ذکر حلال پر بھی ہے فتوی حرام کا


گاہ بگاہ حلال حرام پر بات ہوتی رہتی ہے۔ معصوم مسلمانوں کو بتایا جاتا ہے کہ حلال کیا ہے۔ یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ کیا کیا حرام ہے۔ حلال وہ جس کی اجازت ہے حرام وہ جو جس کی ممانعت ہے۔

عجیب بات یہ ہے کہ یہ ساری حلال حرام کی باتیں کھانے سے متعلق ہیں۔ کھانے پینے کی چیزوں پر سب ہی متفق ہیں وہ یہ ہیں مردہ جانور، بہتا خون، خمر اور خنزیر لیکن پھر بھی بحثیں ہوتی رہتی ہیں۔ نئے نئے ایشوز کھڑے کیے جاتے ہیں۔ کبھی جھینگا حرام ہے کبھی خرگوش حرام ہے۔ کوئی مور اور ٹڈی کو حلال ثابت کر رہا ہے اور کوئی طوطا اور چایئنیز سالٹ کو حرام۔ کبھی گھوڑے اور گدھے پر بحث ہو رہی ہے اور اب بھینس کے بارے میں شکوک پیدا کیے جا رہے ہیں۔

بھینس کا دودھ اور دہی تو بڑے شوق و ذوق سے استعمال کیا جاتا ہے اب اس کے گوشت پر یہ بحث کیوں؟ مولوی حضرات حرام اشیا کی نت نئی فہرستیں تیار کرتے رہتے ہیں۔ اور لوگ تحقیق کرنے کے بجائے چپ چاپ تسلیم کر لیتے ہیں۔ بنیادی حرام چیزوں کے علاوہ باقی کی حرام چیزیں کی فہرست حدیثوں کی روشنی میں بنائی گئی ہیں اور اسے اللہ کا حکم قرار دیا۔ حلال، حرام، مکروہ اور مشکوک کی فہرستیں بنتی اور بڑھتی جا رہی ہیں۔ ہر فرقے کی الگ الگ فہرستیں ہیں۔

جب سے چین نے پاکستان سے گدھوں کی کھالیں خریدنی شروع کیں گدھوں کی ڈیمانڈ بڑھ گئی۔ گدھے کی تازہ کھال سے ”ایجیاؤ“ جیلاٹن بنایا جارہا ہے جو سردی لگنے سے لے کر بے خوابی، خون کی کمی پوشیدہ بیماریوں کے علاج سے لے کر بیوٹی پروڈکٹس تک میں استعمال ہوتا ہے۔ ”ایجیاؤ“ کو چینی معاشرے میں ایک خزانے کی حیثیت حاصل ہے جس کی چین میں طلب روزبروز بڑھتی جارہی ہے۔ اب کھالیں تو چین خرید رہا ہے لیکن گدھے کے گوشت کا کیا کیا جائے؟ یوں ضائع تو نہیں کیا جا سکتا نا۔ تو اسلام کے نام پر بنائے جانے والے ملک میں گدھے کا گوشت بکرے کا بنا کر بیچا جانے لگا۔

مولوی حضرات یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ شریعت میں درج حرام اشیاء کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اور مسلم عوام اس دعوے کو بلا کسی تحقیق کے مستند مانتے ہیں۔ حالانکہ بحیثیت مسلمان ان پر لازم ہے کہ وہ اس دعوے کی تصدیق کریں کیونکہ اس کا اثر ان کی روزمرہ کی زندگی پر براہ راست پڑ رہا ہے۔ ایک سوال جو ان سب کے لئے بہت اہم ہے وہ یہ کہ کیا واقعی شریعت میں درج تمام حرام اشیاء کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے یا اس فہرست کا بیشتر حصہ انسانی خود ساختہ ہے۔

اب بات کرتے ہیں خمر کی، یعنی نشے کی۔ خمر کو ہم عام طور پر شراب، الکحل اور دوسری منشیات سے لیتے ہیں۔ یعنی یہاں بھی صرف کھانے پینے ہی تعلق جوڑا جاتا ہے۔ خمر یعنی نشہ دولت کا بھی ہوسکتا ہے اور طاقت کا بھی۔ حسن کا بھی اور اپنی اونچی ذات کا بھی۔ اور خمر حرام ہی ہے۔ خمر کا مطلب ہے پردہ ڈالنا یعنی ہروہ چیز جو آپ کی عقل پر پردہ ڈال دے، جس کے زیر اثر آ کر آپ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھے ہیں یا دوسروں کی عزت، وقار اور کردار کی توہین کرتے ہیں آپ پر حرام ہے۔

لیکن معززین آپ یہ بھی تو جانتے ہی ہوں گے کہ حلال حرام صرف کھنے پینے کی چیزوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ کچھ اور بھی ہے جو حرام ہے۔ وہ لقمہ جو آپ نے کسی اور کے دہن سے چھین کر اپنے منہ میں ڈالا ہے وہ تو حرام ہے ہی لیکن وہ پیسہ جو آپ کا نہیں ہے لیکن آپ کے پاس ہے۔ وہ رقم جو آپ نے ٹیکس میں گھپلا کر کے بچائی ہے۔ وہ رشوت جو آپ نے حق سمجھ کر لی ہے۔ حرام ہے۔ یتیم کا مال اور بیوہ کی چادر بھی آپ پر حرام ہے۔

۔ عجیب دوغلے پن کا عالم ہے بینک کا سود حرام ہے لیکن بینک کی نوکری حلال۔ کمیشن اور کک بیکس حلال۔ رشوت دے کر فائلوں کو پہیے لگا کر کام کروانا، لوگوں کی زمینوں پر زبردستی قبضہ کرنا لیکن ساتھ میں ایک مسجد بنا دینا کیا سب حلال کر دیتا ہے؟

منشیات بیچنا، جعلی دوایئں بنانا، ملاوٹ والی چیزیں اصلی بنا کر پیش کرنا، لوگوں کو دھوکہ دینا اور جھوٹی گواہیاں دینا یہ سب بھی تو حرام ہے۔ ہے نا؟

اور وہ جو جھوٹ بول بول کر آپ کسی معصوم لڑکی کی زندگی سے کھیلتے ہیں پھر اسے بلیک میل کرتے ہیں وہ بھی اتنا ہی حرام ہے جتنا بہتا ہوا خون پینا۔ وہ جو لڑکی دفتر میں کام کرنے آئی ہے حالات سے مجبور ہو کر یا اپنے شوق کی خاطر وہ ہرگز آپ کی دلبستگی کا سامان نہیں ہے۔ آپ کا ارادہ تو کیا آپ کی ایسی سوچ بھی حلال نہیں۔

مغربی ممالک میں رہنے والے دیسی لوگ خوب جانتے ہیں کہ حکومت کو کیسے دھوکہ دینا ہے۔ فلاحی ریاستوں میں شہریوں کی ذمہ داری حکومت لیتی ہے۔ بیماری کی رخصت لے کر ویلفیئر لینا اور ساتھ ہی چھپ چھپا کر کام کرنا اور پیسے لینا ان کے لئے حلال سہی لیکن یہ ہے حرام، اتنا ہی جتنا خنزیر کا گوشت۔

فلاحی ریاستوں میں طلاق یافتہ خاتون یا اکیلی ماں یعنی سنگل مدر کو اضافی مراعات ملتی ہیں۔ دیسی بھائیوں نے سوچا ہمیں بھی استفادہ کرنا چاہیے۔ اب کاغذوں میں ان کے بیچ علیحدگی ظاہر کر دی گئی لیکن ساتھ رہتے ہیں۔ کیونکہ اسلامی اور شرعی طلاق نہیں دی۔ اس قسم کی دھوکہ دہی میں خواتین بھی شریک ہیں۔ صاحبان یہ بھی ایسا ہی جیسے آپ مردار کھا رہے ہیں۔

نیو ایئر اور ویلنٹاین ڈے منانا حرام ہے لیکن ایک کم عمر بچی کو خرید کے اس سے شادی کرنا عین حلال۔ کسی غیر مسلم لڑکی کو اغوا کر کے اسے زبردستی مسلمان کر کے اس سے نکاح کرنا آپ کے نزدیک نہ صرف حلال ہے بلکہ عین ثواب بھی ہے۔ عورت اپنی زندگی کا ساتھی چنے تو حرام لیکن مرد کو کئی بیویاں اور ساتھ میں لونڈیاں بھی حلال۔ نکاح کو پوشیدہ رکھنا بھی آپ کے لئے حلال نہیں ہے۔

اللہ نے تو صرف چاراقسام کی اشیاء کو کھانا حرام قرار دیا ہے۔ لیکن مولوی حضرات اپنی فہرست کو طویل کیے دے رہے ہیں۔ دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ قرآن نے جن کو حرام قرار دیا ہے وہ بنیادی اشیاء ہیں اور ان کے علاوہ جو دوسری اشیاء ہیں ان کو احادیث کی رو سے حرام قرار دیا گیا ہے یعنی بقول ان کے رسول اللہ نے ان کو حرام قرار دیا ہے۔ اب کون بحث کرے کون ثبوت مانگے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اللہ کے رسول کسی ایسی چیز کو حرام قرار دے سکتے ہیں جس کو اللہ نے حرام قرار نہیں دیا ہو؟ قرآن اس بارے میں بالکل واضح ہے کہ اللہ نے کسی دوسرے کو یہ اختیار نہیں دیا کہ وہ کسی ایسی شے کو حرام قرار دے جسے اللہ نے حرام قرار نہ دیا ہو۔

کہہ دو وہ کون ہے جو زینت کی چیزوں کو جو اللہ نے اپنے بندوں کے لئے نکالی ہیں اور کھانے کی خوشگوار چیزوں کو حرام قرار دے؟ خدا نے تو رسول اللہ کو کسی ایسی چیز کو اپنی ذات پر بھی حرام کرنے کی اجازت نہیں دی جسے اس نے حرام قرار نہ دیا ہو۔

اے نبی۔ کیوں آپ اسے حرام کرتے ہیں جسے اللہ نے آپ کے لئے حلال کیا ہے؟ (التحریم۔ 1 ) ۔

اجتہاد کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔ مولوی حضرات کفر کا فتوی ہاتھ میں لئے پھرتے ہیں۔ ذرا کسی نے منہ کھولا اور فتوے کی چوٹ سے مجروح ہوا۔

اس قسم کی مذہبی انتہا پسندی، دین سے ناواقفیت اور اجتماعی منافقت کا یہ نتیجہ ہوا کہ اب کوئی کچھ کہتے ہوئے بھی ڈرتا ہے۔ لوگ سوال کرنا بھول چکے ہیں۔ سوچنے تک پر پابندی ہے چہ جایئکہ کوئی سوال اٹھائے۔ ذکر حلال پر بھی ہے فتوی حرام کا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).