لار و بار، یو پاکستان


بعض حلقوں میں کہا جا رہا ہے کہ پی ٹی ایم تحریک طالبان پاکستان کا سیاسی ونگ ہے۔ جبکہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس گروہ کو اے این پی کا عسکری جتھا کہنا زیادہ قرین قیاس ہے۔

افغانستان تاریخی طور پر حملہ آور لشکروں کی آماجگاہ رہا ہے۔ مختلف ادوار میں افغانستان سے سکندر اعظم، موریا، عرب، منگول اور ترک لشکر گزرے، ٹھہرے اور قابض رہے۔ فاتح اقوام دریائے سندھ اور پھر اس کے پار لاہور سے دہلی اور اس سے آگے پھیلے اور آباد ہوتی چلی گئیں۔ اس دور میں اگرچہ سلطنتوں کی حدود کو شہری مراکز سے پہچانا جاتا تھا، افغانستان کی حد پشاور سے آگے دریائے سندھ تک پھیلی ہوئی بتائی جاتی ہے۔ کچھ عرصہ بعد پنجاب کے سکھ حکمرانوں نے پشاور پر قبضہ کر لیا اور اپنی راجدھانی کی حدود کو موجودہ افغانستان کی سرحد تک لے آئے۔

انیسویں صدی میں انگریزوں نے پشاور کو سکھوں سے چھین لیا اور افغان جتھوں کے پشاور پر حملوں کے سدباب کے لئے راولپنڈی میں ایک بڑی چھاؤنی قائم کر دی۔ کچھ عرصہ بعد بلوچستان کے پختون علاقے بھی انگریزوں کے قبضے میں آ گئے۔ 1893 ء میں ڈیورنڈ لائن کھینچ دی گئی۔ کچھ سال بعد جب افغانستان میں آزاد حکومت قائم ہوئی تو اس نے اٹک اور جہلم تک کے علاقے پر دعوی جتلاتے ہوئے ڈیورنڈ لائن کو مسترد کر دیا۔ اس دوران برطانوی راج کی تمام تر معاشی اور ثقافتی ترقی اور توجہ کا مرکز لاہور، دہلی اور موجودہ ہندوستان کے جنوب میں واقع شہری مراکز تھے۔

شمال مغربی سرحدی صوبہ میں ان کی دلچسپی کا محور بنیادی طور پر ایک ایسی ’بفر زون‘ کا قیام تھا جو کہ افغان حملہ آوروں کو ڈیورنڈ لائن تک محدود رکھے۔ سرحدی صوبے کے اندر قوم پرست پختونوں نے کانگرس کے ساتھ مل کر برصغیر کی آزادی کے لئے بھر پور سیاسی تحریک چلائی۔ انگریزوں کی ہندوستان سے روانگی کے بعد باچا خان کی قیادت میں ان قوم پرستوں کا مطمح نظر دریائے سندھ اور ڈیورنڈ لائن کے بیچ کے خطے کا افغانستان سے انضمام اور آزاد قبائلی علاقوں کو ملا کر ’گریٹر پختونستان‘ کا قیام تھا۔

آزادی کے ہنگام مگر قائد اعظم کی قیادت میں پختونوں نے باچا خان کے نظریات کو مسترد کر تے ہوئے تاریخی ریفرنڈم کے ذریعے مملکت خداداد میں شمولیت کو ترجیح دی۔ بدلے میں تلملائے ہوئے افغان حکمرانوں نے ڈیورنڈ لائن کے ساتھ سا تھ نوزائیدہ مملکت کوبھی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اقوام متحدہ میں افغانستان واحد ملک تھا جس نے پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی۔ پاکستان سے ملحقہ آزاد قبائل پر قبضے کے لئے افغان فوج بھیجی گئی تو قبائلیوں نے اسے مار بھگایا۔ دریائے سندھ اور ڈیورنڈ لائن کے درمیان بسنے والے پختونوں کے علاوہ غیور قبائلیوں نے بھی ”لار او بار، یو افغان“ کا نعرہ مسترد کر دیا۔ چنانچہ باچا خان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ دستور ساز اسمبلی میں کھڑے ہو کر پاکستان کو تسلیم کر لیں۔

آنے والے ستر سالوں میں پاکستان پختونوں اور پختون پاکستان کے رنگ میں رچتے بستے چلے گئے۔ اچھے برے دن اکٹھے نبھائے۔ زندگی کا وہ کون سا شعبہ ہے کہ ہمارے پختونوں نے اس میں اپنا رنگ نہ جمایا ہو۔ اعلیٰ ترین آئینی عہدوں سے لے کر افواج پاکستان کی قیادت، سول بیورو کریسی، صنعت و تجارت، ادب وثقافت، کھیل و سیاست اور دیگرمیدانوں میں کامیابی کے پھریرے لہرائے۔ پاکستان کی حالیہ کابینہ ہی نہیں، پاکستان کی موجودہ کرکٹ ٹیم بھی نصف سے زیادہ پختونوں پر مشتمل ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ پختونستان کا تصور اپنی موت آپ مر گیا، تو باچا خان بھی جلال آباد میں دفن ہو گئے۔

ستر کے عشرے میں افغانستان کے اندر کمیونسٹوں کی حکومت قائم ہوئی تو اے این پی روسی کیمپ میں تھی، جہاں پاکستانی حکومت کو امریکی استعمار کا پٹھو سمجھا جاتا تھا۔ ملک پر روسی افواج کے قبضے کے بعد امریکی قیادت میں افغان جنگ کا آغاز ہوا تو سرخ پوشوں نے جہاد کی بھر پور مخالفت کی، جس کی بنیادی وجہ افغانستان پر مسلط کٹھ پتلی حکومت سے ان کی وابستگی تھی۔ ستمبر 2001 ء میں حالات نے ڈرامائی کروٹ لی تو کل کے اتحادی حریف اور حریف اتحادی بن کر ابھرے۔ مجاہدین دہشت گرد قرار پائے اور امریکی عتاب کا نشانہ ٹھہرے۔

بپھرے ہوئے امریکیوں کے سامنے بند باندھنے کے لئے، پاکستان کو قبائلی علاقوں پر اپنی حاکمیت کے اظہار کے لیے تاریخ میں پہلی بار اپنی فوج ان علاقوں میں بھیجنی پڑی۔ علاقے میں آباد غیر ملکی جنگجوؤں پر ہاتھ ڈالا گیا تو دہشت گردی کا عفریت ملک کے طول و عرض میں پھیل گیا۔ مذہب کے نام پر برپا کی گئی درندگی نے وطن کے شہر، گلیاں، بازار، عبادت گاہیں، ہسپتال اور درسگاہیں تک خون میں نہلادیں۔ ایک وقت ایسا آیا کہ پاکستان کے تمام قبائلی علاقے جنگ کی آگ میں جل رہے تھے۔ بے گناہ قبائلی دو پاٹوں میں پستے رہے۔ گھروں سے بے گھر ہوئے حتیٰ کہ امن قائم ہو جانے کے باوجود کیمپوں میں پڑے، اپنے علاقوں میں آ باد کاری کے منتظر رہے۔ حکومتوں کے پاس کرنے کو اور بہت کام تھے!

دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں اے این پی نے لازوال قربانیاں دیں۔ دیگر سیاسی پارٹیوں کی طرح گو مگو میں رہنے کی بجائے کھل کر ان عناصر سے برات کا اظہار کیا اور شدید نقصان اٹھایا۔ میری رائے میں قبائلی علاقوں میں امن و امان کی بحالی کے بعد اے این پی اور پاکستان آرمی کو فطری اتحادی بن کر ابھرنا چاہیے تھا۔ اے این پی کے شہداء کے لواحقین نے جی ایچ کیو میں منعقدہ تقاریب میں شرکت کی تو بھی دونوں اطراف گرم جوشی کے جذبات دیکھنے کو ملے۔ دونوں کے زخم مشترک تھے۔

اسی دوران، منظوراحمد نامی ایک شخص کی ’محسود تحفظ موومنٹ‘ نامی تنظیم حیران کن طور پر اپنا علاقہ چھوڑ کر سینکڑوں میل دور سوات میں چیک پوسٹوں پر مبینہ نا مناسب سلوک کے خلاف علاقے میں دھرنا دیتی ہے۔ ایک ایسا دھرنا جس میں تمام قبائلی ایجنسیوں کے علاوہ کوئٹہ کے پختون علاقوں سے بھی لوگ شامل ہوتے ہیں کثیر اخراجات کے بغیر ممکن نہیں۔ آنے والے دنوں میں یہ تنظیم ’پختون تحفظ موومنٹ‘ میں بدلتی ہے تو اس کے مطالبات کی فہرست بھی طویل تر ہوتی چلی جاتی ہے۔

نقیب اللہ محسود کی افسوس ناک ہلاکت کے بعد کے واقعات کسی تفصیل کے محتاج نہیں۔ تاہم یہ جاننا ضروری ہے کہ منظور اور اس کے ساتھیوں کی عسکری حکام سے کی گئی ملاقاتوں میں پیش کیے گئے مطالبات پرعملدرآمد کی یقین دہانی کے حصول کے باوجودپیش کیے گئے مطالبات ہر بار باہر آکر بدل کیوں جاتے تھے؟ چیک پوسٹوں پر مبینہ بد سلوکی کو لے کر شروع کی گئی یہ موومنٹ بالآخرمنتخب نمائندوں کی قیادت میں ایک فوجی چیک پوسٹ پرحملہ آور ہونے تک کیسے پہنچی؟

میں اس سارے معاملے میں بین الاقوامی ہاتھ اور ملک کے اندر اپنے مسائل میں گھرے سیاسی مفاد پرستوں اور ایک مخصوص میڈیا ہاؤس کی اس تحریک سے بوجہ دلچسپی کو نظر اندازکرتے ہوئے لال ٹوپی پہننے والے اپنے بھائیوں سے گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ گزشتہ عشروں میں پاکستان کے قبائلی عوام نے بہت دکھ جھیلے ہیں۔ پاک فوج نے مذہبی جنونیت سے لیس سفاک جتھوں سے خونی معرکہ لڑا، اپنے بل بوتے پرجنگ جیتی اور قبائل میں امن قائم کیا۔

مذہب کارڈ کے سامنے ’لارو باریو افغان‘ یا اس سے ملتے جلتے نعروں کی کوئی حیثیت نہیں۔ پاکستان کے پختون صرف پاکستان کے ہیں۔ اسلام آباد میں منعقدہ حالیہ افطار پارٹی میں میاں افتخار صاحب کا بدلہ ہوا لہجہ پژمردہ اے این پی کے اندر ابھرتی طاقت کے احساس کا عکاس تھا۔ تاریخ مگر ہمیں بتاتی ہے کہ زیادہ تر خون ریزیوں کے پیچھے طاقت کے غلط اندازے ہی کار فرما رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).