دفاعی بجٹ میں کمی: وزیر اعظم کا پی آر سٹنٹ


وزیر اعظم عمران خان نے فوج کی طرف سے دفاعی بجٹ میں کمی کے فیصلہ کو ’رضاکارانہ اورمثالی‘ قرار دیا ہے۔ دوسری طرف آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے لائن آف کنٹرول پر جوانوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ اقدام قوم پر احسان نہیں ہے کیوں کہ ہم ہر قسم کے حالات میں اکٹھے ہیں‘ ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس حوالے سے دو پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ایک یہ کہ اس سے افواج پاکستان کی دفاعی صلاحیتیں متاثر نہیں ہوں گی۔ دوسرے یہ کہ تنخواہوں کو موجودہ سطح پر منجمد رکھنے کا فیصلہ صرف افسروں کے لئے ہے، عام جوان اس سے متاثر نہیں ہوں گے۔

وزیر اعظم نے عید کے روز ایک ٹوئٹ پیغام میں یہ غیر معمولی اظہار تشکر کرنا ضروری سمجھا ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر فواد چوہدری نے جو ہلال عید کی رویت کے سوال پر مفتی منیب الرحمان کے علاوہ خیبر پختون خوا کے وزیر اطلاعات شوکت یوسف زئی کے نشانے پر رہے ہیں، اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کو ایک بار پھر ’متعلق‘ رکھنے کی کوشش کی ہے اور وزیر اعظم کے بیان کے بعد کہا ہے کہ ’فوج کے اس فیصلہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ملک کی سول حکومت اور ملٹری کے درمیان معیشت اور اہم قومی معاملات میں مثالی تعاون موجود ہے‘ ۔

 چوہدری فواد کی طرف سے اس نادر روزگار موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عسکری حلقوں کے علاوہ وزیر اعظم کے ہاں اپنی ’گڈ ول‘ بہتر کرنے کی خواہش و کوشش قابل فہم ہے۔ تاہم اس ملک کے عام شہریوں کو تو صرف یہ سمجھ آیا ہے کہ قومی بجٹ میں دفاعی اخراجات کا فیصلہ حکومت یا پارلیمنٹ کی ہدایت پر نہیں ہوسکتا بلکہ فوج کو خود ہی رضاکارانہ طور پر قوم پر ترس کھاتے ہوئے اس کا اعلان کرنا پڑتا ہے۔ جنرل باجوہ کا یہ بیان کہ ’یہ اقدام قوم پر احسان نہیں ہے‘ کو غور سے پڑھا جائے تو اس معاملہ کی کئی پرتیں کھل سکتی ہیں۔ اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ ’ہے تو یہ احسان ہی لیکن اسے ہم احسان نہیں کہتے کیوں کہ قوم جب برے معاشی حالات سے گزر رہی ہو تو فوج کو بھی اس کا احساس کرنا پڑتا ہے‘ ۔

تاہم یہ بات اتنی سادہ بھی نہیں ہے۔ وزیر اعظم اور آرمی چیف کے بیانات سے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہونا چاہیے کہ قومی بجٹ پیش ہونے سے پہلے عید الفطر کے موقع پر دفاعی اخراجات میں کمی کے بارے ملک کی حکومت اور فوج کے سربراہان کو اس اہم معاملہ پر قوم کو مطلع کرنا کیوں ضروری محسوس ہؤا۔ حالانکہ اس کا اعلان احسان مندی اور تشکر کے بیان اور دوسری طرف ’کوئی احسان نہیں کیا‘ کے جواب کی صورت میں سامنے آنے کی بجائے، حکومت کی طرف سے چند روز بعد پیشکیے گئے بجٹ میں سامنے آنا چاہیے تھا۔ مشیر مالی امور کی بجٹ تقریر ہی حکومت کی مالی پالیسیوں اور ترجیحات کی عکاس ہو سکتی ہے۔ تب ہی پورے تناظر میں یہ دیکھا اور سمجھا جاسکتا ہے کہ حکومت کی کون سی ترجیحات درست ہیں اور کہاں پر اپوزیشن اس کی اصلاح کے لئے متبادل تجاویز سامنے لاسکتی ہے۔

اس دوران بجٹ کے حوالے سے یہ باتیں زبان زد عام ہیں کہ نیا بجٹ محاصل اور مہنگائی کا ایک طوفان لے کر آنے والا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدہ کے نتیجہ میں حکومت نے نئے مالی سال کے لئے 5500 ارب روپے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ گزشتہ دس ماہ کے دوران تحریک انصاف کی حکومت پہلے سے آمدنی کے مقرر ہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس وقت قومی آمدنی میں 400 ارب روپے کمی کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔ اس خسارے کو پورا کرنے اور زیادہ آمدنی کے نئے ہدف کی تکمیل کے لئے یہ خبریں عام کی گئی ہیں کہ نئے بجٹ میں 700 ارب روپے کے نئے ٹیکس اور محاصل عائدکیے جائیں گے۔ اسی لئے بیشتر مبصرین بجٹ آنے پر عوام کی ’چیخیں نکل جانے‘ کا انتباہ دے رہے ہیں۔

بورڈ آف ریوینو کو ٹیکس نیٹ بڑھانے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ حکومت کے پاس جادو کی ایسی کوئی چھڑی نہیں ہے کہ وہ چند ہفتوں یا مہینوں میں کوئی ایسا طریقہ اختیار کرسکتی ہے کہ ملک میں ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں اچانک اضافہ ہوجائے۔ تحریک انصاف جس ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی شدید مخالف رہی ہے، اس کی حکومت مجبوری کے عالم میں اسی طریقے کو بھی آزمانے پر مجبور ہوچکی ہے۔ لیکن اس کی ناکامی کا اندازہ وزیر اعظم کے اس تازہ بیان سے کیا جاسکتا ہے کہ اس ایمنسٹی اسکیم کی مدت پوری ہونے کے بعد ٹیکس چوری کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali