فائز عیسیٰ ریفرنس کی پہلی سماعت: حکومتی حلقوں میں اضطراب کے واضح آثار 


ججز کے خلاف جوڈیشل ریفرنس مین پہلے روز کی سماعت کے بعد حکومتی حلقوں میں اضطراب کے واضح آثار نمودار ہو گئے۔ بیورو کریسی میں عام تاثر یہ ہے کہ کارروائی کے نتائج کسی بھی جانب جا سکتے ہیں۔

سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس کے بعد اٹارنی جنرل انور منصور خان بھی پریشان نظر آئے۔ جب کہ وفاقی وزرا کا بھی کہنا تھا کہ صورتحال پر تسلی بخش رپورٹس موصول نہیں ہو رہی ہیں۔

تفصیلات کے مطابق،سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس کے بعد جہاں سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کی سماعت کر رہے ہیں، حکومت کا کوئی اچھا تاثر نہیں جارہا ہے۔ اس ضمن میں دی نیوز نے جب وفاقی حکومت کے ایک ماہر قانون دان سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہر کسی کی نظریں کیس پر جمی ہوئی ہیں کیونکہ اس کارروائی کے نتائج کسی بھی جانب جا سکتے ہیں۔ ہم نے متعلقہ حکام سے رابطے کیے ہیں تاہم ہمیں مکمل مثبت جواب موصول نہیں ہوئے ہیں۔

سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ بلڈنگ اسلام آباد میں منعقد ہوا جو کہ ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہا۔ اجلاس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس کریم خان آغا کے خلاف صدارتی ریفرنس کا جائزہ لیا گیا۔

وفاقی کابینہ کے دو وزرا نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس صورتحال پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں بھی اس صورتحال پر تسلی بخش رپورٹس موصول نہیں ہورہی ہیں۔ سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس ختم ہونے کے بعد اٹارنی جنرل انور منصور خان جب سامنے آئے تو جیو نیوز کے نمائندہ خصوصی عبدالقیوم صدیقی نے ان سے سوالات کیے۔ جس پر انہوں نے خاموشی اختیار کیے رکھی۔ ان کے چہرے پر بھی پریشانی کے آثار نمایاں تھے۔

سپریم کورٹ عمارت کے باہر بھی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکلا اور پاکستان بار کونسل کے ارکان مسلسل حکومت اور مختلف محکموں کے خلاف نعرے لگاتے رہے ۔

(اعزاز سید)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).