پاگل کتے کا کاٹنا اور پیر صاحب کا علاج


اس گاوں میں ایک کتا باولا ہو گیا تھا۔ وہ تیزی سے بھاگ رہا تھا، اور اس کے سامنے جو بھی آرہا تھا، اسے کاٹ رہا تھا۔ اس پاگل نے گائے کے بچھڑے کو کاٹا، ایک بھینس اس کی زد میں آئی اور تین انسان، ان بدنصیبوں میں ایک بچہ بھی شامل تھا۔ لوگ لاٹھیاں لے کر اس کے پیچھے بھاگے، لیکن اس پاگل کی رفتار ان لاٹھی برداروں سے زیادہ تیز تھی۔ بھلا ہو شیر محمند فوجی کا، وہ اپنی بندوق اٹھا لایا تھا، اس کے ایک فائر نے پاگل کتے کا کام تمام کردیا۔

پاگل کتے کا شکار ہونے والے بچھڑے کو اسی وقت قصاب کے حوالے کردیا گیا۔ بھینس کا مالک تزبذب کا شکار تھا۔ مسئلہ صرف بھینس کا نہیں تھا۔ تین بچوں نے اس بھینس کا دودھ پی لیا تھا۔ اس شخص کو اپنے ان تین بچوں کی فکر تھی۔ میں نے اسے سمجھایا کہ پاگل کتا اگر بھینس کو کاٹ لے تو اس کا دودھ پینے سے بیماری نہیں ہوتی۔ تین میں سے دو افراد کو ہسپتال سے ویکسین مہیا کر دی گئی۔ پاگل کتے کے کاٹے کا تیسرا شکار بچہ تھا، اس کے والدین اسے کسی پیر فقیر کے پاس لے گئے، جس نے انہیں دم کی ہوئی مرچیں زخم پر باندھنے کو دے دیں۔ کئی دن وہ بچہ مرچوں والی پٹی باندھ کر پھرتا رہا، اس کا زخم مندمل ہو گیا اور وہ سکول آنے جانے لگا۔

پاگل کتے کے کاٹے سے جو بیماری ہوتی ہے، اسے ریبیز کہتے ہیں۔ پاکستان میں تقریباً دو سے پانچ ہزار افراد اس بیماری کی بھینٹ چڑھتے ہیں۔ ان افراد کی موت یقینی ہوتی ہے، کہ اس بیماری کا علاج ابھی دریافت نہیں ہوا۔ یہ بیماری کتوں کے لعاب دہن میں پائے جانے والے مخصوص وائرس سے ہوتی ہے۔ یہ جراثیم زدہ کتا، کسی انسان کو کاٹے تو اس کے لعاب دہن میں موجود وائرس، زخم کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو کر اس انسان کو ریبیز کی بیماری میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اس لئے اس بیماری سے بچنے کے لئے کتوں کی ویکسنیشن کی جاتی ہے۔ یورپ میں ہر کتے کو لازمی ویکسین کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں انسانوں کی آبادی جس رفتار سے بڑھ رہی ہے، آوارہ کتے اس سے دگنی رفتار سے اپنی آبادی بڑھا رہے ہیں۔ اس رفتار کا تعین ہم انسانوں میں بوجوہ نہیں کرپارہے، کہ ہمارا اپنی آبادی پر ابھی تک اتفاق نہیں ہو پایا۔ آوارہ کتوں کی گنتی کا تو کوئی حساب ہی نہیں۔ ہمارے یہاں پالتو کتوں تک کو ویکسین کرانے کا رواج زور نہیں پکڑ سکا، آورہ کتوں کی کیا بات کریں۔ یہ آوارہ کتے انسانوں کا جینا محال کئیے ہوئے ہیں۔ آئے دن ٹریفک حادثات کا باعث بننے والے کتوں کی لاشیں تک اٹھانے کا کوئی انتظام نہیں۔

گاڑیاں ان کو کچلتی کچلتی ان کی ہڈیاں اور گوشت کو سڑک کی خاک میں ملا دیتی ہیں۔ رات کو کسی سنسان سڑک پر کوئی موٹر سائیکل سوار گزرے تو آوارہ کتوں کا لشکر بھونکتا ہوا اس کے پیچھے بھاگتا ہے۔ وہ ڈر کے مارے رفتار بڑھا دیتا ہے، یہ اور تیزی سے اس کا تعاقب کرتے ہیں، یوں اگر وہ ان کتوں کے کاٹ کھانے سے بچ بھی جائے تو حادثے کا شکار ہو جاتا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال ایک لاکھ سے زائد انسان ڈاگ بائٹ کا شکار ہوتے ہیں، ان میں نصف کے قریب بچے ہوتے ہیں۔ تمام افراد جو ڈاگ بائیٹ کا شکار ہوتے ہیں، ان کو ریبیز (Rabies) کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس لئے ایسے تمام افراد کو اس موذی مرض سے بچاؤ کے ٹیکے لگوانے ضروری ہوتے ہیں۔ دنیا میں اس مرض سے مرنے والوں کی سالانہ تعداد بیس ہزار سے زائد بتائی جاتی ہے۔ اس کی وجہ اس بیماری کے بارے شعور کی کمی ہے۔

دوسرا اہم پہلو حکومتی اداروں کی صحت کے حوالے سے مجرمانہ غفلت ہے۔ پاکستان کا صرف ایک ادارہ این آئی ایچ ہے، وہ سالہا سال سے ایک ویکسین بنا تو رہا ہے لیکن کبھی بھی ضروت کے مطابق کسی ہسپتال کو پوری سپلائی نہیں ملی۔ 2008 میں مجھے (international rabies conference) میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ یہ کانفرنس سنگاپور میں منعقد ہوئی تھی۔ میرے ساتھ ایم ایس وکٹوریہ ہسپتال بہاولپور اور کالج آف کمیونٹی میڈیسن کی ایک پروفیسر بھی تھیں۔ حیرت یہ ہوئی کہ ایران نے کافی حد تک اس بیماری پر قابو پا لیا ہے۔ دوسرا یہ کہ اس بیماری سے بچاؤ کی ویکسین پاکستان اور انڈیا کے لئے کمپنی نو پرافٹ بیس پر بنا رہی ہے۔

تین ماہ بعد اس بچے کو، جسے باولے کتے نے کاٹا تھا اور پیر صاحب نے دم کی ہوئی مرچیں زخم پر بندھوائی تھیں، بخار نے آ لیا۔ اس کو زخم کی جگہ پر شدید خارش ہوتی تھی۔ دو دن کے بعد وہ بچہ عجیب عجیب حرکتیں کرنے لگا۔ وہ ایک دم منہ سے عجیب سی آوازیں نکالتا ہو بھاگ پڑتا تھا۔ اس کو ہسپتال لایا گیا جہاں اس کو ریبیز (rabies) کی تشخیص ہوئی۔ اس کے پٹھے اکڑتے چلے گئے۔ اب اس کے لئے پانی پینا بھی دشوار ہو گیا، بلکہ پانی کو دیکھتے ہی اس کے منہ سے جھاگ سی نکلتی اور اس کے سارے پٹھے اکڑ جاتے۔ تیسرے دن اس کو اکڑاؤ کا اتنا لمبا دورہ پڑا کہ سانس لینا دشوار ہو گیا۔ اس کا منہ نیلا پڑ گیا اور سانس گھٹنے سے اس کی موت واقع ہو گئی۔ میرا دل کر رہا تھا، اس پیر کے خلاف بچے کے قتل کا مقدمہ درج کراؤں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).