علی وزیر، محسن داوڑ کے پروڈکشن آرڈرز میں رکاوٹ کیا ہے؟


پروڈکشن آرڈر
قانونی ماہرین اور اراکین اسمبلی نے اسے سپیکر کی طرف سے امتیازی سلوک قرار دیا

جمعرات کو قومی اسمبلی کا اجلاس جب شروع ہوا تو اس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور ملک کے سابق صدر آصف زرداری تو اپنے پروڈکشن آرڈر جاری کیے جانے کے بعد ایوان میں موجود تھے لیکن ان سے پہلے گرفتار کیے جانے والے پشتون تحفظ موومنٹ کے ارکانِ اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر کی قسمت شاید سابق صدر جیسی اچھی نہیں۔

سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے حزب اختلاف کے مطالبے پر کرپشن کے مقدمات میں نیب کی قید میں موجود آصف زرداری اور مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر بدھ کی شب جاری کیے۔

یہی اپوزیشن آصف زرداری کی گرفتاری سے بھی پہلے سے صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والے دونوں اراکینِ قومی اسمبلی کے پروڈکشن آرڈرز جاری کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے لیکن اس پر سپیکر کی جانب سے کوئی مثبت ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

اراکین اسمبلی نے اسے سپیکر کی طرف سے ’امتیازی سلوک‘ قرار دیا ہے تاہم قومی اسمبلی کے عملے کے مطابق ان دونوں ارکان کے پروڈکشن آرڈر کی درخواست ان کے علاوہ کوئی اور فرد نہیں دے سکتا۔

اس معاملے پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ علی وزیر اور محسن داوڑ کے معاملے میں ’ہمارا مطالبہ برقرار ہے۔ جب یہ مسئلہ ہوا تھا تو میں نے بطور چیئرپرسن ہیومن رائٹس کمیٹی سپیکر کو لکھا تھا کہ پروڈکشن آرڈرز ہوں۔‘

ان کے مطابق ’جب صدر زرداری کے پروڈکشن آرڈرز کے حوالے سے تمام حزبِ اختلاف اور حکومتی نمائندوں سے دستخط لیے تھے تو ہم نے ایک بار پھر ایک الگ خط کے (ذریعے) محسن داوڑ اور علی وزیر صاحب کے پروڈکشن آرڈر کا بھی مطالبہ کیا۔‘

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ’اگر ایوان مکمل نہیں ہو گا اور اگر ہر رکن کو اپنے حلقے کے عوام کی نمائندگی کرنے کا موقع نہیں ملے گا، تو یہ ایک قسم کی دھاندلی ہے۔‘

ترجمان عوامی نیشنل پارٹی زاہد خان نے بھی اپنے بیان میں کہا ہے کہ آصف زرداری اور سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنا سپیکر کا ایک مثبت قدم ہے تاہم ’افسوس ہے کہ سپیکر نے اپنا فرض مکمل طور پر پورا نہیں کیا اور علی وزیر اور محسن داوڑ کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کیے۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’علی وزیر اور محسن داوڑ ان علاقوں کی نمائندگی کرتے ہیں جو 40 سال سے دہشت گردی کا شکار ہیں۔‘

آصف زرداری نے اجلاس کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سپیکر کتنا کمزور ہے اس بےچارے کے پاس پورا اختیار نہیں ہے۔ ہم نے دباؤ ڈالا تو اس نے ہمارے پروڈکشن آرڈر جاری کیے۔‘

’صرف علی اور محسن ہی اپنے پروڈکشن آرڈر کی درخواست دینے کے مجاز‘

ادھر قومی اسمبلی کے میڈیا ڈائریکٹر محبوب گورمانی نے بی بی سی کو بتایا کہ علی وزیر اور محسن داوڑ کی طرف سے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے سے متعلق کوئی درخواست ہی نہیں دی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ دونوں آزاد اراکین ہیں، ان کی اپنی کوئی جماعت نہیں ہے اور ان کی طرف سے کوئی اور درخواست نہیں دے سکتا۔‘

محبوب گورمانی کا کہنا ہے کہ ’سعد رفیق کی درخواست جیل سپرٹنڈنٹ کی تصدیق سے موصول ہوئی جبکہ آصف زرداری کی طرف سے درخواست ان کے بیٹے بلاول بھٹو نے دی تھی۔‘

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگر قید اراکین کی طرف سے جیل سے ایسی کوئی درخواست آتی بھی ہے تو پھر اس پر سپیکر قومی اسمبلی اٹارنی جنرل یا وزارت قانون سے رائے لے سکتا ہے۔

’حساب کتاب بند کرکے آگے کی بات کی جائے’

جمعرات کو ہونے والے قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں سپیکر کی طرف سے جاری پروڈکشن آرڈرز کے بعد آصف زرداری نے اجلاس کی کارروائی میں بھرپور شرکت کی۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے آصف زرداری نے احتساب اور گرفتاریوں کے عمل کو روک کر آگے بڑھنے کی تجویز بھی دی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ حساب کتاب بند کیا جائے اور آگے کی بات کی جائے، ایک عام آدمی خوف زدہ ہے کہ اگر زرداری صاحب پکڑے جا سکتے ہیں تو پھر ہمارا کیا بنے گا۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک میں کچھ مسائل ایسے ہیں جن پر وہ حکومت کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار ہیں۔ سابق صدر کا کہنا تھا کہ ’مل بیٹھ کر ایک معاشی پالیسی ترتیب دی جانی چاہیے جیسے ایک ملکیت ملے تاکہ وہ چلتی رہے۔

سابق صدر نے بجٹ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’اس بجٹ نے افراتفری پھیلا دی ہے، اس طرح ملک نہیں چلتے۔ باہر سے آئے ہوئے وزیر خزانہ کے ساتھ میں نے بھی کام کیا ہوا ہے۔ انھیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ ملک میں کتنی غربت ہے۔‘

قومی اسمبلی میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا بھی کہنا تھا کہ ان کی جماعت تحریکِ انصاف کی حکومت کے بجٹ کی مذمت کرتی ہے اور ان کی ’ پوری کوشش ہے یہ عوام دشمن و ملک دشمن اور غریب دشمن بجٹ پاس ہی نہ ہو۔‘

پارلیمانی امور پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی ایم بی سومرو کے مطابق بجٹ پیش ہونے کے ایک ہفتہ بعد تک اپوزیشن کے احتجاج کی وجہ سے ایوان کی کارروائی آگے نہیں بڑھائی جا سکی تو سپیکر نے ڈیڈ لاک ختم کرنے کے لیے صرف بڑی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے قید اراکین اسمبلی کو ہی اجلاس میں آنے کی اجازت دی۔

ان کے مطابق ’اس کی بڑی وجہ شاید یہی ہو سکتی ہے کہ اگر بجٹ پاس نہیں ہوتا تو پھر حکومت یکم جولائی سے شروع ہونے والے نئے مالی سال میں کچھ خرچ کرنے کی مجاز نہیں ہو گی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp