ایک تھا پیر اور ایک تھا مُلا


پیر کے دل کا حال وہی جانتا تھا۔ اس سے نسل در نسل چوری کو پیشہ بنائے رکھنے والے کئی خاندان آ کر مل چکے تھے۔ سب نے پیر سے کام میں برکت کے لیے دعا چاہی تھی۔ پیر ان سے بس یہی کہہ سکا تھا کہ مجبوروں کے ساتھ معذروں کے ساتھ مریضوں کے ساتھ ماؤں کے ساتھ بچوں کے ساتھ درگزر کریں۔

اک خاتون پردے کے اہتمام کے ساتھ اپنی بیٹیوں کو لے کر نذرانے لے کر آئی تھی۔ اس کی عرضی تھی کہ اس کی اک بیٹی جب سر لگائے تو چلتے قدم رک جائیں۔ دوسری بیٹی جب پیر تھرکائے تو اس کے ساتھ لوگوں کے دل ناچیں۔ پیر یہ سن کر پیر اپنے دھیان میں گم سا گیا تھا کہ اب کیا کہے۔

بہت دیر بعد بولا تو اتنا ہی کہہ سکا کہ آپ یہ نذرانے لے جائیں۔ انہیں نادار مریضوں پر، ان بچوں پر خرچ کریں جن کے پاس دینے کو فیس تک نہیں۔ خاتون پیر کا حتمی انداز دیکھ کر الٹے قدموں لوٹ رہی تھی۔ پیر اپنے پاس آنے والوں کے سوال اپنی جواب ندارد قسم کے حال پر بے بسی سے مسکرایا تھا۔ پیر کو مسکراتا دیکھ کر خاتون کو اپنے من کی مراد پوری ہوتی دکھائی دی تھی۔ اس کے چہرے سے مایوسی ہٹ گئی تھی اطمینان چمکنے لگا تھا۔

ملا آستانے پر بڑھتے رش سے بے چین ہو گیا تھا۔ اس نے مدرسوں میں اپنے ہم جماعت اکٹھے کیے تھے۔ اپنی جان پہچان کے لوگ بلا لیے تھے۔ انہیں لے کر بیٹھا کفر شرک بتاتا تھک رہا تھا۔ اس کے ساتھ بری ہوئی تھی۔ شریعت کا نظام ہوتا تو ایسے پیر زمین پر چلتے دکھائی نہ دیتے کہہ بیٹھا تھا۔

ساری بحث کا رخ نظام بدلنے کی جانب مڑ گیا تھا۔ اس کے اپنے ساتھی ملکی نظام الٹنے پلٹنے کے لیے باتیں کرنے لگ گئے تھے۔ ملا نے دل میں سب کو اک موٹی سی گالی دی تھی کہ کیسے وہ اس کا دکھ بھول کر دور کی بتی پیچھے نکل پڑے تھے۔

پیر کو اک نئی مصیبت کا سامنا ہوا تھا۔ اس کے پاس اک لڑکی لائی گئی تھی جس پر جن آتے تھے۔ پیر کے پاس چھوڑ لڑکی کا بھائی کچھ احترام کچھ جنات کے ڈر سے ہی باہر نکل گیا تھا۔ لڑکی نے پیر کو سیدھی دعوت دی تھی۔ سناٹے میں آیا پیر سن ہو کر رہ گیا تھا یہ سنتے ہی۔ اس کے اوسان بحال ہوئے تو اس نے اک چانٹا لگایا تھا لڑکی کے۔ اس کے بھائی کو بلا کر کہا کہ یہ جہاں کہتی ہے اس کی شادی کر دو۔ روتی جاتی لڑکی اونچی آواز میں پیر صاحب معاف کر دیں کہتی گئی تھی۔ پیر کے آستانے پر رش کچھ اور بڑھ گیا تھا۔

پیر کے بڑھتے اثر سے متاثر ہو کر ایک مذہبی جماعت نے اجلاس طلب کر لیا تھا۔ مقامی صورتحال براہراست جاننے کے لیے ملا کو بھی بلایا گیا تھا۔ ملا نے پیر کے پھیلتے کفر کا ذکر کر کے سماں باندھ دیا تھا۔ اسے یقین ہو گیا تھا کہ اب پیر کے خلاف پارٹی جلسہ کرے گی۔ وہ پیر کا جلوس اپنی آنکھوں سے نکلتا دیکھے گا علاقے میں۔

پارٹی اجلاس میں جب ملا کی بتائی رپورٹ پر بحث شروع ہوئی۔ تو کئی سیاسی علما نے کہا کہ لڑائی تو ہماری تاریخی رہی ہے۔ پر آخر ہم کب تک لڑتے رہیں گے؟ ہمیں پیر صاحب کی مقبولیت سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اپنی بیس بڑھانی چاہیے۔ وہ پارٹی میں نہیں بھی آتے تو بھی ان کی دعوت کرتے ہیں۔ یا ان کے پاس جاتے ہیں۔ لوگوں کا ہمارے خلاف تاثر بدلے۔ یہ سب سن کر ملا کی سوچنے والی بتی ہی بجھ گئی۔

پیر کے ساتھ پھر کچھ ہوا تھا۔ اس بار آستانے پر اس نے دعا کرائی تھی کہ لوگو قناعت کرنا سیکھو۔ اکٹھے رہو۔ ہجرت کرنی ہو روزگار کے لیے تو اکٹھی کرو خاندان کے ساتھ۔ اپنے بچوں کو اپنے قریب رکھو۔ اپنی بیگمات سے لمبے عرصے کے لیے دور نہ رہو۔

ملا اب یکسو ہو چکا تھا کہ اسے دو خود کش درکار ہیں۔ ایک تو ظاہر ہے پیر کے لیے۔ دوسرا وہ اپنی پارٹی قائد کی طرف بھجوانا چاہ رہا تھا۔ مسجد میں اس کی بڑھتی لڑائیوں۔ لوگوں کے ذاتی کاموں میں مداخلت کی وجہ سے لوگ اسے اب نکالنے کا سوچ رہے تھے۔

پیر آستانے پر رش سے عاجز آ چکا تھا۔ وہ فرار چاہتا تھا۔ اس نے اعلان کیا کہ وہ کچھ عرصے کے لیے سفر پر جائے گا۔ آستانے سے دور رہے گا۔ مرید صرف روئے نہیں تھے۔ انہوں نے چیخیں بھی ماری تھیں۔ ان کی دنیا ان کا پیر ان سے دور جانے کو تل گیا تھا۔

علاقے کا سب سے بڑا زمیندار چل کر پیر کے پاس آیا۔ اسے اپنی ذاتی سیرگاہ جہاں وہ آرام کرنے شکار کرنے جایا کرتا تھا وہاں آ کر رہنے کے کچھ وقت گزارنے کی درخواست کی۔ پیر نے تنہائی ملے گی، لوگوں سے دور رہوں گا سوچ کر ہامی بھر لی۔

ملا کو جب فساد نہ پھیلانے، سدھر جانے یا مسجد چھوڑنے کا آپشن دیا گیا۔ وہ مسجد کمیٹی کو دل میں کوستا گھر آیا۔ سارے گھر میں مار پیٹ کی۔ چارپائی پر گرا، اپنے حالات پر اتنا کڑھا کہ بخار میں پھنکنے لگا۔

پیر سے ملانے کو زمیندار اپنا سارا کنبہ لے کر سیرگاہ پہنچا تھا۔ اس نے پیر کی بیعت ساری فیملی کے ہمراہ کرنے پر اصرار کیا تھا۔ پیر نے نرمی سے بیعت لینے سے انکار کر دیا تھا۔ پیر کی نیکی پرہیز گاری سے متاثر زمیندار نے اپنے گھر کی خواتین سے کہا کہ آج سے پیر ہمارے گھر کا فرد ہے۔ اس سے کسی کو پردہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

پیر کا دل اتنی عزت ملنے پر عاجزی سے جھک جھک جا رہا تھا۔ جب فیملی ملنے آئی تو پیر ان سے ملنے کو کھڑا ہوا۔ اس نے نظریں جھکائے رکھیں۔ اک بزرگ خاتون کے بلانے پر اس نے نظر اٹھا کر دیکھا تو اس کا دل کب نکل کر بھاگا کب اک زمیندارنی کا ہوا۔ اسے سمجھ ہی نہ آئی۔ پیر کی نیند اڑ گئی۔ ساری رات کروٹیں بدلتے۔ کمرے میں گھومتے، اپنے دل کو آوازیں مارتے۔ اپنی نظروں سے زمیندارنی کا چہرہ ہٹاتے کٹتی رہی۔ پر کہاں کٹی۔

ابھی رات باقی تھی کہ پیر نے اک فیصلہ کیا۔ اپنے بزرگوں کا نام نہیں ڈبونا۔ اپنا دل واپس نہیں مانگنا۔ رہتا ہے تو رہے۔ رکتا ہے تو رکے۔ ٹوٹتا ہے تو ٹوٹے۔ پیر نے سوچ لیا کہ اب مجھے یہاں سے نکلنا ہے۔ چلنا ہے۔ یہ سب میرے لیے نہیں ہے۔

پیر منتیں کرتے میزبانوں کو دعائیں دیتا رخصت ہوا۔ اسے لگا کہ اس کی ہر دعا قبول ہو گی۔ وقت اس کا غلام ہے۔ وہ جو چاہے گا ہو جائے گا۔ پر وہ اب کچھ نہیں چاہتا تھا۔ اک رات گزار کر آستانے پر واپس آ گیا۔ آ تو گیا پر جیسا گیا تھا۔ ویسا نہ آ سکا۔ پورا نہ پہنچا۔ کتنا بدل گیا تھا کسی کو خبر تک نہ ہوئی۔

پیر نظریں جھکائے اپنا دل ڈھونڈتا۔ آستانے پہنچا۔ پہلا سائل کب اندر داخل ہوا پیر کو احساس تک نہ ہوا۔ پیرا عرضی ہے۔ اک کرخت سی نوجوان آواز نے پکارا۔ پیر نے دیکھے بغیر کہا کہ کم۔ پیرا میرے باپ کو مسلمان کر دے۔ پیر نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیے۔ پیرا ملا جو میرا والد ہے اس کے لیے ہدایت کی دعا بھی کریں۔ وہ پرسکون نہ ہوا تو ہم دربدر ہو جائیں گے۔

پیر نے نظریں اٹھا کر ملا کے بیٹے کو دیکھا۔ سوچا کہ اے میرے مالک اسے بھی ہدایت مل گئی تو میری طرح یہ بھی رل نہیں جائے گا۔ میرے مالک بتا کہ میں اب تم سے دعا میں کیا مانگوں، اس کے لیے اپنے لیے؟

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi