جمیل جالبی، حاجی بغلول اور پاکستانی سیاست


منشی سجاد حسین چاہتے تھے کہ ایک ایساکردار تشکیل دیا جائے جو سرشار کے کرداروں آزاد اور خوجی کو شکست دے سکے۔ جالبی صاحب کے خیال میں ”حاجی بغلول“ کا نیا کردار دان کیخوتے اور پِک وِک کا امتزاج تھا، جسے ”اودھ پنچ“ میں سلسلے وار پیش کیا گیا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ سرشار نے بھی اپنے کردار آزاد اور خوجی کے لیے دان کیخوتے اور سانچو پیترا کو استعمال کیا تھا۔

سجاد حسین نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے تخیل میں ”حاجی بغلول“ اور ”حرفہ ریوڑی“ کے کردار تشکیل دیے۔ دان کیخوتے کا نیزا جو سرشار نے قرولی سے بدل دیا تھا، سجاد حسین کے ہاں جریب زیتونی کی شکل اختیار کر گیا۔ جمیل جالبی وضاحت کرتے ہیں کہ حاجی بغلول غالباً ڈکنز کے پک وک سے زیادہ متاثر تھا۔ ڈکنز نے بھی اپنے افسانوی کردار پِک وِک کو ایک کے بعد ایک مصیبت میں دکھایا اور سجاد حسین نے بھی ہندوستانی ماحول میں حاجی بغلول کے ساتھ یہی کیا۔ دونوں مزاح تو پیدا کرتے ہیں جو اکثر المناک نتائج کا باعث ہوتا ہے۔

حاجی بغلول اور اس کے معاون خود ہمارے معاشرے سے ہیں اور ان کی ساری حماقتیں مشرقی آب و ہوا کی پیداوار ہیں۔ جالبی صاحب ایک اور اہم نکتے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ احمقوں کے کردار اوران کے مزاحیہ مگر المناک معرکے خود قارئین کی دلچسپی سے تشکیل پاتے ہیں کیوں کہ قارئین یا تماشائی بار بار آنے والی مصیبتوں سے مزے لیتے ہیں۔ ایسے کردار تخلیق کرنے والے قارئین کی ذہنی سطح کو مد نظر رکھتے ہیں اور ان کی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قارئین یا تماشائیوں کی پسند و ناپسند سے ایک غیر سنجیدہ بیانیہ جنم لیتاہے جس سے قہقہوں کے ساتھ آنسو بھی برآمد ہوتے ہیں۔

منظر نامہ لکھنے والے صرف اپنی مجبوریوں کے تابع نہیں ہوتے بل کہ لوگوں کی مزا لینے کی طلب سے بھی متاثر ہوتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 140 سال گزرنے کے بعد بھی حاجی بغلول جیسے کردار اور ان کے تخلیق کار کس طرح اب بھی رواں دواں ہیں۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد تشکیل پانے والا منظر نامہ جو ایک پسماندہ تہذیب و تمدن کا نمائندہ تھا اب بھی کس طرح ہماری ثقافت اور ادب میں جاری و ساری ہے۔ ہمارے ارد گرد نئی ایجادات ہورہی ہیں اور سماجی و معاشی ڈھانچے بدل رہے ہیں پھر بھی ہم کس طرح اپنی پرانی اور فرسودہ روایات سے جڑے رہنا چاہتے ہیں اور خوش فہمی سے نہیں نکلتے۔ ایسے کرداروں کے تخلیق کار سمجھتے ہیں کہ مزاح پیدا کرنا اچھا ہے مگر بدقسمتی سے وہ اس کے المیہ نتائج سے بے خبر رہتے ہیں۔

منشی سجاد حسین نے انیسویں صدی کے جس ماحول میں حاجی بغلول کو تخلیق کیا تھا اس وقت لوگ اپنے روز مرہ مسائل سے فرار چاہتے تھے۔ سجاد حسین نے لوگوں کے ردعمل اور رویوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ناول کے حالات و واقعات تحریر کیے۔ اس طرح کے مزاحیہ اور قسط وارناولوں میں مصنف دوباتوں کا خیال رکھتا ہے۔

ایک تو یہ کہ ہر باب یا قسط ایکشن اور ڈرامے سے بھرپور ہو تاکہ لوگوں کی دلچسپی برقرار رہے اور وہ ایک ہی طرح کے حالات وواقعات سے اکتا نہ جائیں۔ دوسری بات یہ کہ ہر باب ماضی سے جڑا ہونے کے باوجود اپنے طور پر الگ تھلگ بھی ہو۔ ہر قسط کو ڈرامائی اور الگ بنانے میں بھی دو عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہر نیا ڈرامہ لوگوں کو اتنا محو کردیتا ہے کہ وہ ماضی کے ملتے جلتے واقعات بھول جاتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ جنہوں نے ابھی پڑھنا یا دیکھنا شروع کیا ہو، انہیں ماضی کی طرف دیکھنے کی یا پرانی قسطیں اور ابواب پڑھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔

کردار تخلیق کرنے والوں اور منظر نامہ لکھنے والوں کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ ہر باب کو مزاح سے بھرپور، ڈرامائی اور الگ تھلگ رکھیں تاکہ لوگ ہنستے بھی رہیں اور مسائل کی سنجیدگی کو بھی بھول جائیں اگر مزاح اور ڈرامہ نہ ہوئے تو لوگ سنجیدہ ہو جائیں گے اور سوچنے لگیں گے جس سے لوگوں کے ذہنوں میں سوالات پیدا ہوں گے۔ اسی لیے مصنف آپ کو مزاح تو دیتا ہے مگر سوالات کے جواب دینا نہیں چاہتا نہ ہی کسی بامعنی گفت گومیں حصہ لینا چاہتا ہے جس سے خود مصنف کے ڈھونگ کا پردہ چاک ہوسکتا ہے۔ ہر قسط کے الگ تھلگ ہونے سے سلسلے منقطع بھی رہتے ہیں، تاریخ بھی ضروری نہیں رہتی اور سوالات بھی نہیں پوچھے جاتے۔ یہی اصول نہ صرف ”فسانہ آزاد“ اور ”حاجی بغلول“ بلکہ ڈکنز کے ناولوں پر لاگو ہوتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگ ایسے سرکس کیوں پسند کرتے ہیں۔ شاید اس کا جواب یہ ہے کہ تسلسل یا تکنیک اتنے اہم نہیں جتنے کہ کرداروں کی حماقتیں۔ پورے ناول میں ایسے کردار ہوتے ہیں جوآپ کو اتنا بے وقوف بنا دیتے ہیں کہ آپ پلاٹ سے بے خبر ہوجاتے ہیں یا تماشائیوں کو مجبور کردیا جاتا ہے کہ وہ پلاٹ کے بارے میں نہ سوچ سکیں۔

پلاٹ پس منظر میں کہیں لٹک رہا ہوتا ہے جس کی مدد سے کردار ایک کے بعد ایک ایکٹ پیش کرتے رہتے ہیں اور تماشائی اس رنگ برنگی بکواس سے لطف اٹھاتے رہتے ہیں۔

اب ہم یہ سوال بھی پوچھ سکتے ہیں کہ کیا ناول کے کردار اور خود ناول غیر حقیقی نہیں ہیں یا انہیں بڑھا چڑھا کر نہیں پیش کیا جارہا۔ (کیا ہم بغلول کو حقیقی زندگی میں دیکھتے ہیں ) اگر نہیں تو اس کے رویے میں ایسی کیا بات حقیقی ہے جو ایسے کرداروں کو زندہ رکھتی ہے۔ جمیل جالبی اس سوال کا نفسیاتی جواب دیتے ہیں وہ لکھتے ہیں۔

”اس کی نفسیاتی وجہ ہے۔ جب ہم اپنی عمر کے اعتبار سے پختہ ہوکر بالغ نظر ہوجاتے ہیں تو یقیناً ہمیں حاجی بغلول اور آزاد جیسے کردار نظر نہیں آتے۔ لیکن جب ہم اس منزل پر پہنچ کر عہد رفتہ کے دریچوں میں جھانکتے ہیں تو بہت سے کردار اپنی عجیب و غریب اور مخصوص خصوصیات لیے ہمارے ذہن کی سطح پر ابھرنے لگتے ہیں۔ بچہ اپنے بڑوں کو، ساتھیوں کو بغیر کسی گہرائی یا تعلق کے دیکھتا ہے اور اس کی نظر ان پر براہ راست پڑتی ہے۔

ان کی بہت سی حرکات و سکنات اسے عجیب عجیب سی دکھائی دیتی ہیں اور وہ اپنے استاد، محلہ دار، عزیز رشتہ داروں کے عادات واطوار، وضع قطع سے نہ صرف اثر قبول کرتا ہے بل کہ ان سے بغیر جانے اپنے شعور کی تہذیب بھی کرتا جاتا ہے۔ بچپن میں کوئی بھی چیز معمولی نہیں ہوتی اور بچہ جب کسی چیز سے متاثر ہوتا ہے تو یہ نقوش اس کے شعور میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جم کر رہ جاتے ہیں۔”

اسی لیے اسکرپٹ رائٹر یا منظر نامہ لکھنے والے کے لیے یہ بات اہم ہے کہ وہ اپنے قارئین یا تماشائیوں کو بڑوں یا بالغان کا رویہ اختیار کرنے سے باز رکھے۔ ضروری ہے کہ تماشائی بچوں کی طرح ہی محسوس کریں تاکہ وہ لطف اٹھائیں، متاثر ہوں اور بعض اوقات کرداروں کو بڑے سورما سمجھنے لگیں۔ تماشائیوں کی اندرونی اور جذباتی کائنات کو مسلسل ہل چل میں رہنا چاہیے تاکہ تماشائی بڑے ہونے کا سوچ بھی نہ سکیں۔ مسلسل ہل چل کا مطلب ہے کہ ایک مسلسل ہیجانی کیفیت جس میں خیالات کا ٹھہراؤ ناممکن ہو۔ آپ میں جتنا ٹھہراؤ اور استقلال ہوگا آپ اتنا ہی زیادہ سوچنے سمجھنے کے قابل ہوں گے۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3