سرکار کی نوکری کے مزے


میرا ایک دوست بینک میں ملازم تھا۔ کام کرتے کرتے اکثر خیالوں میں کہیں دورنکل جایا کرتا تھا۔ اس کے عقلمند مینیجر نے چند ہی دنوں میں بیماری کی تشخیص کرلی کہ موصوف تصور جاناں کئیے کسی بند گلی کا طواف کرتے رہتے ہیں۔ کچی نوکری میں بیماری کا پتہ چل جائے تو نسخہ ایک ہی ملتا ہے، ”مہربانی فرما کر کل سے کام پرتشریف نہ لائیے گا“۔ جب میرا دوست یہی نسخہ ہاتھ میں لئے میرے پاس کسی اچھے وکیل کا پتہ کرنے آیا تو پہلی دفعہ مجھے احساس ہوا کہ سرکاری نوکری تو بہت بڑی نعمت ہے۔

ہمارے دفتر کا ایک مالی عرصے سے کام کے اوقات میں دفتر کے باہر پھلوں کی ریڑھی لگاتا ہے، لیکن مجال ہے اس نے کبھی اپنی نوکری پر حرف آنے دیا ہو۔ اس کاکہنا ہے، ”دفتر میں فارغ رہ کر حرام کھانے سے بہتر ہے بندہ باہر محنت کرکے حلال رزق کمائے“۔ کسی نے اس سے پوچھا، ”تمہیں نہیں لگتا دفتر کے مرجھائے ہوئے پودے تمہیں بد دعا دیتے ہوں گے؟ “
اس نے جواب دینے کے بجائے الٹا سوال کر دیا، ”مفت کا پھل کھا کرحاضری کلرک اور کیشئیر کے معصوم بچے جو دعائیں دیتے ہوں گے، اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ “

کہتے ہیں آج کے دور میں سرکاری نوکری حاصل کرنا مشکل ہے لیکن اگر قسمت، سفارش سے مل جائے تو سرکاری ملازم کو نوکری سے نکالنا تو ناممکن ہے۔ ایک نائب قاصد صاحب جب پورا سال دفتر سے غیر حاضر رہے تو انہیں نکالنے کی غرض سے اخبار میں اشتہار دیا گیا۔ اشتہار دیکھتے ہی واپس تشریف لے آئے اور اپنی نوکری پر بحال ہوگئے۔ سرکار کا اشتہار کا خرچہ بھی کروا دیا اور اس سے سال کی تنخواہ بھی وصول کر لی۔ ابھی تین ماہ ہوگئے ہیں پھر سے غائب ہیں۔

سرکاری نوکری آزاد لوگوں کا پیشہ ہے۔ جتنی شادیاں اور جنازے سرکاری ملازم اور مولوی بھگتا سکتا ہے اتنے کوئی اورمائی کا لعل نہیں بھگتا سکتا۔ شاید اسی وجہ سے سرکاری ملازم کے رشتہ دار اکثر وفات پاتے رہتے ہیں۔ سرکاری ملازمین نے پتہ نہیں کون سا مسیحا ڈھونڈا ہوا ہے کہ ان کے رشتہ دار وفات پا کر زندہ بھی ہوجاتے ہیں۔ اس لئے چھٹی لے کر انہیں دوبارہ مارنا پڑتا ہے۔ جو نانی تب اللہ کو پیاری ہوئی تھی جب سرکاری ملازم پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا اسے بڑا ہوکر پھر تین، چار دفعہ فوت کیا جاتا ہے۔

اسی لئے جب بھی افسر سے چھٹی لینا مشکل ہو، ”نانی یاد آجاتی ہے“۔ ایک دفعہ میرے ایک کلرک نے جب دوسری بار ساس کے جنازے پر جانے کے لئے چھٹی مانگی تو میں نے مسکراتے ہوئے اسے بتایا، ”شاید تمہیں یاد نہیں رہا تم پچھلے سال بھی اپنی ساس کی آخری رسومات میں شرکت فرما چکے ہو“۔ اس نے غصے سے میری طرف دیکھا اور کہنے لگا، ”سر اتنے عرصے سے میں آپ کو مسلمان سمجھتا رہا۔ آپ کو کس نے بتایا میری ایک ہی ساس تھی؟ ابھی بھی دو زندہ ہیں“

سرکاری نوکری میں بہت برکت ہے۔ پرائیویٹ ملازم جہاں دوپہر میں برگر اور پیپسی پی کر دس منٹ میں کھانے سے فارغ ہو جاتا ہے وہاں سرکاری ملازم پورا ایک گھنٹہ کھانا کھاتا رہتا ہے۔ ایک چھوٹے سے ڈبے میں کھانا گھر سے لاتا ہے لیکن اس رزق میں اتنی برکت ہوتی ہے کہ وہ تب تک ختم نہیں ہوتا جب تک ظہر کی نماز کا وقفہ شروع نہیں ہو جاتا۔

میری پہلی پوسٹنگ تھی۔ میں نے دیکھا کہ ظہر کی نماز کے لئے سب ملازمین غائب ہوجاتے ہیں۔ میں نے سوچا یقیناً اس دفتر میں کوئی بہت بڑی مسجد ہے جس میں دو، تین سونمازی آسانی سے نماز پڑھ سکتے ہیں۔ مسجد دیکھی تو پندرہ لوگ مشکل سے سما پائیں۔ ایک کلین شیو شخص سے پوچھا، ”جب تم نماز نہیں پڑھتے، تو پھرنماز کا وقفہ کیسا؟ “ اس نے جواب دیا، ”میرا ایمان ہے اس وقفہ کرنے کا بھی کچھ نہ کچھ ثواب ضرور ملتا ہوگا“۔ نماز کا وقفہ ہر سرکاری ملازم کی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی لاتا ہے، اکثر واپس دفتر تشریف نہیں لاتے۔ کہتے ہیں ہمارا دل نہیں چاہتا کہ اتنے نیک کام کے بعد کوئی برا کام کریں۔

سرکار کی نوکری میں کام سوچ سمجھ کر کرنا پڑتا ہے۔ ایک دن کا کام تین دنوں میں اس لئے کیا جاتا ہے کہ جلد بازی تو شیطان کی خصلت ہے۔ یہ ضروری بھی نہیں۔ بعض دفعہ ایک ہفتے میں ہونے والا کام دس منٹ میں یہ سوچ کر نمٹا دیا جاتا ہے کہ ہم لوگ مخلوق خدا کی بھلائی کے لئے ہی دفتروں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ پوچھوکون سی مخلوق خدا؟ جواب ملتا ہے، ”فائل کو پہیئے لگانے سے ہمارے بچوں کا بھلا ہوتا ہے۔ انہیں خدا نے ہی پیدا کیا ہے کوئی پلاسٹک کے نہیں بنے ہوئے“

جس سرکاری ملازم کا ایک بچہ ہو سمجھ جائیں اس کی شادی کو دو سال ہوئے ہیں۔ جس کو اللہ نے پچھلے مہینے پانچواں بچہ دیا ہے اندازہ لگا لیں اگلے ایک دو ماہ میں اس کی شادی کو دس سال پورے ہوجانے ہیں۔ ایک دفعہ اکرم نامی ایک شخص کلرک سے اجازت لئے بغیر میرے دفتر میں داخل ہو گیا۔ اس کی فائل ایسی گم ہوئی کہ اس کے چہلم والے دن ملی۔ ریکارڈ کلرک نے بتایا کہ اس کی تیس سالہ نوکری میں یہ پہلی فائل تھی جو مہینوں گم رہی۔

کہتا ہے ”غلطی میری نہیں فائل اسلم کی فائل کے ساتھ بندھ گئی تھی“۔ میں نے پوچھا، ”خود ہی بندھ گئی تھی؟ “۔ اس نے بتایا، ”اس عمارت میں بے شمار جن ہیں اس لئے آپ بھی صدقہ خیرات دیتے رہا کریں۔ “ اس نے مزید بتایا کہ چند سال پہلے ایک سنئیر کلرک، افسر کی ڈانٹ کے بعد دل کے دورے سے مر گیا تھا۔ اس کی بھٹکی ہوئی روح بھی اس دفتر میں دیکھی گئی ہے ”۔ پھر اس نے دیوار پر دوڑتی چھپکلی کی طرف اشارہ کیا اور کہنے لگا، “ سر شاید یہی ہے ”۔ اس نے بہت کوشش کی لیکن مجھے اس کی بات سے کوئی زیادہ ڈر نہیں لگا۔ اگلے دن مجھے بخار شاید موسم کی تبدیلی کی وجہ سے ہوا تھا۔

سرکاری ملازم ہمیشہ نمود و نمائش سے دور بھاگتا ہے۔ اس لئے جس کے پاس اپنی گاڑی ہے وہ اسے دفتر سے دور کھڑی کر کے آتا ہے۔ جس کے پاس اپنی گاڑی نہیں ہے، وہ دفتر آتا ہی نہیں۔ سرکاری ملازمین اخبار اس لئے شوق سے پڑھتے ہیں کہ کہیں ان کی کوئی خبر ہی نہ آگئی ہو۔ خبر آ جائے تو اس لئے پریشان نہیں ہوتے کے بڑے افسران کون سا اردو اخبار پڑھتے ہیں۔ ہر سرکاری ملازم کیونکہ آرٹ کا ایک بہت بڑا نمونہ ہوتا ہے یا پھر صرف نمونہ ہوتا ہے اس لئے ہر آرٹست کی طرح اسے حساب کتاب سے سخت نفرت ہوتی ہے۔ وہ زیادہ حساب کتاب نہیں کرتا۔ نوٹوں کو گننے کے بجائے ان کے رنگ دیکھ کر معاشی سر گرمیوں میں حصہ لیتا ہے۔ تبھی رنگ باز قسم کا انسان بن جاتا ہے۔

ڈرائیور وہ سرکاری ملازم ہوتا ہے جس کو سب سے پہلے اندر کی خبر ملتی ہے۔ نئے صاحب کے ساتھ کام شروع کرنے سے پہلے ہی اسے پتہ چل جاتا ہے کے وہ اپنی بیگم سے ڈرتا ہے۔ کیونکہ سب صاحب خوفزدہ ہوتے ہیں تونیا صاحب بھی ہوتا ہوگا۔ اسے قدرت کی اس شان کا بھی پتہ ہوتا ہے کہ جو صاحب دفتر میں بہت شور مچاتا ہے وہ گھر میں گونگا ہو جاتا ہے۔ جو دفتر سے گھردیرسے واپس جاتا ہے اس کی دفتر میں کسی بھی اور مقام و جگہ سے زیادہ عزت ہے۔ بہت سے سرکاری ڈرایؤر ایسے بھی ہیں جن کو گاڑی چلانے سے زیادہ اسے ٹھیک کرانے کا شوق ہوتا ہے۔ مکینک دوست ہو تو یاری میں اتنا تو کرنا ہی چاہیے۔

اگر آپ ان تمام فوائد کی وجہ سے سرکاری ملازمت کرنا چاہتے ہیں تو ایک بات یاد رہے، سرکاری نوکری اپنی تمام خوبیوں کے باوجود اتنی سست ہوتی ہے کہ اس میں وقت نہیں کٹتا۔ لیکن عمر بہت جلد گزر جاتی ہے۔

محمد عامر الیاس
Latest posts by محمد عامر الیاس (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).