ادب اور سیاست کے اصطبل میں گھوڑے اور خچر ایک ساتھ


ممتاز مزاح نگار مستنصر حسین تارڑ کو جب ادب کے شعبے میں خصوصی ایوارڈ دیا گیا تو کسی نے ان سے سوال کیا کہ ایوارڈ ملنے پر آپ کے تاثرات کیا ہیں؟۔ جس کے جواب میں خوشی اور فخر کا اظہار کرنے کے بجائے تارڑصاحب نے کہا کہ میں ایسا محسوس کر رہا ہوں کہ جیسے عربی نسل کے گھوڑے اور خچر ایک ہی اصطبل میں ہیں۔ جس سے ان کی مراد یہ تھی کہ ان کے ساتھ ایسے افراد کو بھی وہی ایوارڈز دیے گئے جو ان کے ہرگز مستحق نہیں تھے۔ یعنی جب لائق اور نالائق یا اہل اور نا اہل کو ایک ہی اعزاز اور مقام دیا جائے تو پھر جو لائق ہوگا وہ تو مایوس ہی ہوگا اور جو نالائق ہوگا وہ فخر اور خوشی سے پھولے نہیں سمائے گا۔

اس طرح کی نا انصافیاں صرف ادب میں ہی نہیں بلکہ بدقسمتی سے ہمارے یہاں تمام شعبوں میں ایسا ہی ہے۔ یہاں پر اہلیت اور قابلیت اور کارکردگی سے زیادہ سفارش اور تعلقات کا عمل دخل ہوتا ہے۔ ادب یا شاعری میں ایسے ایسے افراد کو بھی ایوارڈز سے نوازا جاتا ہے جس سے ایوارڈز کو بھی ایسے ہاتھوں میں جاتے ہوئے شرمندگی محسوس ہوتی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ کئی ایسے ادیب اور شاعر ہیں جنہوں نے ایوارڈز لینے سے انکار کیا اور مشاعروں میں جانا چھوڑ دیا۔ ایوارڈ لینے سے انکار کرنے والوں میں ضمیر جعفری اور الطاف فاطمہ شامل ہیں۔ گوکہ مشاعروں میں اچھی شاعری پر عام سامعین دل کھول کر داد دیا کرتے ہیں لیکن خود شاعروں اور شاعرات کی اکثریت اپنی ذاتی پسند نا پسند اور تعلقات کی بنیاد پر داد دیتی یا خاموش رہتی ہے۔ آج کل تو ادیب اور شاعر بننا اور پھر صاحبِ دیوان بننا ماضی کی نسبت بہت آسان ہو گیا ہے۔ جس کے پاس دولت ہے وہ اپنی دولت کے بل بوتے پر اپنی شاعری یا کوئی بھی ادبی تصنیف شایع کر لیتا ہے اور اس کی شاندار تقریب رونمائی کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے جن شخصیات کو اظہار خیال کے لئے نامزد کیا جاتا ہے تو وہ صاحب دیوان یا صاحبِ تصنیف کی تعریف ہی کریں گے۔

ملکی یا قومی سطح پر ایسے ادیبوں کی خاصی تعداد ہے جن کا ادبی کام یا ان کی تصانیف تاریخی اہمیت کی حامل ہیں مگر بلوچستان میں ایسے ادیبوں کی تعداد 2 یا 3 سے زیادہ نہیں ہے۔ اس وقت بلوچستان میں ڈاکٹر شاہ محمد مری سید خورشید احمد افروز اور اثیر عبدالقادر شاہوانی ایسے لکھاری ہیں جن کی تحقیق اور تخلیقات کی بدولت بلوچستان ادبی ثقافتی اور تاریخ کے حوالے سے قابلِ ذکر پوزیشن میں ہے۔ ان میں سے سید خورشید افروز اردو کے بہترین شاعر بھی ہیں اثیر عبدالقادر شاہوانی بلوچی اور براہوئی میں شاعری کرتے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر شاہ محمد مری سید خورشید افروز اور اثیر شاہوانی کی شناخت اور پہچان تحقیق کے حوالے سے زیادہ ہے۔ سید خورشید افروز نے ”مشاہیرِ بلوچستان“ کے نام سے 5 جلدوں پر مشتمل کتاب شایع کر کے بلوچستان کے اردو ادب میں ایک تاریخ رقم کی ہے۔ جس میں بلوچستان کے اردو مرد و خواتین ادبا اور شعرا کا تعارف اور ان کی منتخب شاعری کے نمونے شامل کیے گئے ہیں۔ یہ ایک طویل اور تھکا دینے والا تحقیقی کام ہے جو انہوں نے بڑی ہمت اور حوصلے کے ساتھ 4 / 3 برس میں مکمل کیا ہے۔ جس کے لئے وہ نہ صرف بھرپور تحسین کے لائق ہیں بلکہ بہت بڑے ادبی ایوارڈ کے بھی مستحق ہیں۔ لیکن بات پھر وہی اصطبل میں گھوڑوں اور خچروں کے ایک ساتھ ہونے کی آ جاتی ہے۔

کسی بھی شعبے میں جب ایوارڈز کی تقسیم ہوتی ہے تو ایسے ایسے نام اور چہرے سامنے آ جاتے ہیں جن کو دیکھ کر آدمی دنگ رہ جاتا ہے اور پھر مستنصر حسین تارڑ کا کہا ہوا وہ تاریخی جملہ یاد آجاتا ہے کہ اصطبل میں گھوڑے اور خچر ایک ساتھ ہیں۔ بعض اوقات تقسیم ایوارڈز میں اس فراخدلی سے کام لیا جاتا ہے کہ گھوڑوں سے زیادہ خچروں کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اصطبل میں گھوڑوں کے ساتھ خچروں کے داخل ہونے کا طریقہ واردات بھی بڑا دلچسپ ہوتا ہے۔ خچر موصوف اپنے تعلقات کو بھرپور طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔ کوئی وزیر صاحب سے تو کوئی مشیر سے اور کوئی سیکریٹری صاحب سے تو کوئی کمشنر اور ڈپٹی کمشنر صاحب کے ذریعے اپنے داخلہ کو ممکن بنا لیتا ہے۔ اور جب ایوارڈز کی تقسیم شروع ہوتی ہے تو یہ بدنصیب گھوڑے خوش نصیب خچروں کو اپنے ساتھ پا کر اپنی قسمت پہ رونا شروع کر دیتے ہیں کہ جب بغیر کسی محنت اور خوبی کے خچر گھوڑوں کی فہرست میں شامل ہوجاتے ہیں تو پھر گھوڑوں کی محنت و مشقت تحقیق اور اصیل ہونے کا کیا فائدہ۔

ادیبوں کے لئے نامزدگی سے لے کر ایوارڈز کی فراہمی کی ایک جھلک تو یہی ہے جو ہم نے بیان کیا ہے لیکن سیاست کے میدان میں گھوڑوں کے ساتھ خچروں کی تعداد میں پریشان کن حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ سیاست میں گھوڑوں کی اکثریت 198۔ کی دہائی سے موجود ہے۔ جن کو پہلی بار چھانگا مانگا کی اجتماعی سیر و تفریح کرائی گئی تھی۔ ان کے ریٹ میں بھی بہت بڑا اضافہ ہو گیا تھا۔ سیاست میں شریف اور شرفا کے یہ عروج کی یہ ابتدا تھی۔ یہاں سے پاکستانی پارلیمنٹرنز کو باضابطہ طور پر گھوڑوں کے خطاب سے نوازا گیا۔ اور ان کی باقاعدہ خرید و فروخت بھی شروع ہو گئی تھی۔ اس عمل کو ”ہارس ٹریڈنگ“ کا نام دیا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے گھوڑوں کی خرید و فروخت یعنی ہارس ٹریڈنگ نے انتہائی منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کر لی۔ گھوڑوں کے اس منافع بخش کاروبار کو دیکھ کر خچروں نے بھی اس میدان کا رخ کر لیا۔ گھوڑوں کے تاجروں نے خچروں کو نہ صرف خوش آمدید کہا بلکہ ان کو ہاتھوں ہاتھ لے لیا۔ اب دونوں کا فائدہ ہونے لگا کیوں کہ مارکیٹ میں پہلے سے موجود گھوڑوں کے نخرے بڑھ گئے تھے جس کی وجہ سے ان کے ریٹ میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ اس تناظر میں تاجر حضرات نے خچروں کی کم قیمت میں خریداری شروع کر دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہرطرف خچر ہی خچر ماحول پر چھا گئے۔ ایسی صورت میں گھوڑوں نے اپنی بقا کے لئے جدجہد شروع کر دی لیکن تاجر حضرات اتنا غصے میں تھے کہ انہوں نے گھوڑوں پر ہرطرح کی سختی شروع کر دی۔ گھوڑوں کی جگہ پر خچروں کو نوازنے کا عمل شروع کیا گیا۔ پورا جنگل ان کے حوالے کر دیا گیا۔ خچروں نے خود کو گھوڑوں سے بھی آگے کی چیز سمجھ رکھا تھا اس لئے انہوں نے بڑی بڑی چھلانگیں لگانے کی مشق سخن شروع کر دی۔ انہوں نے اپنا نیا منشور بنا کر پیش کیا۔ لیکن اپنے منشور پر عمل کرنے کے بجائے وہ دلدل میں دھنسنے لگے اور تاجر برادری کی طرف مدد کے لئے رحم طلب نظروں سے دیکھنے لگے۔

گھوڑوں کی پسپائی اور خچروں کی ناکامی سے جنگل کے ماحول میں پریشانی اور غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہو چکی ہے جس سے اب تاجر بھی پریشان دکھائی دینے لگے ہیں۔ لگتا ہے کہ تاجر اب کوئی درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں کیوں کہ گھوڑے اور خچر دونوں تاجروں کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکے ہیں۔ ماحول کی بقا اور ترقی کے لئے تاجر برادری بڑی سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جنگل میں اداس اور پریشان حال مخلوقات کی فلاح و بہبود اور ان کو مشکلات سے نکالنے کے لئے کوئی بہتر فارمولا استعمال کیا جاتا ہے یا یونہی سب کچھ ناتجربہ کار خچروں کی صوابدید پر ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).