عدالتی فیصلے کا ایک قابل قبول نمونہ


فیض آباد انٹرچینج اسلام آباد میں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے کوئی دھرنا نہیں دیا تھا۔ کبھی وقوع پزیر نہ ہونے والے اس دھرنے کی وجہ سے اسلام آباد آنے جانے کے راستے بند نہیں ہوئے تھے اور ان راستوں کے بند ہونے کی وجہ سے شہریوں کو بھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی تھی۔

نہ ہونے والے اس دھرنے میں لوگوں کو گالیاں اور دھمکیاں نہیں دی گئیں۔ نفرت انگیز تقاریر بھی نہیں کی گئی تھیں۔ دھرنے کے دوران کروڑوں روپوں کا نقصان بھی نہیں ہوا۔ اس دھرنے کے دوران الیکٹرانک میڈیا نے محبت کا پیغام دینے والے مذہبی شعبدہ بازوں کو خوب پروموٹ نہیں کیا۔ میڈیا نے جو کچھ بھی کیا وہ اس کی اپنی ذمہ داری ہے اس میں کسی بھی ریاستی ادارے کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے اس مملکت خداداد میں نہایت اہم سیاسی سرگرمیوں کو بلیک آؤٹ کرنے میں کسی کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ ملکی مفاد کی حفاظت کی بات البتہ اور ہے۔ اس کا ایک خاص طریقہ بھی ہے۔ میڈیا کو بلا کر اس طریقہ کار سے آگاہ کر دیا جاتا ہے۔ میڈیا مالکان اتنے اچھے ہیں کہ وہ خوشی خوشی ان ہدایات پر ملکی مفادات اور اپنے اشتہارات کے خاطر عمل کرتے ہیں۔

فیض آباد کے نہ ہونے والے دھرنے میں لوگوں کو اگر یہ بات بتائی گئی کہ سیدھا راستہ صرف ہمارا راستہ اور یہ کہ باقی سب بھٹکے ہوئے ہیں تو یہ پاکستان کے لیے کوئی نئی بات بھی نہیں ہے۔ ایسے معاملات کا نوٹس لینا نامناسب تھا۔

پولیس نے کہا کہ فیض آباد میں دھرنا دینے کی اجازت بھی نہیں لی گئی تھی۔ ظاہر ہے پولیس جھوٹ بول رہی ہے۔ اور یہ بھی کہ فیض آباد انٹر چینج کیا کسی کے باپ کا ہے کہ چند ہفتے ٹریفک کے لیے اسے بند رکھنے کے لیے اجازت لی جائے۔

فیض آباد دھرنے میں جو لوگ آئے تھے وہ زیادہ تر غریب نوجوان تھے۔ وہ جو پیسے وغیرہ گھر سے لائے تھے وہ ختم ہو گئے تھے اور اب ان کے پاس واپسی کا کرایہ بھی نہیں تھا۔ ایسے میں جس شخص نے بھی ان کی مدد کی اس نے نیکی کا کام کیا۔ لباس پر مت جائیں۔ ایسے نیک اور دور اندیش صاحب کو تو تمغہ ملنا چاہیے نہ کہ اس کے خلاف محکمانہ کارروائی کا حکم صادر کیا جائے۔ ہم ان الفاظ کو مٹا کر دوبارہ حکم صادر کرتے ہیں کہ ان صاحب کو مزید ترقی دی جائے تاکہ یہ قوم نیک لوگوں سے مزید مستفید ہو سکے۔

فیض آباد کا دھرنا بھی ایسا ہی ایک جھوٹ اور افواہ ہے جیسے 12 مئی کا کراچی والا واقعہ جس میں 52 لاشیں بھی نہیں گرائی گئی تھیں۔ وہ محض لوگوں نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا تھا اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ 12 مئی کو لوگوں نے طاقت کا جو مظاہرہ کیا تھا اس میں کوئی غیر قانونی بات نہیں تھی جبھی تو اس وقت کے صدر پاکستان، جو کہ صدر پاکستان اور کمانڈو ہونے کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت کچھ تھے، نے اس واقعے کی اتنی تعریف کی تھی۔ یہ دونوں واقعات جب ہوئے ہی نہیں تو انہیں بھلا دینا ہی اچھا ہے۔ ورنہ موجودہ صدر صاحب، جو کہ صدر ہونے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہیں، کو ریفرنس لکھنے کی تکلیف کرنا پڑتی ہے۔

میڈیا پر کسی نے بھی کوئی ظاہری یا باطنی قدغن نہیں لگا رکھی۔ میڈیا خود ہی اتنا شریف، فرمانبردار اور نیک ہو گیا ہے کہ اپنے اشتہارات کی آمدنی کو اہمیت دیتا ہے۔ میڈیا مودی سے بھی ڈرتا ہے یا متاثر ہے اور چاہتا ہے کہ مقدس گائے کا احترام کیا جائے تاکہ بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات اچھے ہو سکیں۔ یہ سب نیکی کے کام ہیں اور اس بات کو اتنی ہی اہمیت دی جانی چاہیے جتنی کہ اکثر چیف دیا کرتے تھے۔ اور اسی میں ہر آنے والے چیف کی بھلائی ہے۔ ان اصولوں پر پورا نہ اترنے والے پر اعتبار بھی مشکل ہے اور اس اعتبار کے بغیر اتنی اہم ذمہ داری دینا قومی مفاد کے خلاف ہے۔

اہم ذمہ داریاں تو محنتی اور فرمانبردار اور قابل اعتبار لوگوں ہی کو دی جا سکتی ہیں۔ ماضی قریب ہی کو دیکھ لیں۔ ایک فرمانبردار چیف نے کتنے مزے کیے۔ بس صرف عدالتوں اور انصاف کے لیے تو ان کے پاس وقت ہی نہیں بچتا تھا۔ پھر بھی بغیر کسی ریفرنس کے انہوں نے اپنا وقت بہت خوب گزارا اور اب اصلی چیفوں کی طرح وہ بھی اپنی زندگی آرام سے کینیڈا میں بسر کر رہے ہیں۔ میڈیا کی یاد تو ستاتی ہو گی لیکن میڈیا ریٹائرڈ لوگوں کو تنگ نہیں کرتا۔ اب تو کسی کو ”شکریہ“ بھی یاد نہیں۔ میڈیا کی یاد اصلی چیفوں کو تو اور بھی زیادہ ستاتی ہے۔

اصغر خان کیس کا ذکر نہ دہرایا جائے۔ آئی جے آئی ملک کے مفاد میں بنائی گئی تھی۔ ورنہ بے نظیر ایسے ہی ملک کو بیچ دیتی جیسے فاطمہ جناح کا ارادہ تھا۔ وہ تو بھلا ہو ہمارے الیکشن کے طریقہ کار کا کہ سچے محب وطن ہی جیت سکتے ہیں اور قومی غیرت، دولت اور راز بچ جاتے ہیں۔ اور آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ بیسویں صدی کے راز بھی انیسویں صدی سے زیادہ اہم اور نازک ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا جب امریکی ہیلی کاپٹر اس عربی لونڈے کے پیچھے ایبٹ آباد تک آ گئے تھے، حالانکہ اسامہ وہاں تھا بھی نہیں۔ شکر ہے کہ ساری دنیا ہماری بات پر یقین کرتی ہے ورنہ امریکیوں کی یہ حرکت ہماری ساکھ کو بہت نقصان پہنچا سکتی تھی۔

آخری چند باتیں یہ ہیں کہ 2018 کے الیکشن کو شفاف قرار دینا ہی حق کی بات ہے۔ 2018 کے الیکشن اتنے شفاف تھے کہ ووٹنگ سے پہلے ہی نظر آ رہا تھا کہ کون جیتے گا۔ اور وہی ہوا۔ تو شفافیت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی۔

کسی بھی ججمنٹ سے ہمارے خاص اداروں کے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ وہ لوگ ٹھیک کہتے ہیں کہ وہ اپنے اوتھ کی پاسداری کرتے ہیں اور آئین نہیں توڑتے۔ لاکھوں لوگوں میں سے محض چار لوگوں نے کوئی آدھی درجن مرتبہ آئین توڑا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ جرم کرنے والوں کا تناسب بہت ہی کم ہے۔

فیصلے اس طریقے سے لکھے جائیں گے تو صدر صاحب کا کام نہیں بڑھے گا۔ امید ہے کہ عارف علوی صاحب اسلامی جمعیت طلبہ کے ایک اچھے سابق رکن ہونے کے ناتے اگلے الیکشن کو شفاف بنانے کے لیے قابل اعتبار شخص ڈھونڈ نکالیں گے۔ ایسا شخص جو یہ وعدہ کر سکے کہ صرف انہی لوگوں کو سیلیکٹ، اوہ غلطی معاف، الیکٹ کیا جائے گا جو ملک کی نظریاتی، جذباتی اور مفروضاتی سرحدوں کی بھرپور حفاظت کر سکیں گے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik