ایدھی صاحب سے ایک حادثاتی انٹرویو


پچیس سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے، جب ایک سہ پہر صدی کے عظیم ترین شخص عبدالستار ایدھی اخبار کے آفس میں میرے ساتھ بیٹھے بڑی روانی سے اپنی زندگی کے اوراق الٹ رہے تھے۔ میں نے دو سوال سنبھال رکھے تھے ایدھی صاحب کے لئے۔ ایک دن جب وہ اچانک میرے آفس آ گئے تو میں سب کام چھوڑ کر ان کی جانب متوجہ ہو گیا۔ ہمت باندھ کر وہ دو سوال بھی کر ہی دیے۔ سوال تھے تو سیدھے سادے تھے، مگر آسان نہ تھے۔ سلام ایدھی صاحب کی سادگی کو، انہوں اپنا سب سچ کھول دیا میرے سامنے نہ کوئی عذر نہ کوئی دلیل۔

انیس سو اناسی میں ایدھی صاحب سے میری پہلی ملاقات کراچی پریس کلب میں ہوئی تھی، فریڈم آف پریس کی تحریک میں حیدر آباد جیل سے رہائی کے بعد کراچی پریس کلب پہنچا تو وہاں الو بول رہے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے کوئی جن سارے صحافیوں اور اسٹاف کو اٹھا کر لے گیا ہے۔ ہو کے اس عالم میں ایدھی صاحب بذات خود وہاں پہنچے۔ وہ اپنے ایدھی سنٹر لے گئے، جہاں سٹریچر پر لٹا کر مجھے گلوکوز کی بوتل لگائی گئی اور جوس پلانے کے بعد کھانا بھی کھلایا گیا۔ میں بہت ممنون ہوا ایدھی صاحب کا۔

اس واقعہ کے کئی سال بعد ایک بار نیو یارک گیا تو میرے ایک دوست نے ائیر پورٹ پر لیموزین کے اندر بیٹھے ایک نوجوان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ عبدالستار ایدھی کا بیٹا ہے اور یہاں ایک کمپنی میں ڈرائیور ہے۔ میرے اس دوست کا دعوی تھا کہ مقامی بنکوں میں ایدھی سنٹر کی بڑی رقوم جمع ہیں لیکن یہ لڑکا مزدوری کرکے اپنی گزر بسر کرتا ہے۔

میرا دوسرا سوال ان سے یہ تھا کہ آپ کے ادارے کے نام پر بنکوں میں چندے کی کثیر رقوم موجود ہیں، آپ ان پیسوں سے ملک کا نقشہ بدل سکتے ہیں، شاید لوگوں کی تقدیریں بدل سکتے ہیں، پوری دنیا کے لوگ آپ پر بھروسہ رکھتے ہیں وہ آپ کو صادق اور امین مانتے ہیں۔ ایدھی صاحب نے جواب دیا ”آپ بالکل درست کہتے ہیں، لوگ مجھ پر اندھا یقین رکھتے ہیں۔ انہیں دنیا بھر سے ایسے لوگ بھی عطیات دیتے ہیں جن کے ناموں کا انہیں بھی علم نہیں ہوتا، بے شمار لوگ عطیات ہی اس شرط پر دیتے ہیں کی ان کی شناخت نہیں پوچھی جائے گی، میں خود بھی دنیا کے اعتماد کو کبھی ٹھیس نہیں پہنچاؤں گا۔  ان کا ایک ایک پیسہ میرے پاس امانت ہے“

میں نے ان کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا ”، تو پھر آپ قومی سطح پر دوسرے فلاحی منصوبے کیوں نہیں شروع کرتے؟ “ میں ان پڑھ ہوں اور دنیا اچھے لوگوں کے ساتھ ساتھ ظالموں سے بھی بھری پڑی ہے ”، آپ ایک ٹیم بنائیں“ اگر عام لوگوں پر اعتبار نہیں تو اپنے قریبی لوگوں کا ہی کوئی گروپ بنا لیں ”۔

ایدھی صاحب نے جواب میں کہا“ ”ڈرتا ہوں کہ کوئی خیانت نہ کر جائے“

”چلیں آپ سب کو چھوڑ دیں، اپنے قریبی رشتے داروں کی ہی ٹیم بنا لیں۔ ایدھی صاحب بولے، رشتے داروں پر بھی اعتبار نہیں۔ ماں باپ بچپن میں مر گئے تھے، ہم بے سہارا ہو گئے، کسی نے کوئی مدد نہ کی، کسی نے بھی دست شفقت نہ رکھا ہمارے سروں پر، ہم رشتے داروں کے گھر کھانا مانگنے جایا کرتے تھے۔ ایک بار کسی رشتے دار کے گھر سے کوئی شے گم ہو گئی تو اس نے الزام مجھ پر لگا دیا۔ پھر کیا تھا، میں کسی بھی گھر جاتا تو کہا جاتا، لو آ گیا ایدھی چور۔ میں ایدھی چور کے اسی الزام، اسی تہمت کے ساتھ پروان چڑھا۔

 ایدھی صاحب تو سیدھی سیدھی باتیں کرکے رخصت ہو گئے، مگر میرے لئے کئی سوال چھوڑ گئے، اپنی عظمت کے نشان چھوڑ گئے، میں نے تو ان کے لئے دو سوال ہی سنبھال رکھے تھے وہ میرے لئے کئی سو سوال چھوڑ گئے، ایک یتیم مسکین، بے سہارا، ان پڑھ بچے کو قدرت نے کہاں سے کہاں پہنچا دیا، اور اسے ہزاروں، لاکھوں لوگوں کا سہارا بنا دیا، اس شخص کو عزت و احترام کا استعارہ بنا دیا، ایدھی صاحب جب بھی یاد آتے ہیں تو خیال آتا ہے“ ”جس قسم کے غیر معقول سوال میں نے ان سے کیے تھے اور جس تحمل اور سچائی سے انہوں نے جوابات دیے تھے کیا میں خود ایسا کر سکتا ہوں۔ میں سوچتا رہ جاتا ہوں اور اپنے آپ سے شرمندہ ہو کر سر جھکا لیتا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).