عزیز آباد کا پیر عرف بانی ایم کیو ایم


1988 ء کے انتخابات کے موقع پر پاکستان ٹیلی ویژ ن نے تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کے انٹرویو نشر کیے۔ ان کے انٹرویو کے لیے الطاف حسین کی خواہش پر ممتاز دانش ور پروفیسر حسنین کاظمی کو مدعو کیا گیا جنھوں نے بڑے سلیقے سے پروگرام کا آغاز کر کے مہمان سے ابتدائی سوال کیا۔ کاظمی صاحب علمی حلقوں میں ایم کیوایم کے مہاجر قومیت کے فلسفے کی وکالت کے لیے معروف تھے لیکن اس کے باوجود الطاف حسین نے سوال اور سوال کنندہ، دونوں کو نظر انداز کر کے اپنا رخ براہ راست کیمرے کی طرف کیا اور تند وتیز تقریر کردی۔ کسی غیر حکومتی شخصیت کی طرف سے سرکاری ٹیلی ویژن پر اس طرح کے خطاب کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ اپنی تقریر میں انھوں نے مخالفین کو تضحیک کا نشانہ بنایا اور کہا: ”ان کا چلن ہے، میٹھا میٹھا ہپ، کڑوا کڑوا تھو“۔ یہ جملہ انھوں نے اس ادا کے ساتھ کہا کہ رات ہی رات میں زباں زدِ عام ہو گیا اور ایم کیوایم کا ہر کارکن اُسے دہراتا ہوا نظر آیا۔

انتخابی مہم کے دوران الطاف حسین جہاں بھی گئے، ان سے یہ جملہ بہ اصرار سنا گیا۔ اس تجربے نے ایک اور تجربے کی راہ کھولی، الطاف حسین کے اجتماعات میں مناسب مقامات پر کارکن بٹھا دہے جاتے جو ان کے جملوں کو مصرع طرح کی طرح اٹھاتے۔ لندن سے بہ ذریعہ ٹیلی فون کی جانے والی تقریروں کے دوران میں تو باقاعدہ مکالمہ ہونے لگا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ مقرر اور سامعین کے درمیان بچہ جمہورا، جی استاد کی طرز پر عامل اور معمول کا رشتہ قائم ہوجاتا، اس مقصد کے لیے حاضرین کے درمیان بھی مائیکروفون نصب کیے جاتے۔ الطاف حسین کسی خاص لفظ پر زور دیتے ہوئے الفاظ اور جملوں کو کھینچ کرکہا کرتے : ”سن رہے ہوووو؟ “۔ معمول جواب میں کہتے : ”جی بھائی! جی بھائی! “۔ اس کے بعد طویل مکالمے کا آغاز ہو جاتا۔

الطاف حسین تقریرکے دھنی تھے، وہ تقریر کا آغازاکثر حمد و ثنا اور تلاوتِ قرآن سے کرتے اور گانے کے کسی بول پر اس کا خاتمہ کرتے ہیں۔ بہ وقتِ ضرورت ٹھمکا لگانے سے بھی باز نہ آتے۔ سندھ کے سابق وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقارمرزا سے جن دنوں اختلافات چل رہے تھے، ایک پریس کانفرنس میں انھوں نے انھیں جس طرح دھمکی دی، اُس سے تفنن ِطبع کا پہلو پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ کو کچھ دیر کے لیے دل چسپ موضوع بھی مل گیا، الطاف حسین نے اس موقع پر سنجیدہ بات کرتے کرتے اچانک پینترا بدلا اور ذرا سی ترمیم کے ساتھ گانا شروع کردیا: ”برقعے میں رہنے دو، برقعہ نہ اٹھاؤ۔ برقعہ جو اٹھ گیا تو بھید کھل جائے گا، واللہ“۔ برقعے کا لفظ ادا کرتے ہوئے انھوں نے دائیں ہاتھ سے نقاب الٹنے کی ادا کاری اس خوبی کے ساتھ کی کہ لوگ لہلوٹ ہو کر رہ گئے۔

روتوں کو ہنسانا اور ہنستوں کو رلانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ یہ خوبی بہت سے مقرروں میں ہوگی لیکن دوران تقریر دھاڑیں مار کر رونے کا جو ملکہ انھیں حاصل ہے، اس کی مثال شاید ہی ملے۔ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے موقع پر ٹیلی ویژن کیمرے پر ان کی رونمائی یاد گار تھی۔ اس موقع پرانھوں نے اپنے جانے پہچانے انداز میں بس دو الفاظ ہی ادا کیے : ”شہیدِ انقلاب“۔ اس کے بعد انھوں نے دھاڑیں مار کر رونا اور ڈبہ ہاتھ میں لیے پاس کھڑے مستعد کارکن سے ٹشو پیپر لے کر آنسو پونچھنا شروع کردیے۔ ان کی تقریروں کے مستقل سامعین کو کئی مواقع یاد آسکتے ہیں جب ایسی صورت حال پیدا ہوئی جس کے سبب ماحول سنجیدہ اور جذباتی ہوگیا۔ لوگ نائین زیرو پر اس طرح کی تقاریر سنتے تو آنسو بہاتے، ٹیلی ویژن پر سنتے تو تاثیر مختلف ہوتی، انتہائی تکلیف دہ صورت حال میں بھی مسکراہٹ پر قابو پانا مشکل ہو جاتا۔

محبت کا جذبہ ان کی شخصیت کا نمایاں پہلو ہے۔ بے تاب محبت کے اس جذبے کا ایک مظاہرہ حیدر آباد میں ان کی 38 ویں سال گرہ کے موقع پر دیکھنے میں آیا جہاں ان کے پرستاروں نے ان کی عمر کی مناسبت سے 38 من وزنی اور کئی منزل اونچا کیک تیار کرایا جسے کاٹنے کے لیے انھیں ہاتھ میں تلوار پکڑ کر کئی فٹ اونچے اسٹیج پر چڑھنا پڑا۔ اس تقریب کا نکتہ وہ نغمہ تھاجسے بعد میں ایم کیو ایم کے سرکاری ترانے کا درجہ حاصل ہوا۔ الطاف حسین اسٹیج پر چڑھے تو پکا قلعہ گراؤنڈ اس ترانے سے گونج اٹھا: ”مظلوموں کا ساتھی ہے الطاف حسین“۔ جیسے ہی ترانہ بجنا شروع ہوا، الطاف حسین وجد میں آگئے، وہ تلوار فضا میں لہراتے، کمر لچکاتے اور ترانے کی دھن پر جھومنے لگتے۔ خود اپنی ہی شان میں محو رقص ہوجانے کے یہ دل فریب مناظر حیدر آباد والوں نے کھلی آنکھوں سے دیکھے۔

زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہوگا کہ اخبار میں ایک حیران کن خبر شائع ہوئی جس سے واضح ہوا کہ الطاف حسین محض سیاست دان نہیں، مہاجروں کے نجات دہندہ ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ایک برگزیدہ ہستی بھی ہیں، مظاہر فطرت کے ذریعے جس کے ثبوت نظر آنے لگے ہیں۔ ایم کیوایم کے لیٹر پیڈ پر جاری ہونے والی خبرمیں بتایا گیا کہ گھروں میں لگائے جانے والے ایک نمائشی پودے کروٹن کے پتے پر قدرت کی ”مہربانی“ سے الطاف حسین کی تصویر کا نقش ابھر آیا ہے۔ خبر کے ساتھ اس نقش کی اشاعت کا بھی اہتمام کیا گیا جس کسی نے بھی یہ ”کرامت“ دیکھی، الطاف حسین کی ”ولایت“ کا قائل ہو گیا۔

آئندہ چند ہفتوں کے دوران اسی نوعیت کے کچھ مزید واقعات رونما ہوئے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق چند پتھروں پر بھی ان کی شبیہ ابھری، اللہ کی قدرت دیکھئے کہ اس تصویر نے اپنے ظہور کے لیے بعض مساجد کی محراب کے سنگی مصلے کا انتخاب کیا جسے الطاف حسین کے فدائیوں نے اکھاڑ کر نائین زیرو پر ”قومی ’‘ یادگاروں کے مرکز میں نمائش کے لیے رکھ دیا۔ ان پتھروں کی“ زیارت ”کے لیے“ اہلِ ایمان ”نے جوق در جوق نائین زیرو کا رخ کیا۔ ان واقعات نے الطاف حسین کی“ بزرگی ”پر مہر تصدیق ثبت کر دی اور انھیں پیر صاحب کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔ اس زمانے میں انگریزی پریس میں جب بھی ان کا ذکر آتا، التزام کے ساتھ پیر آف عزیز آباد لکھا جاتا۔

ایم کیو ایم کا جھنڈا اس اعتبار سے منفرد ہے کہ اُس پر کوئی علامت بنانے کی بہ جائے ایک لفظ لکھا گیا: ”مہاجر“ لیکن جب آفاق احمد نے بغاوت کر کے اپنا دھڑا علیحدہ کر لیا اور اپنی شناخت کے لیے اُسی جھنڈے کو منتخب کیا تو الطاف حسین کے جذبہ محبت نے ایک بار پھر جوش مارا اور اُن کی خواہش پر ایم کیو ایم کے جھنڈے پر اپنا نام لکھنے کا حکم دیا گیا۔ یوں ایک نیا عالمی ریکارڈ وجود میں آیا اورایم کیو ایم اپنے جھنڈے پر بانی کا نام رقم کرنے والی دنیا کی پہلی سیاسی جماعت بن گئی۔

پیر صاحب نے اس زمانے میں کسی کام کو عار نہیں جانا حتیٰ کہ ماڈلنگ کو بھی عزت بخشی۔ ماڈلنگ کے لیے بنائی گئی تصویروں میں وہ اکثر سوٹ اور ٹائی میں مسکراتے ہوئے نظر آتے، ان تصویروں کے لیے ”مسٹر مہاجر“ کا عنوان منتخب کیا گیا۔ یہ الفاظ تصویر کے آخر یعنی مسٹر مہاجر کے پاؤں کے بالکل نیچے درج کیے جاتے۔ الطاف حسین کی سیاست کے اس کلیدی لفظ کے لیے جگہ کا انتخاب اس اعتبار سے اہم ہے کہ وہ اپنی تقریر میں اس لفظ کی مذہبی تقدیس کا ذکر کر کے اپنے مہاجر فلسفے کی حقانیت کا اظہار کیا کرتے۔ اس طرح کی ایک شان دار تصویر کراچی میں طارق روڈ کے ایک پرانے شاپنگ مال گلیمر ون کے صدر دروازے پر مدتوں نظر آتی رہی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3