وقت آ گیا ہے کہ ہم بھی آسمان کی طرف دیکھیں


مرض تھا اور ایسا کہ ناقابل بیان! طبیب سر جوڑ کر بیٹھے مگر تشخیص نہ کر پائے۔ کئی دن کے بعد ایک طبیب نے کہ ممتاز تھا، کہا بادشاہ کو فلاں بیماری ہے اور علاج اس کا ایک ہی ہے۔ نوجوان شخص کا پِتّہ! اور وہ نوجوان شخص بھی فلاں فلاں خاصیتوں کا حامل ہو! سرکاری گماشتے سلطنت میں پھیل گئے۔ بالآخر ایک دہقان زادہ ملا جس میں مطلوبہ خاصیتیں موجود تھیں۔ اس کے ماں باپ کو سمجھایا گیا کہ رعایا میں سے ایک نوجوان کی قربانی سربراہ ملک کی سلامتی کے لئے کیا معنی رکھتی ہے۔

ساتھ ہی زر وسیم بہت سا پیش کیا گیا۔ ماں باپ راضی ہو گئے۔ عدالت میں قاضی نے فتویٰ دے دیا کہ یہ قربانی جائز ہے۔ جلاد جب نوجوان کی گردن تن سے جدا کرنے کے لئے تلوار اٹھانے لگا تو نوجوان نے فلک کی طرف دیکھا اور ہنسا! بادشاہ نے پوچھا یہ ہنسنے کا کون سا موقع ہے نوجوان نے جواب دیا، اولاد کے ناز ماں باپ اٹھاتے ہیں، میرے ماں باپ نے خود میرا سودا کر دیا۔ انصاف کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے۔ یہاں میرے قتل کا جواز خود عدالت نے تراشا ہے۔

آخری امید حکمران ہوتا ہے۔ اسے اپنی جان بچانے کے لئے میرا خون درکار ہے۔ اب سوائے خدا کے اور کوئی نہیں جو مجھے بچائے۔ اس لئے آسمان کی طرف دیکھا کہ وہی آخری امید ہے ؎ فلک کو بار بار اہل زمیں یوں دیکھتے ہیں کہ جیسے غیب سے کوئی سوار آنے لگا ہے اس سے آگے کیا ہوا؟ اس کا موضوع سے کوئی تعلق نہیں۔ پھر بھی سن لیجیے کہ تجسس بے چین نہ رکھے۔ یہ درد بھرا بیان سن کر بادشاہ نے قتل روک دیا اور کہا کہ یہ بے گناہ کا خون بہانے سے بہتر ہے میں خود ہی جان دے دوں۔

سعدی بتاتے ہیں کہ اسی ہفتے حکمران شفایاب ہو گیا۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم بھی آسمان کی طرف دیکھیں کہ زمین پر جن سے امیدیں تھیں وہ زخم سہلانے کے بجائے زخم کھرچ رہے ہیں! اس نام نہاد جمہوری مملکت میں تکیہ میڈیا پر تھا مگر افسوس! بڑے بڑے جغادری کالم نگار، اینکر پرسن، صحافی، مدیر، کرپشن کے عفریت سے یوں بے نیاز ہیں جیسے یہ عفریت نہ ہو، گوشت پوست کا عام انسان ہو، جسے زندہ رہنے کا پورا حق حاصل ہے۔ نواز شریف پر پانامہ کے مقدمے چلے تو ملک کے مستقبل سے بے نیاز ان دانش وروں کو شریف فیملی کے مستقبل کی فکر پڑ گئی۔

جتنے تجزیے تھے اور تبصرے اور کالم سب میں یہی اندازے تھے کہ مریم نواز کا مستقبل کیا ہے؟ حمزہ شہباز کو پنجاب کی راجدھانی کیسے ملے؟ نواز شریف دوبارہ کب برسر اقتدار آئیں گے اور کیسے؟ کچھ اصحاب جنوں نے تو یہ ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا کہ پنجاب، شہباز شریف ہے اور شہباز شریف پنجاب! ایک معزز دوست نے یہ تک دعویٰ کیا کہ پنجاب میں جس طرف سے داخل ہوں، ترقی ہی ترقی نظر آتی ہے! جغرافیے کی ستم ظریفی یہ ہوئی کہ سارے پنجاب سے پیسہ نچوڑ نچوڑ کر شہباز شریف نے جس شہر پر لگایا اس میں داخل ہونے کے لئے پنجاب کے باہر سے نہیں پنجاب کے اندر سے آنا پڑتا ہے۔

پنجاب میں داخل ہونے کے لئے ایبٹ آباد سے آنا پڑتا ہے یا خیر آباد سے، یا خوشحال گڑھ سے، یا جنوبی پنجاب سے، یا آزاد کشمیر سے اور یہ سب وہ علاقے ہیں جو خادم اعلیٰ کو دکھائی ہی نہیں دیتے تھے! اب زرداری صاحب گرفتار ہوئے ہیں تو ان اصحاب جنوں کو ان کی کرپشن نہیں نظر آ رہی! ان کے معلوم اثاثے، جو کئی صفحات بھر دیتے ہیں دکھائی نہیں دیتے۔ تجزیے ہو رہے ہیں کہ وہ مفاہمت کے ماہر ہیں، پھر کیوں گرفتار ہو گئے؟

انہیں باہر لانے کے لئے کیا کچھ کرنا پڑے گا؟ کیا تحریک چلے گی؟ حکومت گرے گی یا نہیں؟ مریم نواز اور بلاول زرداری کے درمیان پیدا ہونے والی ہم آہنگی کچھ کر دکھائے گی یا نہیں؟ پیپلز پارٹی کی چلائی جانے والی تحریک سے حکومت کا تخت لرزنے لگے گا یا نہیں؟ سرکاری خرچ پر عمرہ کرنے والی ایک خاتون دور کی کوڑی لائی ہیں کہ اپوزیشن اتحاد کا مظاہرہ کرے اور اسمبلیوں سے استعفے دے دے تاکہ نئے انتخابات کا ڈول ڈالا جا سکے۔

میڈیا کے ان بزرجمہروں کو اس سے قطعاً کوئی سروکار نہیں کہ زرداری اور شریف خاندانوں کے پاس کھربوں کی دولت، جائیدادیں، کارخانے۔ زرعی زمینیں۔ کہاں سے آئیں؟ دبئی سے لے کر لندن تک فرانس سے لے کر نیو یارک تک محلات اور اپارٹمنٹس کس دولت سے خریدے گئے۔ یہ دولت ملک سے باہر کیسے گئی؟ ان اصحاب جنوں کو صرف ”جمہوریت“ سے غرض ہے۔ ایسی ”جمہوریت“ جو ان دو تین خاندانوں کے گرد طواف کرتی رہے۔ یہ دو تین خاندان جن کے بچے ابھی سے بادشاہوں جیسا پروٹوکول لے رہے ہیں۔

کبھی خبر آتی ہے کہ مریم نواز کے چیف سکیورٹی افسر کی گاڑی موٹر وے ٹول پلازے پر روکی گئی اور کبھی بتایا جاتا ہے کہ اس کے سکیورٹی سکواڈ کی گاڑی ریل گاڑی کے راستے پر کھڑی کر دی گئی۔ سیاسی حرکیات کا تمام ادراک ان خاندانوں کے لئے مخصوص ہے۔ میڈیا کے بعد دوسرا سہارا جمہوری ملکوں میں پارلیمنٹ ہوتی ہے۔ مگر جس پارلیمنٹ میں پشتینی گدیاں یوں محفوظ ہوں جیسے بتیس دانتوں میں زبان، وہ پارلیمنٹ جمہوریت کی حفاظت کیا کرے گی!

مفتی محمود صاحب کی تیسری نسل، اس پارلیمنٹ میں ایک اور زیرک اور ذہین مولانا کی صورت میں جلوہ گر ہو رہی ہے کل جو تصویر دیکھی، اس سے ملک کا مستقبل یوں صاف نظر آنے لگا جیسے سامنے فلم چل رہی ہو۔ مونس الٰہی، بلاول بھٹو کو گلے مل رہے ہیں۔ گلے ملنا کوئی جرم نہیں مگر کھلتے ہوئے چہرے اور والہانہ پن بتاتا ہے کہ مفادات مشترک ہیں۔ لڑائی جھگڑا سب بچوں کے جھگڑوں کی مثال ہے۔ ابھی جھگڑے، ابھی دوبارہ اکٹھے کھیل رہے ہیں۔

کبھی کبھی یوں لگتا ہے عمران خان، نادانستہ، مراعات یافتہ سیاسی طبقات کے لئے سیڑھی کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔ جیسے اس پکڑ دھکڑ سے کچھ بھی نہ برآمد ہو گا اور جیل سے سیدھا مسند وزارت پر پہنچنے کی روایات مستقبل میں بھی جاری رہیں گی۔ جیسے گجرات۔ صرف اپنی نہیں، لاڑکانہ اور رائے ونڈ کی بھی نمائندگی کر رہا ہو! اور کہہ رہا ہو کہ ؎ تو وہاں، زیر افق، چند گھڑی سستا لے میں ذرا دِن سے نمٹ کر، شبِ تار! آتا ہوں میڈیا بھی ان طبقات کا زر خرید۔

پارلیمنٹ بھی ان کی جاگیروں کا ایک بے بضاعت، نمائشی ٹکڑا! دور دور تک سحر کے آثار نہیں! کیا بخت پایا ہے پاکستان جیسے ملکوں نے۔ صوبے دیکھیے تو قبائلی سرداروں کی ازلی ابدی حکمرانی! وہی مخدوم! وہی قریشی، وہی گیلانی، وہی کھوسے وہی لغاری، وہی باچا خان کا خاندان! سیدہ عابدہ حسین کی نئی نسل سیاسی گدی سنبھال چکی! صدر ایوب خان ایک اور شکل میں اب بھی حکمرانی کے مزے لوٹ رہے ہیں، اوجڑی کیمپ کی بھٹی میں تپ کر کندن بننے والے خاندان پیش منظر پر چھائے ہوئے ہیں!

وفاق، بازو وا کیے شریفوں اور زرداریوں کا منتظر ہے! کہیں ایسا تو نہیں کہ عمران خان جذبے کی صداقت کے باوجود حالات کے چنگل میں جکڑے، بے بس ہیں! کیا بے بسی ہے کہ اُنہی علی جہانگیر صدیقی کو جو گزشتہ حکومت کی آنکھ کا تارا تھے، موجودہ وزیر اعظم کا سفیر عمومی مقرر کیا جا رہا ہے۔ ع خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا
بشکریہ روزنامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).