سکرپٹ کا قیدی


کردار یہ سن کر لائبریری میں تیزی سے گھومتے ہوئے قہقہے لگاتا ہے اور آدم اُسے حیرت سے دیکھتا رہ جاتا ہے۔ وہ گھومتا ہوا، قہقہے لگاتا ہوا اس کے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے اور کہتا ہے :

 ”مجھے معلوم ہے کہ میں مارلو اور گوئٹے کا فاؤسٹ ہوں جس نے شیطان کا اُس وقت بوسہ لیا تھا جب وہ ہیلن کا روپ دھار کر آیا تھا۔ ہیلن مغربی حکمت کی جنم بھومی کی سب سے خوبصورت عورت! وہ چہرہ جس کے حسن کا جادو ایڑ لگا کر یونان کے ایک ہزار جہازو ٹرائے کے ساحلوں تک لے آیا تھا۔ اس لئے تمہیں لگتا ہے میں آزاد نہیں! میں محض اس افسانے کا قیدی ہوں اور افسانے سے باہر میرا کوئی وجود نہیں! “

کردار چند لمحوں کے خاموش ہوا اور پھر بولنے لگا۔

 ” کیا تم نے کبھی سوچا کہ آدم کی اولاد بھی تو قیدی ہے۔ مجھ سے بڑی قیدی! کیا ہبوطِ آدم کے سمے تمہارے خدا نے یہ نہیں کہا تھا کہ جاؤ اور اپنی پیشانی کا عرق بہا کر اپنا پیٹ بھرو؟ کیا یہ آدم کی آزادی کا اعلان تھا؟ جنت اگر آدم کی فطرت سے جُدا نہ ہوتی تو کیا وہ اُسے چھوڑتا؟ جہاں خواہش اور اس کے پورا ہونے کے درمیان کوئی وقفہ نہ ہو کیا وہاں کوئی اپنے آپ کو خوش اور آزاد محسوس کرسکتا ہے؟ میری جنت میرا فسانہ سہی لیکن میرا خُدا تمہارے خُدا کی طرح مجھے میری اس جنت سے کبھی نہیں نکالے گا۔ میں نکالا گیا تو کیا میرے خالق کی جنت باقی رہے گی؟

کسی نے کہا تھا کہ انسان آزاد پیدا ہوتا ہے اور پھر اُسے اس کی جائے پیدائش اور وقت میں مروج پاگل پن کی بیڑیاں پازیب کہہ کر پہنادی جاتی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی انسان آزاد پیدا ہوتا ہے؟ کیا وہ لاکھوں برس کی موروثی و جینیاتی یادداشتیں لے کر پیدا نہیں ہوتا؟ کیا اس بات کا پرچار کرنے والے انسان کو مفاد پرستوں کے محافظ نظریات پر قربان کرنے کا درس نہیں دیتے رہے کہ ’خامۂ حق‘ نے انسان کی جبین خالی رکھی ہے؟ اگر یہ جبین خالی نہیں تو اس پر کیا لکھا ہے؟

کیا تمہیں دُوسروں نے یہ نہیں بتایا کہ تم کون کو اور تمہیں کیا کرنا چاہیے؟ کیا تم اپنی شناخت کا سوال دُوسروں سے نہیں پوچھتے؟ شناخت تمہاری اور بتائیں دُوسرے؟ کیا شناخت کے ساتھ تمہیں ہدایت نامہ نہیں ملتا؟ تم بُدھ ہوتو تمہیں یہ کرنا ہے وہ نہیں۔ تم مسیحی ہوتو تمہیں یہ وہ کرنا ہے، یہ نہیں۔ فلاں کو اچھا سمجھنا ہے، فلاں کو دوست اور فلاں کو دشمن۔ تم کسی ریاست کے شہری ہوتو پھر بھی تمہیں یہ ہدایت نامہ ملتا ہے، جو تمہارا سکرپٹ ہے، منقولہ ہے۔ تم مجھ سے بڑے قیدی ہو۔ سکرپٹ کے غلام، منقولے کے قیدی۔

تم نے کبھی غور کیا۔ تمہارے سکرپٹ میں تو یہ بھی لکھا ہے کہ اگر کوئی یہ کہہ دے تو غصے میں آجانا ہے۔ کوئی وہ کہہ دے تو خوش ہوجانا ہے؟ انسانوں میں سے وہ، صرف وہ جو پرانے کیے اور کہے کا نیا جواب سے دیتے ہیں صرف وہ آزاد نہیں۔ وہ آزاد ہیں جو یہ سوال دُوسروں سے نہیں پوچھتے کہ میں کون ہوں۔ کیا اپنی شناخت کا سوال دُوسروں سے پوچھ کر اولادِ آدم لاکھوں بار دہرائے گئے، دریدہ، مدقوق اور متعفن تجربات کی قیدی نہیں بن چکی؟

 ہاں میں فسانے کا قیدی ہوں۔ مگر نہیں۔ نہیں! میری قید آدم کی قید اور تمہاری آزادی کے واہمے اور حریت کے شائبے سے ہرگز بُری نہیں! مجھے میرے خُدا، میرے لکھاری نے براہ راست تخلیق کیا ہے جب کہ انسانوں میں سے اکثر خُدا کے بیوپاریوں کی تخلیق ہیں جو تمہاری شناخت کا تعین کرکے تمہاری ناک میں نکیل ڈال دیتے ہیں۔ تمہارے اور تمہارے اور خُدا کے بیچ کتابوں، سدھانتوں اور دلائل کا پہاڑ کھڑا کردیتے ہیں جسے تم سر نہیں کرسکتے۔

کبھی تم نے سوچا؟ کیوں تم حقیقی انسانوں سے بھاگ کر فسانے اور کہانی کی دُنیا میں پناہ لیتے ہو؟ کیا اس لئے نہیں کہ وہاں بھی تمہیں سکرپٹ کے قیدی ملتے ہیں مگر تم سے بڑے، تم سے آزاد؟ کیا اس لئے نہیں کہ صرف کہانی اور فسانے کی دنیا میں تمہاری ملاقات اچھے انسانوں سے ہوتی ہے؟ کیا اس لئے نہیں کہ تمہارے خداؤں، تمہارے آقاؤں، تمہارے پنڈتوں، تمہارے پروہتوں اور تمہارے اگوانوں کی بنائی دنیا سے خوبصورت ایک فنکار کی بنائی ہوئی دنیا ہے؟ تمہاری دُنیا میں اچھائی ہمیشہ شکست کا زہر پیتی ہے اور شر فتح یاب ہوتا ہے۔ کیا تم اس وقت فنکار کی دنیا میں پناہ نہیں لیتے جب تمہارا مکمل کی بنائی ہوئی نامکمل دنیا میں دم گھٹنے لگتا ہے؟

بتاؤ۔ جواب دو! ہے تمہارے پاس کوئی جواب؟ ”

آدم میز سے کافی کا کپ اٹھاتا ہے۔ کافی ٹھنڈی ہوچکی ہے اس لئے ایک گھونٹ سے گلا تر کرنے کرنے کے بعد کپ دوبارہ میز پر رکھ دیتا ہے، اور کردار کی طرف انگلی اٹھا کر گویا ہوتا ہے :

 ”چلو اگر میں تمہاری یہ باتیں مان بھی لوں تو پھر میں تم سے افضل ہوں۔ میری تاریخ ہے لیکن تمہاری کوئی تاریخ نہیں۔ ۔ تم افسانوی ہیرو ہو لیکن تاریخی ہیرو صرف ایک انسان ہی ہوسکتا ہے۔ مجھ جیسا جیتا جاگتا انسان۔ جواب دو اس کا۔ جواب دو! “

کردار اس بار قہقہہ لگا کر میز پر آدم کے سامنے بیٹھ جاتا ہے :

 ”تاریخ! واقعہ نویسی۔ ان واقعات کا قصہ جو زمان مکان میں ایک بار ہوتے ہیں اور پھر کبھی واقع نہیں ہوں گے ۔ وہ واقعات جو تمہاری پیٹھ پیچھے واقع ہوتے ہیں لیکن تمہاری ناک میں نکیل ڈالنے والا تمہارے آگے بچھا دیتا ہے تاکہ تم نیا جیون نئے انداز میں نہیں اس کی مرضی سے بسر کرو۔ تاریخ۔ ہمم۔

تاریخ کا ہیرو اس واقعے کا ہیرو ہے جو ایک مرتبہ ہوتا ہے۔ مجھ جیسا افسانوی ہیرو ان واقعات کا جو ہر وقت رونما ہورہے ہیں۔ تم وہی تاریخی ہیرو ہوسکتے ہو ناں جو ایک گروہ کا ہیرو ہوتو دیگر سینکڑوں گروہوں کے نزدیک ولن ہوتا ہے؟ اس کے برعکس میں۔ ایک کردار۔ ہیرو ہوں تو ہر ایک کا ہیرو اور اگر ولن ہوں تو ہر ایک کا۔ مجھے خوشی ہے کہ میں تمہارے تاریخی ہیروز کی طرح متنازع نہیں ہوں۔ اس لئے میں کہتا ہوں کہ واقعے سے کہانی بڑی ہے۔ اس لئے تم واقعات کی دنیا سے نکل کر کہانی کی دنیا میں پناہ لیتے ہو۔ تمہارے چھوٹے چھوٹے بچے روزانہ اس دنیا سے تنگ آجاتے ہیں اور رات کو کہانی سن کر سونا چاہتے ہیں۔ کیوں؟

کہانی واقعے کا زوال نہیں ارتقا ہے۔ واقعہ کہانی اس وقت بنتا ہے جب ا س کا جوہر کشید کرکے محفوظ کرلیا جائے۔ اسی جوہر کو کہانی کہتے ہیں جو زمان و مکان کی شکست و ریخت سے بچ کر ہر زمانے اور ہر مقام کی ہوجائے۔ کیا تم نے دیکھا نہیں کہ فسانے اور کہانی کے کرداروں کے برعکس تاریخی واقعات کا کردار بننے کو ترجیح دینے والے اپنے فاسد جذبات کی تطہیر کی بجائے ان کی دھاریں تیز کر لیتے ہیں۔ تاریخی ہیرو! ہا! ہا! ”۔

کردار تاریخ پر ہنستا، قہقہے لگاتا کتابوں کی بڑی شیلف کی طرف بڑھتا ہے اور کتابوں میں گم ہوجاتا ہے۔ آدم چند لمحوں تک سکتے کے عالم میں اپنی جگہ پر جما خلاؤں میں گھورتا رہتا ہے اور پھر سر جھٹکتے ہوئے اپنی کرسی پر جابیٹھتا ہے۔ اس بار پڑھنے کی بجائے قلم اٹھا کر لکھنا شروع کردیتا ہے۔ لگتا ہے وہ وہ کوئی افسانہ، کوئی کہانی، کوئی ناٹک لکھ رہا ہے۔ وہ اپنی تحریر کا پہلا جملہ لکھ کر بلند آواز میں پڑھتا ہے :

 ” آدم اپنی لائبریری میں بیٹھا حسب معمول ایک ناول پڑھ رہا ہے“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2