شاہ محمود نہیں اب شاہد خاقان وزیراعظم کے امیدوار بن چکے ہیں


قریشی صاحب کی آج کل ویسے ہی سختی آئی ہوئی ہے۔ ان کے پارٹی قائد انہیں اگلا وزیر اعظم سمجھ کر ان پر خصوصی شفقت فرما رہے ہیں۔ یہ خبر پرانی ہو چکی۔ اب وزیراعظم کا اک اور امیدوار سامنے ہے۔ آزمایا ہوا بھی، دیکھا بھالا بھی اور اپنا اپنا سا بھی۔

چوھدری شجاعت حسین کی نواز شریف سے ملاقات کا آج کل چرچا ہے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں یہ ملاقاتیں ایک سے زیادہ بار ہوئی ہیں۔ ملک ریاض بھی جا کر ایک ملاقات کر آئے ہیں۔ انہوں نے سیاسی اندھیرے ہٹانے کو بہت فوری شمسی قمری نسخے بھی پیش کیے ہیں۔
پہلے کہا جا رہا تھا کہ اگر میاں صاحب کچھ باتیں مان جائیں تو اسی اسمبلی سے شاہد خاقان عباسی اگلے وزیراعظم ہو سکتے ہیں۔

اک جھوٹے سے نے بتایا ہے کہ ملک صاحب نے کہا کہ میاں صاحب کچھ نرمی کریں۔ الیکشن چاہئیں تو وہ بھی مل جائیں گے۔ پھر میاں صاحب نے کچھ کہا جو ٹھیک سے سنائی نہیں دیا۔ اس لیے رہنے ہی دیتے ہیں۔ ویسے میں کون سا پاس بیٹھا سن رہا تھا۔

چوھدری شجاعت آج کل سیاست پر جس طرح گجراتی مٹی ڈالتے پھر رہے ہیں۔ اس کی رسید انہیں پتہ نہیں پہنچی کے نہیں۔ میڈیا مالکان سے ملاقات میں کسی نے کہا آپشن کیا ہے۔ مشرف آیا تھا نہ کیا ہوا، ہمیں چوھدری ٹکر گئے تھے۔

مسلم لیگ نون اچانک اتنی اہم کیوں ہو گئی ہے؟ یہ سب باتیں ہو کیوں رہی ہیں؟ اس کی وجہ پہلے تو اکانومی ہی تھی اب اور بھی ہیں۔ پی ٹی آئی اپنی معاشی جبلوتیوں سے معیشت کا چلتا پہیہ روک بیٹھی ہے۔ جو اب کسی طور دوبارہ کک سٹارٹ ہونے میں نہیں آ رہا۔

کپتان کی آمد جیسے بھی ہوئی ایک حوالے سے خوشگوار تھی کہ اس نے پاکستان کے تقریبا ہر کونے میں اپنی مقبولیت ثابت کی۔ فاٹا میں بھی اس کے لوگ جیت کر آئے کراچی سے بھی اور ڈپٹی سپیکر بلوچستان سے جیتے۔

ہوا یہ کے اس نئی حکومت کو پی ٹی ایم جڑ گئی۔ جس طرح سیدھی ٹکریں پی ٹی ایم والوں نے مارنی شروع کر رکھی ہیں۔ اتنی ٹکریں صبر سے کھا کھا کر اگلے پھاوے ہو گئے ہیں، عاجز آ چکے۔ یہ سب ہوتا رہا پی ٹی آئی کی حکومت کہیں بھی نہ تو پی ٹی ایم کے مطالبات حل کرنے کو سامنے آئی۔ نہ اس نے ان کا سیاسی مقابلہ کرنے کی کوشش کی۔

جب ڈھیلی ماٹھی منمناتی جوابی تقریریں شروع کیں تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔

پی ٹی ایم کو پاکستانی اداروں کے لیے اک مستقل کھجلی میں ڈھلتے دیکھ کر اصولا تو ہمارے شریکوں کو تو خوش ہونا چاہیے۔ مثال کے طور ہم یہودی سازشوں پر یقین رکھتے ہوئے سمجھ سکتے ہیں کہ امریکی اس سب پر بہت خوش ہوں گے ۔

پر ایسا ہے نہیں امریکی کہتے ہیں کہ جب بھی فاٹا میں مسائل بڑھتے ہیں پاکستانیوں کی توجہ ہمارے معاملات سے بالکل ہٹ جاتی ہے۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو پھر بلاول بھٹو جس طرح کھل کر پی ٹی ایم کی حمایت میں سامنے آئے ہیں۔ اس کا انہیں کوئی سیاسی فائدہ ہرگز نہیں ہونے جا رہا۔

مسلم لیگ نون میں اک سنجیدہ بحث جاری ہے۔ فاٹا کے ایشو پر کیا موقف اختیار کیا جائے۔ نون لیگ کے سوچنے سمجھنے والے اکثریتی لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ ہم نے پہلے ہی بہت پھڈے ڈال رکھے ہیں۔ نیا پنگا نہ لیا جائے۔ ہماری سیاسی طاقت پنجاب ہے۔ خاموشی اختیار کی جائے تاکہ فاٹا کے حوالے سے ریاستی پالیسی پر ہمیں مخالف نہ سمجھا جائے۔

مسلم لیگ نون میں اب اک فیلنگ ہے کہ بھارت یا مودی کی طرف غیر ضروری جھکاؤ ظاہر کیا گیا۔ جس کا ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ نہ بھارت راضی ہوا نہ کوئی سہولت ملی الٹا ہمارے ریاستی اداروں سے فاصلے بڑھ گئے۔

نون لیگ جو سیاسی پوزیشن اختیار کرنے جا رہی ہے۔ اس میں بہت ساری گنجائش نکل رہی ہے۔ ان کے لیے پنجاب کی سیاست کی طرف حقیقی واپسی سے کئی راستے کھل جائیں گے۔ سندھ میں کے پی میں بلوچستان میں سیاسی ایڈجسٹمنٹ کی گنجائش نکل آئے گی۔

بلوچستان کی سیاست میں الیکشن سے پہلے ڈنڈے اور ٹھنڈے کے زور پر باپ (سیاسی جماعت) متعارف کرایا گیا تھا۔ اب اس ابا جی کو دیکھ دیکھ کر سب کو رونے آ رہے ہیں۔ پچھلی بلوچستان حکومت کو ایک وسیع سیاسی حمایت حاصل تھی۔

تب بلوچستان میں مسلم لیگ نون کی حمایتی دونوں جماعتیں پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی بلوچ پشتون علاقوں میں موثر تھیں۔ یہ دونوں پارٹیاں آج بھی نواز شریف کے ساتھ کھڑی ہیں۔ جبکہ ان کی اپنی پارٹی بلوچستان میں تحلیل ہو چکی ہے۔

اب اگر کوئی نیا انتظام ہوتا ہے تو بلوچستان اور کے پی میں جے یو آئی، اختر مینگل، اسفندیار ولی خان اہم ہو جائیں گے۔ جو سیاسی سکوت طاری ہے اس کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔

یہ سب ہو گا کیسے کر کون رہا ہے۔ چلیں اک نام تو بتانا بنتا ہے۔ اس وقت شاہد خاقان عباسی اہم ترین ہیں۔ جو ہونے جا رہا اس سب سے بہت آگاہ بھی ہیں۔ سرگرم بھی ہیں، مشکل وقت دیکھ کر جو کمزور دل سیٹھ پارٹیوں سے بھاگ جایا کرتے ہیں انہوں نے ان کے گھر پھیرے شروع کر دیے ہیں۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi