قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا مدعی “لڑکی کا بھائی” نکلا


ملک کے سیاسی، قانونی اور صحافتی حلقوں میں یہ سوال کئی روز سے گردش کر رہا ہے کہ عبد الوحید ڈوگر نامی شخص کون ہے جس نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس کے کے آغا کے خلاف شکایت درج کرائی ہے؟ آخر کار معمہ حل ہوگیا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے دو ججوں کے خلاف مدعی وہی شخص ہے جس نے صحافی احمد نورانی کے خلاف ان پر 27 اکتوبر 2017 کے حملے کے بعد ’لڑکی کے بھائی‘ کے عنوان سے مشہور جعلی خبر دی تھی۔ عبد الوحید ڈوگر اسلام آباد میں قائم ایک خبر ایجنسی کے لئے کام کرتے رہے ہیں۔

باوثوق  ذرائع کو دستیاب دو قابل احترام ججوں کے خلاف ریفرنسز کی نقول کے مطابق عبد الوحید ڈوگر نے وزیر اعظم دفتر کے ایسیٹس ریکوری یونٹ (اے آر یو) کو 10 اپریل 2019 کو شکایت کی اور اس شکایت کی بنیاد پر سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کو ریفرنس بھیجا گیا۔ یہ شکایت درج اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے فیض آباد دھرنا کیس میں فیصلہ سنانے کے 10 ہفتے بعد درج کرائی گئی تھی۔ روزنامہ دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے عبد الوحید ڈوگر نے تصدیق کی کہ انہوں نے اپنے ذرائع سے چند معلومات حاصل کرنے کے بعد ججوں کے خلاف شکایت درج کرائی۔

یاد رہے کہ 27 اکتوبر 2017 کو صحافی احمد نورانی پر آبپارہ، اسلام آباد کے قریب حملہ کیا گیا تھا اور نورانی شدید زخمی ہوگئے تھے اور ان کے سر پر کئی زخم آئے تھے۔ تاہم احمد نورانی جانبر ہو گئے۔ احمد نورانی پر حملے کے چار روز بعد 31 اکتوبر 2017 کو عبدالوحید ڈوگر نے مقامی اردو اخبار میں ایک خبر دی کہ احمد نورانی پر حملہ ایک لڑکی کے ساتھ ناجائز تعلقات کا شاخسانہ تھا۔ عبدالوحید ڈوگر کی خبر میں مبینہ لڑکی یا حملہ آوروں کی کوئی تفصیلات نہیں تھیں۔ یہ بے سروپا خبر اپنی مضحکہ خیزی کے باعث سوشل میڈیا پر ’لڑکی کے بھائی‘ کے عنوان سے مقبول ہو گئی۔

واقعے کی جیو فینسنگ میں عدم تعاون کے باعث احمد نورانی پر حملے کی تحقیقات مکمل نہیں ہو سکیں۔ اس موقع پر عبدالوحید ڈوگر کی خبر نے کام کیا اور تمام تر توجہ مجرمان کو ڈھونڈنے کے بجائے ’لڑکی کے بھائی‘ والی خبر پر ٹھہر گئی۔ بعد میں جب غبار چھٹ گیا اور مذکورہ مقامی اخبار سے اس خبر کے شواہد بالخصوص مبینہ لڑکی اور اور اس کے بھائیوں کی شناخت کے بارے میں سوال کیا گیا تو ڈوگر اور اس کے ادارے نے احمد نورانی سے معافی مانگ لی اور 8 دسمبر 2017 کو معذرت شائع کردی۔

اب جب دی نیوز نے عبد الوحید سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ انہوں نے “اپنے ذرائع سے چند معلومات حاصل کرنے کے بعد” اس کی خبر کیوں شائع نہ کی اور ججوں کے خلاف درخواست دینے کو ترجیح کیوں دی تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں ان کے ذرائع سے معلومات حاصل ہوئی ہیں اور جیسا کہ خبر کی اشاعت ممکن نہ تھی اس لئے انہوں نے مناسب سمجھا کہ وہ اے آر یو کو درخواست بھیجیں۔

عبدالوحید ڈوگر کا کہنا تھا کہ کئی تحقیقی رپورٹرز کئی کیسز میں فریق بن گئے ہیں اور عدالتوں میں درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔ میں پہلا شخص نہیں جو کسی کیس میں فریق بنا ہوں۔ پاکستان کا شہری ہونے کی حیثیت سے میں پاکستان میں آئین اور قانون کی حکمرانی چاہتا ہوں۔ اگر ان اثاثوں کی خریداری کے لئے رقم قانونی ذریعے سے باہر بھیجی گئی ہے تو اسے ثابت کیا جانا چاہیے۔ عبدالوحید ڈوگر کا کہنا تھا کہ انہوں نے ججوں کے خلاف درخواست ثبوت کے ساتھ داخل کی ہے۔

اگرچہ ڈوگر سے ان کے ذرائع ظاہر کرنے کو نہیں کہا گیا، تاہم انہوں نے خود ہی کہہ دیا کہ وہ اپنے ذرائع ظاہر نہیں کر سکتے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ دی نیوز بھی سیاستدانوں کے بیرون ملک اثاثوں کے حوالے سے مختلف تحقیقات کر رہا ہے خصوصاً برطانیہ میں اور مختلف سرکاری محکموں سے دستاویزات حاصل کر رہا ہے تو انہوں نے کس طرح پراپرٹی دستاویزات حاصل کر لیں؟ ڈوگر اس بات کا جواب نہیں دے سکے کہ انہوں نے برطانیہ میں کس ادارے سے یہ دستاویزات حاصل کیں؟

صحافی احمد نورانی کے خلاف ’لڑکی کے بھائی‘ والہ خبر کے حوالے سے سوال پر عبدالوحید ڈوگر کا کہنا تھا کہ کشمیر ہائی وے پر ایک چیک پوسٹ پر تعینات پولیس جوان نے انہیں اطلاع دی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ بعد میں انہوں نے ان اطلاعات کی تصدیق کی اور خبر فائل کردی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے کونسی اطلاعات کی تصدیق کی تو ڈوگر نے جواب دیا کہ پولیس جوان نے انہیں بتایا کہ نورانی پر موٹر سائیکل پر سوار دو افراد اور ایک کار سوار نے حملہ کیا جبکہ نورانی کا کہنا تھا کہ ان پر حملہ کرنے والے افراد دو موٹر سائیکلوں پر سوار تھے۔

 ڈوگر کا کہنا تھا کہ نورانی نے کار کا تذکرہ پتہ نہیں کیوں نہیں کیا۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کے پاس لڑکی کی خبر سچی ہونے کا بس یہی ثبوت تھا کہ نورانی نے حملہ آور کار کا ذکر نہیں کیا تو ڈوگر کا کہنا تھا کہ اہم بات یہ ہے کہ حملہ آوروں کی کار کا انکشاف بیان میں کیوں نہیں کیا گیا۔ عبدالوحید ڈوگر کا کہنا ہے کہ وہ ان دو ججوں کے خلاف ریفرنس پر مزید تبصرہ نہیں کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).