عزیز آباد کا پیر عرف بانی ایم کیو ایم


ایم کیوایم نے بلدیہ عظمیٰ کراچی، بلدیہ اعلیٰ حیدر آباد، قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کرلی تو عمومی تاثر یہی تھا کہ الطاف حسین اب شہری سندھ کے سیاہ وسفید کے مالک بن چکے ہیں لیکن اقتدار کی طاقت بھی ان کی ”منکسر مزاجی“ پر اثرانداز نہ ہو سکی۔ یہی وجہ تھی کہ اگر وہ کسی سے ناراض بھی ہوئے تو انتقام لینے کی بجائے معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا۔ روایت ہے کہ ایسے مواقع پر وہ ایک شان بے نیازی کے ساتھ کہا کرتے کہ اللہ کی امانت ہے اللہ کے سپرد۔ کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی اپنے اس ”نیک دل“ بندے کی خواہش کا پاس کرتے اور اپنی امانت کو اپنے پاس بلانے میں تاخیر نہ کرتے۔

مہاجروں کے مسلمہ قائد اور ترجمان کی حیثیت سے تہذیبی و ثقافتی سرگرمیوں کی انھوں نے ہمیشہ سرپرستی کی، چناں چہ نائن زیرو پر اکثر ثقافتی تقاریب برپا ہوا کرتیں جن میں مشاعرے بھی شامل تھے۔ ایک مشاعرے میں جس کی صدارت الطاف حسین خود کررہے تھے، اپنے خطاب میں انھوں نے علامہ اقبالؒ کے علم و دانش اور مقام و منصب کے بارے میں نہایت سنگین نوعیت کے ”علمی“ سوالات اٹھائے، مشاعرے میں شریک ایک نابکار شاعر جن کی تاب نہ لاسکا۔ اس نے قریب بیٹھے کسی دوسرے شاعر کے کان میں کوئی ایسی بات کہہ دی جو الطاف حسین کے شایان شان نہ تھی۔ پیر صاحب تک یہ خبر پہنچی تو انھوں نے فراخ دلی سے کام لیتے ہوئے ہمیشہ کی طرح معاملہ اللہ کے سپرد کردیا۔ اللہ کی قدرت دیکھئے کہ کارکنانِ ”قضاؤ قدر“ نے اسے مشاعرے کی اسٹیج سے فوراً ہی اتار پھینکا، قریب تھا کہ اللہ کی ”امانت“ اس کے سپرد ہو جاتی مگر عبید اللہ علیم بیچ میں آ گئے اور معاملہ رفع دفع ہو گیا، ایسا نہ ہوتا تو بہت سے لوگ ان کی اس کرامت کے چشم دید گواہ بن جاتے مگرکیا کیجئے کہ اللہ کو یہ منظور نہ تھا۔

ان کے مخالفین ایک نعرے کا ذکر اکثر تنقیدی انداز میں کیا کرتے ہیں جس میں منزل کی بجائے رہنما کے حصول کی آرزو کی گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس نعرے کا اصل سبب وہ ناکامیاں تھیں جو اس جماعت کے حصے میں آئیں۔ یہ جماعت کوٹہ سسٹم کے خاتمے اور محصور پاکستانیوں کی پاکستان واپسی کے نعرے پر وجود میں آئی تھی، اسی کے زورپر اقتدار کے ایوانوں تک بار بار پہنچی لیکن نہ کوٹہ سسٹم اپنے انجام کو پہنچا اور نہ محصورین کی وطن واپسی ممکن ہوسکی۔ بلاشبہ یہ ایک ناکامی ہے مگر لوگ اس معاملے میں انصاف سے کام نہیں لیتے۔ الطاف حسین جیسے طاقت ور سیاست داں کے لیے کیا مشکل تھا کہ وہ بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف یا پھر جنرل پرویز مشرف سے کہہ کر چشم زدن میں یہ مسائل حل کرا لیتے لیکن اس کے نتیجے میں پرانے سندھی اور خاص طور پر سندھی قوم پرست آزردہ خاطر ہوتے لیکن دل شکنی ان کا مشرب نہیں۔

ویسے بھی اب وہ کسی خاص قومیت سے دست بردار ہو کرمتحدہ قومیت کے علم بردار بن چکے تھے۔ متحدہ قومیت کی بات کرنا اور دوسری قومیتوں کو دکھ پہنچانا، یہ کوئی اچھی بات ہوتی؟ لوگوں کی دل جوئی کے معاملے میں الطاف حسین اپنے پیش رو سیاست دانوں اور حکمرانوں سے کہیں آگے تھے۔ بھٹو صاحب نے آئین میں کوٹہ سسٹم کو دس برس کے لیے تحفظ دیا، جنرل ضیا الحق اس میں صرف دس برس کی توسیع کرسکے لیکن الطاف حسین کی وسیع القلبی دیکھئے، انھوں نے بہ یک وقت بیس برس توسیع کی سفارش کی اور اپنے ”مقصد“ میں کامیاب رہے، اس کے باوجود کوئی انھیں تنگ نظر قرار دیتا ہے تو یہ اس کا اپنا ظرف ہے۔

روزمرہ کی سیاست اور تنظیم کی تھکا دینے والی بے پناہ مصروفیت کے باوجود اصلاح ِمعاشرہ کا عظیم مقصد ہمیشہ ان کے پیش نظر رہا۔ 80 ء کی دہائی کے دوران میں ملک کے مختلف حصوں، خاص طور پر کراچی میں ڈبو کا کھیل بہت مقبول ہوا۔ شہر کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جہاں گلی کوچوں میں ڈبو کی میزیں نہ سجتیں، الطاف حسین نے اس معاشرتی ”برائی“ کے خلاف آواز اٹھائی اور اپنی تقریروں میں ڈبو کے آزمودہ کار کھلاڑیوں کی طرح مٹھی گھما گھما کر اس کی مذمت کی۔

دیکھتے ہی دیکھتے ڈبو شاپس بند ہونے لگیں، مخالفین نے کہا کہ ہزاروں لوگ بے روزگار ہوگئے۔ اس الزام میں کچھ صداقت بھی ہو گی مگربڑے مقاصد کے لیے چھوٹی چھوٹی ”قربانیاں“ تو دینی ہی پڑتی ہیں۔ الطاف حسین نے ڈبو کی دکانیں بند کرائیں تو نوجوان اس ”فضول“ مشغلے کو چھوڑ کر زیادہ ”بہتر“ مشاغل کی طرف متوجہ ہوئے اورکراچی کے لوگوں نے ہلالی خنجر کو اپنی آنکھوں سے اس شہر کا ’‘ قومی نشان ”بنتے دیکھا۔

الطاف حسین چین سموکرتھے لیکن اس کے باوجود انھوں نے سگریٹ نوشی پر پابندی عائد کردی کیوں کہ اپنی صحت سے زیادہ انھیں قوم کی صحت عزیز تھی۔ شہر اس زہر کے دھویں سے ”پاک“ ہوگیا، پان بیڑی فروخت کرنے والے ٹھیلے اور دکانیں ویران ہوگئیں۔ شہر ”قائد“ میں رونما ہونے والا یہ واقعہ کسی انقلاب سے کم نہ تھا لیکن بدخواہوں نے اس میں بھی مین میخ نکالی، کہا گیا کہ اس کے پس پشت کئی ناگفتنی کہانیاں تھیں، کچھ ایسے معاملات جن کے سدباب کے لیے اس صنعت کے لوگوں کو بھی ذرائع ابلاغ کی دنیا میں قدم رکھنا پڑا۔

بات یہ ہے کہ لوگ تصویر کا تاریک پہلو ہی دیکھتے ہیں، یہ نہیں سوچتے کہ اس شرمیں بھی خیر کے کئی پہلو پوشیدہ تھے۔ یہ الطاف حسین کی سیگریٹ نوشی کے خلاف مہم ہی کا صدقہ ہے کہ آج ہزاروں لوگ اس کے نتیجے میں جنم لینے والے اداروں سے رزق پاتے ہیں اور انھیں دعا دیتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ الطاف حسین اپنی وضع کے درویش اور بے ریا صوفی تھے جنھوں نے اپنی ذات حتیٰ کہ نیک نامی کو بھی داؤ پر لگا کر اللہ کی مخلوق کو فیض پہنچایا۔ اپنے ان ہی ”اوصاف حمیدہ“ کے باوصف انھیں تادیر یاد رکھا جائے گا، باقی اللہ علیم وخبیر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3