جامعات کی عالمی درجہ بندی اور ہم۔ ! 


جامعات کی درجہ بندی کرنے والے بین الاقوامی ادارے کیو۔ ایس  (QS)  نے 2019 کی درجہ بندی رپورٹ شائع کی ہے۔  رپورٹ کے اجراء کے بعد، پاکستانی میڈیا میں ایسی خبریں، تبصرے اور اداریے پڑھنے اور سننے کو ملے۔  جن میں تاسف کا اظہار کیا گیا کہ تعلیم پر اربوں روپے سالانہ خرچ کرنے کے باوجود کوئی ایک بھی پاکستانی یونیورسٹی، دنیا کی ساڑھے تین سو بہترین یونیورسٹیوں میں شامل نہیں ہو سکی۔   ( پانچ سو بہترین جامعات میں البتہ دو یونیورسٹیاں شامل ہیں )  ۔  جب بھی کوئی ریٹنگ ایجنسی اپنی رپورٹ جاری کرتی ہے، ہمارے ہاں یہی بحث سننے کو ملتی ہے۔  درجہ بندی میں نمایاں جگہ حاصل کرنے میں ناکامی کو، پاکستانی جامعات کی ناقص کارکردگی  (بلکہ نالائقی اور نا اہلی )  سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

جہاں تک کیو۔ ایس  (QS)  کا تعلق ہے، دراصل یہ مارکیٹنگ کا ایک ادارہ ہے۔  آغاز میں کیو۔ ایس  (QS)  اور ٹائمز ہائر ایجوکیشن  (times higher education)  مشترکہ رینکنگ رپورٹ جاری کیا کرتے تھے۔  پھر یہ دونوں ادارے علیحدہ ہو گئے  ( جیسے ہمارے ہاں میوزک بینڈ ٹوٹ جاتے ہیں )  ۔  اب یہ دونوں علیحدہ علیحدہ درجہ بندی رپورٹیں جاری کرتے ہیں۔  دلچسپ بات مگر یہ ہے کہ ایک ہی یونیورسٹی کو دونوں ادارے الگ الگ درجے  (rank)  پر رکھتے ہیں۔  یعنی ریٹنگ ایجنسی بدلنے سے جامعہ کا درجہ بھی بدل جاتا ہے۔  اس کے باوجود دنیا بھر میں ان کی رینکنگ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔  پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک کی ہائیر ایجوکیشن پالیسیوں میں بھی ان کی درجہ بندی کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔  تاہم اس کے ساتھ ساتھ درجہ بندی سے متعلق ایجنسیوں کے طریق کار(methodology)  پر سوالات اٹھتے رہتے ہیں۔  ان پر تنقید ہوتی ہے۔  انہیں جانبداراور متعصب بھی سمجھا جاتا ہے۔

جامعات کی درجہ بندی کے مصدقہ یا غیر مصدقہ ہونے کی بحث سے قطع نظر، سوال یہ ہے کہ کیا ہماری اعلیٰ تعلیمی درس گاہوں اور جامعات کی کامیابی اور کارکردگی کا معیار  (اور کسوٹی)  فقط یہ ہے کہ وہ عالمی درجہ بندی میں جگہ پائیں؟ میرے نزدیک اس کا جواب نفی میں ہے۔  اصولی طور پر ہمیں اپنی جامعات کی کارکردگی کو اپنے قومی اور سماجی مسائل اورضروریات کے تناظر میں جانچنا اور پرکھنا چاہیے۔  ہزاروں میل دور قائم ایک کمرشل ادارہ اس کا تعین کس طرح کر سکتا ہے؟ اس سے پہلے کہ ہماری جامعات عالمی درجہ بندی میں نام پیدا کی دوڑ میں شامل ہوں، لازم ہے کہ ہم اپنے تعلیمی نظام کو درپیش مسائل پر نگاہ ڈالیں۔

ہمارا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ آج تک ہم پرائمری تعلیم کا سو فیصد ہدف حاصل نہیں کر سکے۔  دستور پاکستان کا آرٹیکل 25۔  A ریاست کو پابند کرتا ہے کہ وہ پانچ سے سولہ سال کی عمر تک کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم کی فراہمی کا اہتمام کرئے۔  آئین کی اس شق پر ہم آج تک عمل درآمد نہیں کراسکے۔  برسوں سے ہم اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ ذریعہ تعلیم ارد و ہو نا چاہیے یا انگریزی۔ اس بحث کو بھی ہم انجام تک نہیں پہنچا سکے۔

بلند آہنگ نعروں اور دعووں کے با وجود تعلیمی نصاب کو جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں بھی ہم تاحال ناکام ہیں۔  دینی مدارس کو قومی دھارے میں لانے کی حکومتی کوششیں بھی آج تک بار آور نہیں ہو سکیں۔  سرکاری اسکول جن میں ملک کے 70 فیصد بچے زیر تعلیم ہیں۔  ان کی حالت دگرگوں ہے۔  لائبریری، لیبارٹری، فرنیچر  (جیسی عیاشی)  تو رہی ایک طرف، بیشتر اسکولوں میں پینے کا صاف پانی اور لیٹرین جیسی بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں۔  دنیا بھر میں ہائر ایجوکیشن کی بنیاد، اسکول ایجوکیشن پر ہی کھڑی ہوتی ہے۔  لہذا ہماری توجہ عالمی درجہ بندی سے زیادہ، اسکولوں کی حالت زار سنوارنے پر مرکوز ہونی چاہیے۔

اعلیٰ تعلیم کی حالت بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔  جامعات سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ محض ڈگری بانٹنے والے اداروں کے بجائے، علمی درسگاہوں کے طور پر کام کریں۔  بد قسمتی سے ہمارے ہاں ایسا نہیں ہو رہا۔ معیار تعلیم کا حال انتہائی ابترہے۔  اگر کسی کو ایم۔ فل اور پی۔ ایچ۔ ڈی ڈگری ہولڈرز کی قابلیت اور استعداد کارسے متعلق آگہی درکار ہے، تو پنجاب پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین کا وہ خط پڑھ لیجیے جو انہوں نے 2018 میں، اس وقت کے چانسلر اورگورنر رفیق رجوانہ کو لکھا تھا۔ یا پھر ان ریمارکس پر غور کر لیں، جو چند ہفتے قبل سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس گلزار احمد نے ہائیر ایجوکیشن سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جامعات کی مایوس کن کارکرگی پر دیے ہیں۔  مزید آگاہی چاہیے تو، سی۔ ایس۔ ایس کے آٹھ دس سالوں کے  (زوال پذیر)  امتحانی نتائج پر نگاہ ڈال لیں۔

ایسے نظام اور معیار تعلیم کے ساتھ لمحہ فکریہ یہ نہیں کہ ہم عالمی درجہ بندی میں نمایاں جگہ نہیں پاتے۔  فکرمند ی کی بات یہ ہے کہ ہماری یونیورسٹیاں کیسی افرادی قوت مارکیٹ میں بھیج رہی ہیں۔  اور نوجوانوں کوکتناذمہ دار شہری بنا رہی ہیں۔  بلا شبہ پاکستان میں ذہین و فطین افراد کی کمی نہیں ہے۔  ہر شعبے میں درجنوں مثالیں موجود ہیں جب پاکستانی نوجوانوں نے اقوام عالم میں ملک کا نام روشن کیا۔ مگر ذرا عمومی جائزہ لیں۔

ہمارے اعلیٰ تعلیمی ادارے کس طرح کے ڈاکٹرز پیدا کر رہے ہیں؟ وہ جو اپنی مراعات اور تنخواہوں میں اضافے کے لئے مریضوں کے علاج سے انکار کر دیتے ہیں۔  ایمرجنسی وارڈز کی تالہ بندی کر تے اور مریضوں کو موت کے رحم و کرم پرچھوڑ دیتے ہیں۔  ہم کیسے اینکرز اور صحافی مارکیٹ میں بھیج رہے ہیں، وہ جو ٹیلی ویژن چینلز پر بیٹھ کر عدالتیں سجاتے ہیں، ججوں کی طرح فیصلے صادر کرتے ہے اورصحافتی اخلاقیات کو خاطر میں نہیں لاتے۔

ہمارا نظام تعلیم کیسے وکیل پیدا کر رہا ہے؟ وہ جو ججوں کے ساتھ گالی گلوچ کرتے ہیں۔  عدالتوں میں توڑ پھوڑ اور مار پیٹ کے مرتکب ہوتے ہیں۔  ہم کیسے پولیس افسر تیار کر رہے ہیں؟ ایسے جو مظلوم کی داد رسی کے بجائے، اس کے دکھوں میں مزید اضافے کا باعث بنتے ہیں۔  کم و بیش ہر شعبے میں اخلاقی انحطاط کی یہی کیفیت دکھائی دیتی ہے۔  اگر ہماری جامعات ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ افرادپیدا کر رہی ہیں، تو یقین جانیے عالمی درجہ بندی کا حصہ بننے یا نہ بننے سے سماج کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔

آج علم کی جستجو کا عالم یہ ہے کہ ہماری لائبریریا ں ویران ہو چکی ہیں۔  طالب علم کے ساتھ ساتھ استاد کو بھی کتاب پڑھنے کی رغبت ہے نہ فرصت۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان انگریزی تو کجا، اردو سے بھی نابلد ہیں۔  تدریس سے تربیت کا عنصر نکلتا چلا جا رہا ہے۔  جامعہ کا استاد تدریس اور تحقیق سے کہیں زیادہ انتظامی عہدوں کے حصول میں دلچسپی رکھتا ہے۔  نوجوان نسل تیزی سے عدم برداشت اورانتہاپسندی کا شکار ہو رہی ہے۔  بیشتر پڑھے لکھے افراد آئین پاکستان اور جمہوریت کے بنیادی فلسفے تک سے آگاہ نہیں۔  اصل میں یہ ہیں وہ مسائل جن پر ہمیں متفکر ہونا چاہیے۔  لازم ہے کہ ہم اپنی جامعات کی کارکردگی کو اس تناظر میں جانچیں اور اس میں بہتری کی کاوش کریں۔

جہاں تک عالمی درجہ بندی کا تعلق ہے تو تقریر اور تحریر کی حد تک یہ مثال بہت بھلی لگتی ہے کہ بھارت  (جو ہمارے ساتھ آزاد ہوا تھا)  کی دو درجن جامعات کیو۔ ایس رینکنگ  ( 2019 )  کا حصہ ہیں۔  یاد رہے کہ بھارت کا تعلیمی بجٹ  ( 2019۔  20 )  تقریبا 1962 ارب  (پاکستانی)  روپے ہے۔  اتنے بھاری بھرکم بجٹ کے ساتھ عالمی درجہ بندی میں جگہ بنانا اتنی بڑی بات نہیں۔  جبکہ ہماری وفاقی حکومت ہائر ایجوکیشن کے بجٹ میں تقریبا 50 فیصد کمی کا عندیہ دے چکی ہے۔

ہمارے ہاں اس خبر کا تو بہت چرچا ہے کہ ملک کی بگڑتی اقتصادی صورتحال کی وجہ سے افواج پاکستان نے اس سال دفاعی بجٹ میں مزید اضافہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے  (اسکا مطلب پہلے سے موجود بجٹ میں کمی نہیں ہے) ۔  لیکن تعلیمی بجٹ میں 50 فیصد کٹوتی کا حکومتی اعلان کوئی بڑی خبر نہیں ہے۔  نہ ہی یہ کوئی ایسا اہم معاملہ ہے جسے زیر بحث لایا جائے۔ حال ہی میں برازیل حکومت نے تعلیمی بجٹ میں کمی کا اعلان کیا ہے۔  وہاں لاکھوں طلباء اور اساتذہ سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔  ہمارے ہاں مگر کسی کو اس صورتحال پر کوئی تشویش نہیں ہے۔  یہ دراصل ترجیحات کا معاملہ ہے۔  ہمیں اپنے نظام تعلیم کی اصلاح درکار ہے تو بے سود مباحث میں الجھنے کے بجائے، اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ہو گا۔ تب ہی تعلیم سے جڑے مسائل حل ہو پائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).