بیوہ کی مناجات اور یتیم کا تماشا


پاکستانی قوم کے جذبہِ رحم کی اِک دنیا معترف ہے اور اس کا اظہار ہر سطح پر بارہا ہو چکا ہے۔ اسی جذبہ کو مدنظر رکھتے ہوئے بالخصوص ماہ رمضان میں چیریٹی کے لئے ہاتھ پھیلائے جاتے ہیں۔ جہاں گداگروں کی فوجیں قدم قدم پر ملتی ہیں، وہیں مختلف فلاحی و رفاہی ادارے بھی میدان میں نظر آتے ہیں۔ یہ ادارے یتیموں، مسکینوں اور دیگر مستحقین کے لئے امداد اکٹھی کرکے ان کی زندگی آسان بنانے کے لئے اقدامات کرتے ہیں۔

اس منظرنامے میں تلخ حقیقت یہ ہے کہ بیشتر ادارے حاجت مندوں کی مجبوری کو کیش کروا رہے ہوتے ہیں، جوکہ یقینا ایک نامناسب عمل ہے۔ بالخصوص مختلف فلاحی اداروں کی جانب سے جس طرح یتیم بچوں کو بھری مجالس میں جمع کر کے ان میں امدادی اشیاء تقسیم کی جاتی ہیں، یہ درست نہیں ہے۔ اس وقت پاکستان میں سب سے زیادہ عطیات یتیم کی کفالت کے نام پر جمع ہورہے ہیں۔ اور فلاحی ادارے اس ”قومی رحم دلی“ کا خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔

میں گذشتہ دنوں ایک ادارے کی تقریب میں شریک تھا جس میں انہوں نے مختلف سکولوں کے یتیم بچوں میں عید کی مناسبت سے تحائف تقسیم کرنا تھے۔ اس تقریب میں ایک صوبائی وزیر کو بطور مہمان خصوصی یہ کہہ کر مدعو کیا گیا تھا کہ ان کے ہاتھوں ان یتیم بچوں میں تحائف تقسیم کروائے جائیں گے۔ جب یہ مرحلہ آیا تو انہوں نے منسٹر کو اپنی مینجمنٹ کے ساتھ ایک لائن میں کھڑا کر دیا اور بجائے ان کے ہاتھوں تحائف تقسیم کروانے کے، گروپ وائز، بچوں کے فوٹو سیشن کو ترجیح دی جانے لگی۔ میں نے انتظامیہ کے ایک صاحب سے استفسار کیا تو جواب میں وقت کی قلت کا بہانہ بناتے ہوئے کہا گیا کہ اگر منسٹر کے ہاتھوں ایک ایک بچے کو عیدی اور تحائف دیے جانے لگیں تو یوں بہت ٹائم لگ جائے گا۔

اسی طرح چند روز قبل ایک اور تنظیم نے یتیم بچوں اور ان کی ماؤں کے لئے ایک تقریب سجائی جس میں معززینِ شہر کو مدعو کرکے ان ماؤں میں عید تحائف تقسیم کیے گئے۔ میں یہ نہ سمجھ پایا کہ اگر ایسی ماؤں اور بچوں کا کوئی ڈیٹا موجود تھا تو انہیں گھر گھر یہ تحائف پہنچانے کی بجائے لوگوں کے سامنے ایک جگہ جمع کرکے ا ن کی تشہیر کی کیا ضرورت تھی؟

میں اس بات سے انکاری نہیں کہ یہ فوٹو سیشن این جی اوز کی ”ضرورت“ ہوتی ہیں اور انہوں نے ایسے ہر پروگرام کی تصاویر کو سارا سال ”کیش“ کروانا ہوتا ہے۔ اپنی خدمات دکھا کر، انہی کی بنیاد پر عطیات مانگنے ہوتے ہیں۔ دوسری جانب جن معاون اداروں یا افراد سے انہوں نے عطیہ لیا ہوتا ہے، انہیں بھی ان تصاویر کی صورت میں عطیہ کا مصرف (ثبوت) دکھاتے ہوئے مزید کی تمنا کی جاتی ہے۔ لیکن میرا نکتہ اعتراض تو یہ ہے کہ آپ بھری مجالس میں یتیم بچوں کو سامنے بٹھا کر ان کی کفالت اور سرپرستی کے حوالے سے لمبی لمبی تقاریر جھاڑتے ہیں۔

انہیں دنیا کا سب سے مظلوم طبقہ باور کرواتے ہیں۔ جس طرح نت نئے طریقوں سے ان کی یتیمی کو شہر شہر ”کیش“ کروا کر ڈونیشن مانگتے ہیں، ان کی تصاویر کو اپنے بروشرز اور بیک ڈراپ وغیرہ کی زینت بناتے ہیں، یہ ان معصوموں کی تضحیک کے مترادف ہے۔ کل کو یہ بچے شعوری دور میں داخل ہوں گے، اور اپنے ساتھ ہونے والا یہ تماشا دیکھیں گے تو ان پر کیا بیتے گی؟ کیا انہیں خود سے نفرت نہیں ہونے لگ جائے گی؟ یہ بہت معیوب عمل ہے کہ کسی کو احساس دلایا جائے کہ اس پر ترس کھایاجا رہا ہے۔

اس امر کا اظہار میں نے ایک فورم پر کیا تو ایک دانشور دوست نے جھٹ سے کہا کہ ”انہی کوششوں نے ہزاروں یتیم بچوں کی عزت نفس اور اچھے مستقبل کا اہتمام کیا ہے، آپ کی بات نے سب کے کام کو مٹی کر دیا“۔ میں نے عرض کیا کہ ”مجبوری کو سیل آؤٹ کیے بغیر بیشک یتیم کے لئے مانگیں۔ مگر ان پر یوں احسان مت چڑھائیں۔ انہیں لوگوں کے سامنے پیش کیے بغیر بھی مانگا جا سکتا ہے، بھری مجلس میں (شعور کے حامل) یتیم کے ہاتھ میں کچھ دیتے ہوئے کیا اس کی عزت نفس بحال رہی ہوگی؟ “۔

مقام افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے میں ریاکاری بہت زیادہ ہو چکی ہے۔ ہم نیکی بھی کرتے ہیں تو دکھاوا غالب آتا ہے۔ بلکہ یوں کہیں کہ دکھا کر نیکی کرنا اور کروانا ہمارا اجتماعی مزاج اور کلچر بن چکا ہے۔ گو کہ بعض اوقات اس میں آگاہی کا پہلو بھی پوشیدہ ہوتا ہے، یعنی جب ہم دکھا کر کسی کی مدد کرتے ہیں تو اس سے دوسرے لوگوں کے دل میں بھی جذبہ ترحم پیدا ہوتا ہے اور وہ بھی خیر کے کام میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ یوں خدمت کا علم اٹھانے والے افراد کی حوصلہ افزائی ہوتی اور ان کے مشن کو تقویت ملتی ہے اور مزید مساکین و مستحقین تک رسائی کا دائرہ بڑھتا ہے۔

این جی اوز کا موقف ہے کہ یہ عمل ان کی ضرورت ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ضرورت انہو ں نے خود بنائی ہے، وگرنہ پہلے بھی اس ”تشہیر“ کے بغیر لوگ اداروں پر اعتماد کر کے اپنے عطیات ان کے حوالے کرتے تھے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ کسی کی سفید پوشی سے فائدہ اٹھانا این جی اوز نے اپنی ”مجبوری“ بنا لی ہے، وگرنہ یہ لوگوں (مخیر حضرات) کی ڈیمانڈ نہیں تھی کہ یتیم یا مسکین کو بھری مجالس میں بلایا اور بتایا جائے کہ یہ ہیں وہ بچے، جن کی مخیر حضرات کفالت کر رہے ہیں۔

بدقسمتی سے آج ہمارے فلاحی اداروں کے لئے یتیم ایک پراڈکٹ بن چکے ہیں۔ مسکین ان کے لئے اپنے ادارے کی تشہیر کا ذریعہ ہیں۔ یوں بھری مجلس میں یتیم اور مسکین کو سامنے لانا، ان کی سفید پوشی سے پردہ ہٹانا، ہر لحاظ سے ایک غیر اخلاقی عمل سمجھا جانا چاہیے۔ اس معاشرے میں کوئی تو ایسا ہونا چاہیے جو ان مستحقین کا بھرم رکھے، بجائے اس کے کہ ان کی مجبوری کو بیچنا شروع کر دے۔

اصل حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صاحبِ خیر لوگوں کے اموال میں محروم طبقے کا حق رکھا ہے۔ اور نامساعد حالات کا شکار لوگوں کے لئے اپنے مالوں میں سے حصہ نکال کر ہم ان پر کوئی احسان نہیں کر رہے۔ ان کا یہ حق اللہ تعالیٰ نے ہمارے مالوں میں لکھ دیا ہے اور وہ ہم سے اپنا حق ہی وصول کر رہے ہیں۔ ہمیں تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ ایک ہاتھ سے نیکی کرتے ہوئے دوسرے ہاتھ کو معلوم نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن ہم معاشرے کو ”نیکی کے کاموں کی ترغیب“ کے لئے یہ کام اعلانیہ اور باقاعدہ دکھا کر کرتے ہیں اور اس امر کا بھی خیال نہیں کرتے کہ یوں ہم کسی کی عزت نفس مجروح کرنے کا باعث بھی بن رہے ہوتے ہیں۔

ممکن ہے انہوں نے اپنے ارد گرد اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھا ہو۔ لیکن جب کیمرہ کی آنکھ ان کا امداد لیتے ہوئے منظر محفوظ کر لیتی ہے تو وہ منظر کہیں بھی، کسی کے بھی سامنے آ سکتا ہے اور یوں ان کی سفید پوشی کا بھرم ٹوٹ سکتا ہے۔ وہ تو حالات کے مارے ہوئے لوگ ہیں۔ اپنی ضرورت پوری کرتے کرتے وہ بوجوہ کتنے اداروں اور افراد کی تسکین کا سامان بن رہے ہیں، یہ امر ضرور توجہ طلب ہے۔

ہمیں اسلامی تاریخ میں ایسے کتنے ہی واقعات ملتے ہیں جن میں نبیﷺ اور صحابہ کرام نے دکھائے بغیر کسی کی مدد کو ترجیح دی ہو۔ ہاں، معاشرے کے صاحبِ حیثیت طبقے کو ترغیب دینے کے لئے کچھ اجتماعی اقدامات ضرور کیے جاتے تھے جس سے انہیں آگاہی بھی ملتی اور اس امر پر تیار بھی کیا جاتا کہ وہ ایسے طبقات کی خدمت کے لئے آگے بڑھیں جو وسائل نہیں رکھتے۔ لیکن آج کی طرح بڑے بڑے پیمانے پر غرباء و مساکین اور یتامیٰ کی نمائش کر کے ان کی مدد نہیں کی جاتی تھی۔ تب ان لوگوں کے لئے بیت المال میں سے باقاعدہ وظیفہ مقرر کیا جاتا تھا، مگر آج کے دور میں مجبور و محکوم طبقے کی تعداد جس قدر بڑھ چکی ہے، ایسے میں بیت المال ناکافی ہو چکے ہیں۔ بلاشبہ اس کا حل فلاحی اداروں کی صورت میں سامنے آتا ہے لیکن ذاتی مفادات کے لئے یہ فلاحی ادارے غرباء کا بھرم نہیں رکھ پاتے۔

اس وقت صرف یتامیٰ کے لئے جو ادارے کام کر رہے ہیں، ان میں سے چند ادارے بہت بڑے پیمانے پر اور پُراعتماد طریقے سے خدمت کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بلاشبہ فلاحِ عامہ کے اس مشن میں ان مستند اداروں کا ہر ممکن حد تک ساتھ دینا چاہیے۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ یتامیٰ کی کفالت کا ضرور انتظام کیجئے، ان کے لئے عطیات ضرور اکٹھے کیجئے لیکن خدارا ان کی یوں نمائش مت کریں۔ ہاں جو ڈونر آپ سے تقاضا کرے، اس کے لئے کوئی الگ سے انتظام کیجئے۔

یا پھر اپنی پریذینٹیشن / رپورٹ بنا کر پیش کریں، جس سے آپ کے ادارے کی کریڈیبیلیٹی شو ہو۔ سکسیس سٹوریز سامنے لائیں۔ ڈونرز کے دورہ جات کا اہتمام کیجئے۔ یعنی کچھ ایسا کیجئے کہ ان بچوں کی یتیمی کا بھرم رہے۔ آپ ان کی تضحیک کا سامان نہ کر رہے ہوں۔ ڈونر کی ڈیمانڈ کے بغیر یتامیٰ، مساکین کی تشہیر کرنا اخلاقی کرپشن ہے۔ یہ سلسلہ جس قدر محدود ہو سکے، کیا جانا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).