سرکاری ہسپتال میں سسکتے بلکتے والدین


احمد اور ثنا کی شادی کو چار سال گزر چکے تھے۔ گو کہ کوئی اتنا کوئی لمبا عرصہ بھی نہیں گزرا تھا لیکن جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں وہاں پر تو شادی کے دو، چار ماہ کے بعد ہی ہر دوسرا ملنے والا اور رشتے دار، ساس سسر سمیت اٹھتے بیٹھتے یہی پوچھتے ہیں کوئی ”خوشخبری“؟

احمد اپنے والد کی آبائی زمین پر کھیتی باڑی کرکے اپنا اور اپنے والدین کا خرچہ بخوبی پورا کر رہا تھا۔ اور بظاہر اب دیکھنے میں ہر طرح کی خوشحالی تھی جیسا کہ ایک درمیانے درجے کے کسان کے گھر میں ہوتی ہے۔

کمی تھی تو صرف اولاد کی۔ احمد کی والدہ ثنا کو ہر قسم کے تعویذ گنڈوں سے لے کر شہر کے مختلف ڈاکٹرز کے پاس بھی لے کر جا چکی تھی۔ احمد اور ثنا کے مکمل چیک اپس کے بعد یہی معلوم ہوا تھا کہ دونوں میاں بیوی میں کوئی نقص نہیں ہے۔ اب بس دونوں میاں بیوی اور ساس سسر اللہ کی رضا پر خوش اور صابر اور شاکر تھے۔

لیکن شادی کے چار سال بعد ہی خدا نے ثنا کی گود ہری ہونے کی امید دلائی۔
احمد سمیت ساس، سسر سب ثنا کے صدقے واری ہو رہے تھے۔

ثنا پورے گھر کے ہاتھ کا چھالا بن کر رہ گئی تھی۔ بنتی بھی کیوں نا۔ اکلوتے بیٹے کی اولاد جو دنیا میں آنے والی تھی۔ خدا خدا کر کے وہ دن آن پہنچا جب نئی زندگی دنیا میں آنے والی تھی۔
احمد اپنی والدہ کو لے کر ثنا کے ساتھ اپنے گاؤں کے قریب ترین شیر ساہیوال کے سرکاری ہسپتال میں پہنچ گیا۔ سب کچھ ٹھیک جا رہا تھا اللہ نے احمد کو چاند سے بیٹے سے نوازا۔

سب بہت خوش تھے لیکن بچے کو کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا ہاسپیٹل کی نرسری میں رکھنا پڑا۔ ثنا تین دن ہاسپیٹل میں رہنے کے بعد گھر چلی گئی تھی لیکن احمد اپنی والدہ کے ساتھ ہاسپیٹل میں ہی تھا۔

عید قریب تھی، رمضان کے آخری دن چل رہے تھے۔ نرسری میں احمد کے بچے کے علاوہ بھی اور بہت سے بچے موجود تھے۔ بلکہ یہ کہنا چائیے کہ گنجائش سے زیادہ بچے نرسری میں موجود تھے۔ احمد اور اس کی والدہ ہسپتال میں ہی نرسری کے باہر ہمہ وقت موجود تھے۔ وہ خوش تھے کہ عید پر انکے گھر میں دو، دو خوشیاں ہوں گی۔ ۔

لیکن وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ ان کی خوشیوں کی مدت بہت تھوڑی ہے۔ نرسری کے اکلوتے چار ٹن کے ائر کنڈیشنر نے اچانک کام کرنا بند کر دیا تھا۔ ایک ہی کمرے میں اتنے سارے ننھے وجود اپنی زندگیوں کے لیے لڑ رہے تھے۔ کمرے کا درجہ حرارت بڑھ جانے کی وجہ سے ننھی جانیں موت کے منہ میں چلی گئیں ایک ایک کر کے۔ احمد کا بیٹا بھی ان بچوں میں شامل تھا جو جان کی بازی ہار گئے تھے۔

اپنی دنیا لٹنے کی فریاد کس سے کرنی ہے احمد سمیت کسی کو بھی نہیں معلوم تھا۔ ہسپتال انتظامیہ، ڈاکٹرز اور حکومتی نمائندے سب اپنی اپنی صفائیاں پیش کرنے میں مصروف تھے لیکن والدین کا ہو نقصان ہو چکا تھا اس کا مداوا شاید ناممکن تھا۔

اسی بارے میں: ساہیوال: سرکاری اسپتال کے چلڈرن وارڈ میں اے سی خراب ہونے سے 5 بچے جاں بحق


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).