ادب اور سماجی تبدیلی


لغوی تشریح کے مطابق ادب کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ اس میں ”آرٹسٹک اہمیت کی حامل تمام تحریریں“ شامل ہیں، جیسے فکشن، شاعری، ڈرامہ اور تنقید۔ ایک اور تعریف کے مطابق کسی ثقافت، زبان، معاشرے یا دور میں لکھی گئی تمام تحریریں ادب ہیں۔ میں یہاں اپنے مقصد کے لیے اس دائرے کو تھوڑا محدود کر کے صرف ناول، افسانے اور شاعری پر بات کروں گی۔ میں ادب کے کردار بطور محرک اور بطور نظریاتی اساس کے بارے میں متشکک ہوں اور نہیں سمجھتی کہ ادب کسی بھی دور میں کسی بھی چھوٹی یا بڑی اصلاحی یا سیاسی تحریک یا انقلاب کا محرک ثابت ہوا۔ البتہ اس نے پہلے سے موجود سیاسی و سماجی تبدیلیوں اور طبقاتی جنگ میں معاونت ضرور کی یا ان تبدیلیوں کے ہم رکاب رہا۔ ادب اور مجموعی سماجی حالات کو ایک دوسرے سے الگ کر کے دیکھنا بھی شاید درست نہ ہو گا۔ سعادت حسن منٹو نے کہا، ”مگر ادب لاش نہیں، جسے ڈاکٹر اور اس کے چند شاگرد پتھر کی میز پر لٹا کر پوسٹ مارٹم شروع کر دیں۔ ادب بیمار نہیں، بیماری کا ردعمل ہے۔ ادب دوا بھی نہیں جس کے استعمال کے لیے اوقات اور مقدار کی پابندی عائد کی جاتی ہے۔ ادب درجۂ حرارت ہے اپنے ملک، اپنی قوم کا۔ وہ اس کی صحت اور علالت کی خبر دیتا ہے۔ “ (کسوٹی)

٭٭٭

اگر ہم ادب کو خود کو جاننے اور سمجھنے کی ایک کوشش مان لیں تو آج الیکٹرانک میڈیا کی مدد کے بغیر اس کا براہ راست یا فوری نتیجہ دکھائی نہیں دیتا۔ ادب پشت در پشت قوموں اور انسانوں کی تشکیل کیا کرتا ہے، جبکہ اس کے برعکس ایک فلم یا کارٹون چند دنوں میں ہی پوری قوم کے مزاج پر گہرے اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔ کامیو نے ایک جگہ پر کہا تھا: ”میرا خیال ہے کہ میرا کردار دنیا اور انسان کو بدلنا نہیں۔ نہ ہی میرے پاس اتنی خوبیاں اور نہ ہی اتنی بصیرت ہے، لیکن میں اپنی جگہ پر ان چند اقدار کے لیے ڈٹا رہوں جن کے بغیر ایک بدلی ہوئی دنیا رہنے کے قابل نہ ہو گی اور اگر نیا انسان پیدا ہو بھی گیا تو محترم نہیں ٹھہرے گا۔ “

لیکن ایک نئی دنیا کا تصور کرنا تو درکنار ہم اپنے اور دوسرے انسانوں کے رشتے پر بھی بات کرنے کے قابل نہیں رہے اور محض اپنے باطن، داخلی ذات، وجدانی کیفیات (جن کا سماج سے کوئی تعلق نہیں بنایا جاتا) وغیرہ کو سمجھنے کے در پے ہیں۔ ہم، بالخصوص شاعری میں، بہت مہیب سوالات اٹھانے کے عادی ہو گئے ہیں۔ زندگی، وجود، ہستی، کربِ تنہائی، ذات کا بوجھ، الوہی تنہائی، وغیرہ۔ ہمارے پسندیدہ ادبی موضوعات یہی بن گئے ہیں۔ انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے نصف اول کا عالمی ادب دیکھنے پر ہمیں چھوٹے چھوٹے مسائل اور کیفیات پر شاعری اور کہانیاں ملتی ہیں۔ آپ ناولوں اور افسانوں کے نام ہی دیکھ لیں۔ آننا کارینینا، نیکلیس، کرامازوف برادران، کالی شلوار، دھواں، لحاف، موبی ڈک، ماں، جرم و سزا، کلرک کی موت۔ ایسے ہی بے شمار ناولوں اور کہانیوں میں انسانی سماجی فطرت کے مختلف اور نہایت بنیادی موضوعات کو اپنایا گیا، نہ کہ پوری زندگی کو سردست بیان کرنے کی کوشش کی گئی۔ اگر ایسا ہوا بھی تو جزو سے کل کی طرف جاتے ہوئے، نہ کہ اس کے برعکس۔ میلان کنڈیرا کا ”Unbearable Lightness of Being“ جیسی چیزیں بہت کم عرصہ پہلے کی اور اپنے معاشرے کے حالات سے متعلق ہیں۔

آئن سٹائن کے دماغ پر تحقیق کرنے والوں کے مطابق اس کے دماغ کا سوچ بچار کرنے والا حصہ (پیشانی کی بائیں طرف) عام لوگوں کے دماغ کی نسبت ”بڑا“ تھا۔ بڑا سے ان کی مراد یہ ہے کہ اس کے دماغ کے اس حصے کی سلوٹیں کم گہری ہو گئی تھیں۔ ایک مرتبہ آئن سٹائن سے پوچھا گیا تھا کہ وہ اتنے بڑے مسائل اتنی جلدی سے اور درست طور پر کیسے حل کر لیتا ہے؟ اس نے جواب دیا تھا کہ ”میں بہت چھوٹے چھوٹے سوال اٹھاتا اور پھر اپنی ساری توجہ اور ساری توانائی اس کا جواب ڈھونڈنے میں لگا دیتا ہوں۔ “

یقیناً ہم ذرے کی ماہیئت اور ساخت دریافت کر کے ہی کائنات کے مادے کی ساخت پر غور کرنے کے قابل ہوں گے۔ انسانی جذبے سے شناسائی حاصل کیے بغیر آپ طبقاتی جدوجہد یا کسی مذہبی انقلاب کی بات صرف اس بھونڈے انداز میں کر سکتے ہیں جیسے ہمارے ہاں آج کل ہو رہی ہے۔ ہم سب کچھ۔ تاریخ، جذبہ، طبقاتی جدوجہد، مشرق اور مغرب کی جنگ۔ ایک ہی ہلے میں بیان کر دینے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ہم چیزوں کی بنیادی میکانیت (جو فلسفہ اور سائنس سمجھاتے ہیں ) پر غور کیے بغیر ایک کامل تبصرہ کرنا ہی اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ المختصر، ہمارے ادب میں ”تجربے“ کا فقدان ہے۔ اس کی وجہ غالباً ہماری مذہبی روایتی بھی ہے جس میں ہر پہلو سے ایک کامل نمونہ اور رہنمائی پہلے سے موجود ہے۔ ہم نے باہر سے بند کیے جانے پر اندر سے چٹخنی چڑھا کر سب کو باہر بند کر دیا ہے اور اسی ”بند“ کائنات کو دہراتے رہے۔ ہمیں محض اپنے داخلی تجربات کا راگ الاپنے میں مسرت ملتی ہے۔ جبکہ ادب کا کردار دوسروں کے ساتھ اپنے تعلق کی تفہیم بھی ہوتا ہے۔ دوسروں سے تعلق منقطع کر کے ہم اپنی تفہیم نہیں کر سکے ہیں اور تفہیم نہ ہونے پر جناتی الفاظ کا سہارا لے کر معدومیت بیان کرتے ہیں۔ کہ فلاں شاعر کے باطن کے پچھواڑے میں ایک کھڑکی سے نظر آنے والا آسمان کا ٹکڑا ہے جس میں ستارے رجائیت اور تاریکی ماے وسی کی نمائندہ ہے۔

ہم عموماً کائنات کو دو جہتوں میں دیکھتے ہیں۔ کہکشاؤں کی تصویر کی طرح ستارے لاکھوں نوری سال کی دوریوں پر نظر آتے ہیں۔ شاعر اور ادیب ان ستاروں تک پہنچنے کی رجائیت اور آرزو کا اظہار کرتا ہے اور ان تک نہ پہنچ سکنے کے ”کرب میں مبتلا ہوتا ہے۔ “ اب ماہرین فلکیات نے کائنات کی سہ جہتی تصویر حاصل کی ہے اور ان کا خیال ہے کہ بظاہر لاکھوں نوری سال کے فاصلے پر نظر آنے والے ستاروں تک شاید ہم کسی ”کائناتی“ سرنگ کے ذریعہ سے پہنچ سکتے ہیں۔ تب کائنات کی دو جہتی تصویر کی طرح ستارے لاکھوں اربوں نوری سال کے فاصلے پر نہیں رہیں گے۔ ہو سکتا ہے ہم اس قسم کی کسی سرنگ میں داخل ہوں اور اچانک وقت کے دوسری طرف جا نکلیں۔ ادیب (اور کبھی کبھی شاعر بھی) انسانی کائنات میں یہ سرنگیں بنیادی چیزوں اور جزئیات کی تفتیش کے ذریعہ سے نکالتے رہے ہیں۔ اسی لیے دستوئیفسکی (روسی ادیب) ، سروانتیز، والمیکی، سوفوکلیز (یونانی ڈرامہ نگار) ، وغیرہ عظیم ہیں۔ یہی صورت آرٹ کے دیگر نمونوں کی ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3