ڈاکٹر انور سجاد کا نوحہ


ڈاکٹر انور سجاد کا انتقال جن حالات میں ہوا۔ وہ پاکستان میں کوئی انوکھی بات نہیں اور نہ ہی سچے فنکاروں کے قبیلے کی تاریخ میں یہ کوئی پہلی بے بسی کی موت ہے۔ ہر حساس فنکار یہاں ایسے ہی مرتا رہا ہے۔ ڈاکٹر انور سجاد کو بھی ایسے ہی مرنا تھا۔ اگر عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتا ہوا معمول کی موت مرجاتا تو فنکار کہاں کا تھا؟ اسی لئے تو میں ہمیشہ سے یہی کہتا چلا آیا ہوں کہ“۔ فن کے لبوں پر ہمیشہ زہر رقصاں رہتا ہے اور یہ پیالہ یہاں ہر سچے فنکار کو پینا پڑتا ہے“ ڈاکٹر انور سجاد کے تو ویسے بھی کئی اور گناہ ایسے تھے جن کی اسے سزا ملنا ہی ملنا تھی۔

ایک مسیحا فن کے قاتلوں کے ہتھے چڑھ گیا تھا سب کچھ جانتے بوجھتے۔ وہ فن کے استحصالی طبقات کے کچھ زیادہ ہی قریب ہوگیا تھا۔ اسے شاید اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا کچھ زیادہ ہی زعم تھا کہ عشق بھی کر بیٹھا تھا۔ فنون لطیفہ کی کون سی صنف ایسی تھی جس میں وہ منہ نہیں مارتا۔ باپ دلاور علی ایک فقیر منش ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھا۔ چونا منڈی میں کلینک تھا۔ پورے لاہور میں مشہور تھا کہ ڈاکٹر دلاور غریب مریضوں سے فیس نہیں لیتا۔

بیٹے نے باپ کی عزت دیکھی تو خود بھی باپ جیسا بننے کی کوشش کی۔ ایم بی بی ایس کے بعد باپ کی گدی پر بیٹھا تو اس کی تقلید شروع کردی۔ بھلا یہ بھی کوئی عقلمندی تھی۔ کرنی ڈاکٹری اور چلنا پیدل۔ بھوک لگے تو دوستوں کے ڈیروں پر چلے جاؤ۔ ایسے زندگی بھلا تھوڑی کٹتی ہے۔ اس کے اندر ایک نہیں دس فنکار اور بھی چھپے بیٹھے تھے اور موصوف سب کی پرورش بھی فرما رہے تھے۔

٭٭٭٭٭ ڈاکٹر انور سجاد بے شمارخداداد صلاحیتوں کے مالک تھے۔ پیدائشی طور پر ایک سچے ترقی پسند۔ عوام دوست۔ فطری افسانہ نگار۔ وہ اپنے قلم کے ذریعے معاشرتی نا ہمواریوں کے خلاف جنگ لڑتے رہے۔ ان کے افسانے۔ کہانیاں اور ناول اس کلاسیک شاعری کی طرح تھے جس میں شعور کی رو میں غیر شعوری باطنی ربط ہوتا ہے۔ یہی ربط اچھی غزل کا معیار بھی ہے۔ ڈاکٹر انور سجاد کی تحریروں کے بارے میں یہ ریمارکس میرے نہیں احمد ندیم قاسمی کے ہیں جنہوں نے ان کی ایک کتاب کے فلیپ میں ایسا لکھا تھا۔

ڈاکٹر سجاد انور کی تصانیف کی تعداد درجنوں میں ہے۔ وہ اپنا پہلا ناول رگ سنگ 1955 ء میں سامنے لائے تھے اور اسی ناول نے انہیں اچھے لکھاریوں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ اس کے بعد“ جنم روپ“ نیلی نوٹ بک“ صبا اور سمندر نگار خانہ جیسے کئی ناول سامنے آئے۔ انہوں نے ٹیلی ویژن کے کئی ڈراموں میں اداکاری بھی کی۔ میں نے ان کی پرفارمنس دیکھی ہے۔ اگر وہ صرف ایک ایکٹر ہی رہتے اور ساری توجہ اس فن پر مرکوز کر دیتے تو ضیاء محی الدین کے قد کے ایکٹر ہوتے۔

مگر ڈاکٹر صاحب کسی ایک مقام پر ٹھہرنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ وہ روزانہ ایک نیا جہان تلاش کیا کرتے تھے۔ ڈرامہ نویس کی حیثیت سے سامنے آئے تو انہیں بھرپور قبول شرفیت بخشا گیا۔ ان کی روح کی بے چینی کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیجیے کہ وہ ایک ماہر رقاص بھی تھے۔ وہ ناہید صدیقی کی طرح مہاراج کتھک کے باقاعدہ شاگرد ہوئے اور ان سے رقص کے اسرار و رموز سیکھے۔ 1967 ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو وہ اس پارٹی کے بانی ارکان میں شامل تھے۔

1977 ء کے متنازعہ انتخابات میں انہیں ان کے آبائی علاقے سے صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ بھی ملا۔ مطب چلانے کے باوجود ان کی جیب ہمیشہ خالی رہتی۔ انہی دنوں میں نے انہیں لاہور کے ایک پہلوان گھرانے میں ووٹ مانگتے ہوئے بھی دیکھا۔ وہ وہاں ووٹ مانگنے پیدل گئے تھے اور ان کے ساتھ کوئی دوسرا آدمی نہیں تھا۔ کیونکہ لوگ تو ہمیشہ سیاسی امیدوار کی مہم میں ساتھ چلتے ہیں جس کی جیب گرم ہو۔

٭٭٭٭٭ میں اردو ادب کی دنیا میں جن زندہ شخصیات سے متاثر ہوا ان میں منیر نیازی کے ساتھ ڈاکٹر انور سجاد کا نام بھی شامل ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ انہیں علم و ادب کی تاریخ پر عبور حاصل تھا۔ وہ پاکستان کی ادبی تاریخ کی ان ہستیوں میں شامل تھے جو لفظوں کو تصویروں میں سوچتے ہیں۔ 2005 ء میں مجھے منیر نیازی صاحب کی زندگی اور فن پر نیوز چینل کے لئے ڈاکو منٹری بنانے کا موقع ملا۔ ڈاکو منٹری کی تکمیل کے بعد اسے آن ائر کرنے سے پہلے میں ڈاکٹر انور سجاد کو پکڑ کر لے آیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ اس ڈاکو منٹری پر اپنے ریمارکس دیں۔

ڈاکو منٹری میں کچھ شعرا اور ادیبوں کے منیر نیازی صاحب پر کمنٹس موجود تھے۔ ڈاکٹر انور سجاد نے مشورہ دیا کہ فلاں فلاں آدمی کے کمنٹس کاٹ دو۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگے“۔ کبھی بھی بڑے لوگوں کے بارے میں چھوٹے لوگوں سے رائے نہیں لینی چاہیے۔ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا اور پھر انتظار حسین جیسے کچھ اور اساتذہ سے انٹرویوز کیے گئے۔ پرائیڈ آف پرفارمنس ڈاکٹر انور سجاد پر مقالہ جات لکھ کر کئی طلبہ نے پی ایچ ڈی کی۔

1970 ء میں انہوں نے پاکستان آرٹسٹس ایکویٹی کی بنیاد رکھی۔ وہ حلقہ ارباب ذوق کے سیکرٹری بھی رہے۔ ان کا حلقہ دوستاں بہت وسیع تھا۔ وہ ایک حقیقی نظریاتی ہمہ جہت شخصیت تھے ٭٭٭٭٭ ڈاکٹر صاحب اپنے انجام عشق کا زہر پیتے رہے۔ پھر وہ ایک میڈیا ہاؤس کے شعبہ اسکرپٹ سے منسلک ہوئے۔ اس کے بعد نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ میں چلے گئے۔ وہاں اچانک ان کی تنخواہ روک دی گئی۔ یہ شاید نواز شریف حکومت کے آخری سالوں میں ہوا۔

گردش حالات کی چکی میں پستے پستے تھکے ہارے ڈاکٹرصاحب پھر پہلی بیگم کے پاس واپس لوٹ آئے۔ پہلی بیوی نے انہیں گلے لگایا۔ خوش آمدید کہا اور ان کی خدمت میں جت گئیں۔ گھر میں فاقے تھے۔ اور بیماری تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی تنخواہوں اور بیماری کے بارے میں صدر عارف علوی کو خط لکھا۔ جو پنجاب حکومت کے پاس آگیا اور انہیں 5 لاکھ کا چیک دیا گیا۔ یہ رقم یقینا قرضوں کی واپسی میں خرچ ہو گئی ہوگی۔ ان آخری ایام کی داستان ایک معاصر اخبار میں ہمارے دوست ریاض صحافی بھی اپنے کالم میں سامنے لائے۔ لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ادیبوں اور دانشوروں کے کسی گروپ کی جانب سے ان کے لئے کوئی تگ و دو نظر نہ آئی۔ اور ڈاکٹر انور سجاد تنہائیوں کی پرچھائیوں میں ہمیں عید کے دوسرے دن الوداع کہہ گئے۔
بشکریہ روزنامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).