کے دور دور آثار نہ تھے تو انہوں نے ٹرکوں پر پینٹ اور فن کا مظاہر کرکے اپنے کیے دو وقت کی روٹی کمانا شروع کی اور یوں فن اور زندگی کا سفر آگے بڑھتا چلا گیا۔

بچپن سے ہی ماں کی محبت سے محروم جمیل نقش نے گیارہ برس کی عمر سے اپنے فن کا آغاز کیا اور تار کول کوئلے چاک کے بعد رنگوں کے استعمال میں وہ مہارت استعمال کی جو بہت کم فن کاروں کو حاصل ہوئی۔

جسطرح پکاسو فاختہ کو مختلف انداز میں کینوس پر اتارنے میں مہارت رکھتا تھا، اسی طرح جمیل نقش کبوتر کو مختلف انداز میں کینوس پر اتارتے تھے، جسے دیکھ کر عام آدمی بھی فن پارے میں کھو جاتا تھا۔ انہوں نے شکوہ کرتے ہوے کہا کہ میرے پاس بہت بہت بڑے بڑے تاجر، سرکاری افسر اور کاروباری افراد آتے ہیں جنہیں اپنے ڈرائینگ رومز میں پینٹنگز اپنے اسٹیٹس کو ظاہر کرنے کے لئے لگانا ہوتیں ہیں لیکن وہ ایک تو وہ یہ شوق بنا خرچ کیے پورا کرنا چاہتے ہیں دوسرا انہیں فن پارے کی سمجھ بوجھ تک نہیں ہوتی کہ اس پنٹنگ کا مقصد کیا یا اس سے پیغام کیا دیا گیا ہے۔

جمیل نقش مرحوم دوہزار تین میں ملکی اور کراچی کے حالات سے دلبرداشتہ ہو کر لندن چلے گئے جہاں انہوں نے  پابندیوں سے آزاد ماحول میں خوب کام کیا۔ وہ سولہ سترہ گھنٹے اپنے کمرے میں بند کام کرتے تھے۔ ان کی پینٹنگز وہاں بڑی بڑی گیلریوں اور اکشنز کی ذینت بنیں۔ جن میں Sotheby ’s، Chrities‘ s اور Bonhams شامل ہیں۔

ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انہوں نے جدت اپناتے ہوے آخبارات میں چھپی تصاویر کو کینوس پر اتارا جو بہت مشہور ہوئیں۔

لندن میں بیماری سے قبل وہ ایک پینٹنگ پر کام کر رہے تھے کہ انہیں نمونیہ کا اٹیک ہوا، ان کے اہل خانہ کے مطابق ڈاکٹر گھر آکر علاج کر رہا تھا لیکن وہ پینٹنگ کو مکمل کیے بغیر ہسپتال جانے پر تیار نہ تھے۔ ڈاکٹروں نے اہل خانہ سے کہا کہ نمونیہ اتنا بگڑ چکا کہ اب اس کا گھر پر علاج ممکن نہیں۔ ان کی اہلیہ جو کراچی میں تھیں انہوں نے فون پر منت سماجت کر کے انہیں ہسپتال جانے پر آمادہ کیا۔ لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی وہ جانبر نہ ہوسکے اور ہسپتال میں ہی انتقال کر گئے۔ ان کی آخری پینٹگ ادھوری رہ گئی لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ ادھوری پینٹنگ بھی ایک مکمل فن پارہ ہوگا جو کوئی نہ کوئی پیغام دے رہا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).