زلیخا بی بی کے 45 برس اور سجدوں کی ایک رات


اگر احمد ذرا مختلف نہیں ہوتا تو شاید وہ بھی اپنے باپ کے گھر چلی جاتی۔ احمد کو اس سے پیار تھا، محبت تھی، اس نے اسے اپنے آپ سے جدا نہیں ہونے دیا۔ وہ اسی گھر میں رہی چھپی چھپی، دبکی دبکی، بجھی بجھی مگرگھر چھوڑ کے نہیں گئی بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اسے گھر سے نکالا نہیں گیا۔ اسے اس کے میکے نہیں بھیجا گیا دوسری ان عورتوں کی طرح جن پر الزامات لگے کہ ان پر کسی بھوت پریت کا سایہ ہے۔ وہ نجس ہیں۔ وہ منہوس ہیں اور اوپر والا ان سے ناراض ہے یہی وجہ ہے کہ انہیں یہ سزا دی گئی ہے کہ وہ پاک بھی نہیں رہتیں۔

اس نے اپنے آپ کو مصروف کرلیا۔ صبح سے شام تک کام کرتی۔ جانوروں کے سارے کام۔ گائے بکریوں کو چرانا، ان کے چارے کا بندوبست کرنا، انہیں کھلانا ان کا دودھ د وہنا۔ وہ ان کے درمیان رہ کر خوش رہتی تھی جانور اس کے جسم کی بدبو سے نالاں نہیں ہوتے تھے۔ جانوروں سے اس کا کوئی مسئلہ نہیں تھا مسئلہ اس کا صرف انسانوں سے تھا جو اس کے جسم کی بدبو برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ جانور اسے دیکھ کر خوش ہوتے تھے، پیار سے اسے چاٹتے تھے اس کے اشاروں پر کھیلتے، اس کے اشاروں پر چلتے۔ انسانوں کی طرح ان کے ذہنوں، چہروں پر اس کے لئے نفرت نہیں تھی۔ اسے پتہ تھا کہ جب انسان اسے دکھی کریں تو اسے کہاں بیٹھ کر رونا ہے۔ کس سے اپنی کہانی کہنی ہے، کہاں دکھ بانٹنا ہے۔

جب مہینے سالوں میں بدل گئے اور اس نے اڑتے پڑتے خبر سنی کہ اس کی ساس احمد کے لیے دوسری لڑکی تلاش کر رہی ہے کیونکہ زلیخا بی بی کے بچے تو نہیں ہوسکتے تھے۔ جانتے بوجھتے سمجھتے ہوئے بھی وہ سُن سی ہوگئی مگر بہت جلد اس نے اپنے آپ پر قابو پالیا اس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ بھاگے گی نہیں وہ خود کشی نہیں کرے گی۔ وہ اپنے ماں باپ کے گھر نہیں جائے گی وہ ساس کے خلاف نہیں ہوگی۔ وہ احمد کے راستے پر نہیں حائل ہوگی۔ اسے احمد سے پیار تھا اور احمد کے بچے تو ہونے چاہیے۔

اس نے خود بھی احمد کے لئے دلہن کی تلاش شروع کی تھی اور اپنے ہاتھوں سے احمد کو دولہا بناکر بارات کے ساتھ اپنی سوتن کو لانے بھیجا تھا۔ احمد کی دوسری بیوی بھی آگئی۔ اس سے احمد کے بچے بھی ہوئے۔ گھر میں وہ رونق اُمڈ آئی جو بچوں کے ہونے سے آتی ہے، اسے خوشی تھی کہ اس کے احمد کے گھر میں خوشی کے شادیانے بجے تھے سالوں بعد۔ سوکن تھی تو کیا ہوا۔ وہ احمد کے بچوں کی ماں بھی تو تھی۔

عجیب بات یہ ہوئی کہ احمد کی شادی اور بچوں کے ساتھ زلیخا بی بی نے آہستہ آہستہ گاؤں کے چھوٹی سی برادری میں سماج میں پھر سے اپنا مقام پیدا کرلیا۔ پیشاب بہنے سے بچنے کے لئے وہ ڈھیر سارا کپڑا باندھ کررکھتی۔ کم از کم پانی پیتی اور تھوڑے تھوڑے وقفے سے پیشاب سے تر کپڑوں کو بدلتی رہتی۔ بدبو روکنے کے لئے عطر کا استعمال کرتی۔ عطر کی خوشبو میں پیشاب کی بدبو چھپی رہتی۔ زندہ رہنے کے لئے اس نے اپنے طریقے ایجاد کرلئے تھے۔

کوشش اس کی یہ ہوتی کہ گھر کے باہر کھیت کھلیان اور جانوروں کے ساتھ کام میں لگی رہے۔ یہی اس کی زندگی تھی اسی زندگی میں اس نے مسکرامسکرا کر جینا سیکھ لیا تھا۔ لیکن اس کے دل کے اندر بہت اندر ایک زخم تھا جو اس کے جسم کے زخم سے بڑا تھا اس سے زیادہ گہرا جس نے اس کی روح کو چھلنی چھلنی کردیا تھا۔ اسے سب سے زیادہ غم ہی اس بات کا تھا کہ وہ نماز نہیں پڑھ سکتی تھی نہ جانے کس گناہ کی سزا دی تھی اوپر والے نے۔ اکیلے میں وہ سوچ سوچ کر پریشان ہوہوکر الجھتی رہتی مگر جواب نہیں تھا کسی کے پاس۔

اسی طرح سے پینتالیس سال گزر گئے تھے وہ لڑکی سے عورت اور عورت سے بوڑھی اماں بن گئی۔ ایک دن احمد یہ خبر لے کر آیا تھا کہ پشاور میں کوئی گورا ڈاکٹر اس بیماری کا آپریشن کرتا ہے وہ فوراً ہی پشاور جانے کو تیار ہوگئی تھی۔ ڈاکٹر ولیم نے اسے دیکھ کر کہا تھا کہ یہ تو بہت چھوٹا سا سوراخ ہے جو بچے کا سر پھنسنے کی وجہ سے پیشاب کی تھیلی میں ہوگیا ہے۔ اس کا علاج ممکن ہے۔ وہ ضرور صحیح ہوجائے گی۔ آدھے ایک گھنٹے کا آپریشن ہوگا اور پندرہ دن کے بعد جب پیشاب کی نلکی نکلے گی تو وہ صحیح ہوگی۔

پھر یہی ہوا تھا آپریشن اور آپریشن کے بعدپندرہ دن وارڈ میں پیشاب کی تھیلی کے ساتھ رہی تھی جہاں جسم سے پیشاب کا اخراج بند ہوگیا تھا۔ چودہ دنوں کے بعد جب پیشاب کی نلکی نکلی تھی تو پینتالیس سالوں میں پہلی دفعہ وہ پاک تھی نماز پڑھنے کے قابل۔

پشاور کے سرکاری ہسپتال سے نکلتے وقت اسے نئے کپڑوں کاجوڑا دیا گیا جسے پہن کر وہ وہاں سے نکلی تھی اور جب احمد کے ساتھ اپنے گاؤں میں داخل ہوئی تو اس کا دل یہی چاہا تھا کہ کاش ڈاکٹر ولیم آجاتا پینتالیس سال پہلے آجاتا۔ سوات کی دھرتی پر نہ جانے کتنی عورتیں اُس کی طرح پیشاب میں زندگی گزار رہی ہیں۔ کاش وہ سب اس کی طرح صحیح ہوجاتیں۔ وہ رات سجدوں کی رات تھی، شکر کی رات۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2