پشتون تحفظ تحریک اور بقا کے تقاضے


تمام جانداروں میں جبلی طور پر بقا کا جذبہ اپنی تمام تر شدت کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔ ہر جاندار، بشمول انسان، اپنی بقا کے تحفظ کے لئے ہر حد تک جانے کو تیار ہوتا ہے۔ انسانوں کے لئے وجودی بقا کے ساتھ ساتھ نظریاتی بقا، ثقافتی بقا اور تہذیبی بقا بھی اہم ہوتی ہیں لیکن وجودو بقا ان سب پر مقدم ہے۔

یہ بقا کا جذبہ ہی تھا کہ جانوروں نے ٹولیوں اور ریوڑوں میں رہنا سیکھا اور انسان جوڑے، قبیلے اور قوم کی شکل میں ارتقائی عمل سے گزرے۔ قوموں اور قبیلوں نے اپنے لئے علاقے مختص کیے جو آگے چل کر، جغرافیائی حد بندی کے مطابق، ریاست اور ملک کی شکل اختیار کی۔ جس کا مقصد اپنی بقا کا دوام ہی تھا۔

بقا کی یہ خواہش اتنی شدید ہوتی ہے کہ اس کے مقابل آنے والا رشتہ، نظریہ یا قبیلہ بھی ایک دشمن ہی تصور ہوتا ہے پھر نہ رشتے کا پاس رہتا ہے، نہ قبیلے اور نظریے کا اور نہ ہی ریاست کے ساتھ تعلق یا وابستگی غالب آتی ہے۔ بلکہ ناقابل تردید حقیقت تو یہ ہے کہ رشتہ، قبیلہ، نظریہ یا ریاست بھی اگر انسان کی بقا کے حق کو زک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں تو انسان بھی اپنی استعداد اور طاقت کے مطابق اسی شدت سے جواب دیتا ہے۔

اس کی ایک سب سے بڑی مثال بغاوت کی تحریکوں کی ہے۔ ریاستوں کے خلاف چلنے والی غالب باغی تحریکیں باغیوں کے حق بقا کو لاحق خطرات سے شروع ہوئیں۔ ان باغی تحریکوں نے اپنے ہی ملک میں اپنے ہی لوگوں کے خلاف جدوجہد شروع کی جو شدت اختیار کر کے مسلح جدوجہد میں تبدیل ہوئی۔ آج کے جدید دور کے سب سے بڑے حریت پسند اور امن پسند سمجھے جانے والے نیلسن مینڈیلا نے بھی 1961 میں ایک مسلح جدوجہد کی بنیاد رکھی جس میں اور ممالک سے اسلحے اور رقم کی شکل میں امداد بھی مانگی گئی۔

بالکل یہی کچھ ہمارے بلوچستان میں ہوا۔ جب چند قوم پرست بلوچ نوجوانوں نے ریاستی حق تلفی اور محرومی کے خلاف آواز بلند کی جو مختلف مرحلوں سے گزرتی ہوئی مسلح تحریک میں تبدیل ہو گئی۔ ظاہر ہے ایسی تحریکیں مالی امداد کے بغیر وجود کھو دیتی ہیں تو مالی امداد کے مراکز وہی بنتے ہیں جو ریاست کے مخالف ہوتے ہیں۔ اب بھلے یہ مخالف ریاستیں ہوں یا ادارے۔

مہذب ممالک میں محرومی اور استحصال پر مبنی شکایات کے ازالے کے لئے فوری اقدام لئے جاتے ہیں اور کوشش کی جاتی ہے کہ شکایت کو شکوہ میں اور شکوہ کو غصے اور بغاوت میں تبدیل ہونے سے پہلے حل کیا جائے۔ لیکن ہم جیسے ممالک میں جہاں طاقت کو ہی ہر مسئلے کا حل جانا گیا ہو وہاں حل بذات خود ایک نئے مسئلے کو جنم دیتا ہے۔ کوئی بتا سکتا ہے کہ سلمان حیدر اور وقاص گورایہ اور اس جیسے دوسرے بلاگرز اٹھائے جانے کے بعد کتنے محب وطن رہے؟ کیسے ممکن ہے کہ آپ کسی کو مہینوں محبوس رکھیں۔ اس کی تذلیل کریں، اس کے خاندان کو رونے پر مجبور کریں اور امید کریں کہ اس شخص کی اور اس کے خاندان کی وفاداری بدستور سلامت رہے!

وزیرستان سے جنم لینے والی پشتون تحفظ موومنٹ بھی کچھ شکایتوں سے شروع ہوئی لیکن ایک باغی تحریک بننے کے سفر پر ہے۔ اس کے لئے کس کو دوش دیں؟ ہماری مسائل حل کرنے کی قابلیت کو یا طاقت کے زعم کو۔ عین ممکن ہے کہ پشتون تحریک بھی عوامی طاقت کے بعد اسی زعم کا شکار ہو گئی ہو لیکن پھر بھی ریاستی طاقت اور ایک علاقائی تحریک کی طاقت کا کیا جوڑ۔ ریاست کی طاقت کا اظہار طاقت کے استعمال پر نہیں بلکہ اس کو محدود کرنے میں ہے جیسے ہم نے تحریک لبیک کے اسلام آباد کے جلسے میں دیکھا۔

جہاں کھلے عام ریاست کی طاقت اور ریاستی اداروں کی تضحیک کی گئی لیکن اس کے باوجود ریاست نے تحمل کا مظاہرہ کیا۔ تو کیا وجہ ہے کہ ایسا تحمل اور بردبار رویہ ہمیں پشتون تحریک کے معاملے میں نظر نہی آتا۔ خدا کے لئے کسی کے لئے اس کی بقا کا خطرہ نہ بنیں کیونکہ بقا کے خطرے سے نمٹنے کا ردعمل شعوری نہیں بلکہ جبلی ہوتا ہے اور جبلت میں انسان کا رد عمل حیوان سے کچھ مختلف نہی ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).