شہباز شریف کی ’’جی حضوری،،


شہباز شریف صاحب سے اگست 2018کے بعد قومی اسمبلی کی راہداریوں میں صرف دوبارملاقات ہوئی ہے۔بہت گرم جوشی اور عزت واحترام سے ملے۔ رسمی حال احوال پوچھنے کے بعد ایک دوسرے سے لاہوری جپھی ڈال کر ہم جدا ہوگئے۔ تفصیلی ملاقات کی اس کے باوجود کبھی ضرورت محسوس نہیں کی۔

سیاست دانوں سے فاصلہ رکھنے کی چند برسوں سے عادت اپنا لی ہے۔ ’’خبر‘‘ ان سے ملتی نہیں۔ملاقاتیں بڑھیں تو آنکھ کا لحاظ قلم کی روانی کو متاثر کرتا ہے اور میرے لئے سیاسی معاملات پر تبصرہ آرائی کے لئے ’’غیرجانب داری‘‘ کا ڈھونگ برقرار رکھنا ضروری ہے۔تقریباََ چار دنوں تک پھیلی ہڑبونگ اور ہنگامہ آرائی کے بعد بالآخر بدھ کی صبح شہباز صاحب کوبطور قائدِ حزب اختلاف عمران حکومت کے پیش کردہ پہلے بجٹ پر تقریر کا موقع مل گیا۔

حکومتی بنچوں کی جانب سے وعدہ ہوا کہ ان کی تقریر صبر سے سنی جائے گی۔یہ وعدہ نبھایاگیا۔تین گھنٹوں تک پھیلی تقریر کی بدولت مگر مسلم لیگ (نون) کے صدر خاطرخواہ جلوہ نہ دکھاپائے۔ اگر پریشان نہیں تو مجھے کنفیوژ ضرور نظر آئے۔ ان کی ذات،خاندان اور جماعت یقینا ان دنوں بے پناہ مسائل سے دوچار ہے۔ سیاست دان کے لئے مگر ضروری ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ڈھیٹ ہڈی کی صورت نظر آئے۔ اپنے حمایتوں کو حوصلہ دے۔’’اچھے دنوں‘‘ کی امید دلائے۔ شہباز صاحب یہ سب کرنے میں ناکام رہے۔

1990 کی دہائی سے وہ ریاست کے معاشی معاملات کو ’’حساس ترین‘‘ فائلوں تک رسائی کی بدولت خوب سمجھنا شروع ہوگئے تھے۔ تعلق ان کا ایک کاروباری خاندان سے ہے۔میری دانست میں اس وقت ملک میں کوئی اور سیاست دان شہباز شریف کے مقابلے میں ہمیں سمجھا نہیں سکتا کہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کا IMF کی تسلی کے لئے بنایا بجٹ ہمارے معاشی منظر پر پھیلی مایوسی کو کن ٹھوس اقدامات کی وجہ سے مزید امید شکن بنادے گا۔

بجٹ کا جارحانہ نہ سہی ’’مدبرانہ‘‘ پوسٹ مارٹم کرنے سے بھی لیکن انہوں نے گریز کیا۔ صرف وہ ایام یاد دلاتے رہے جب اس ملک میں لوڈشیڈنگ کا راج تھا جسے پاکستان مسلم لیگ (نون) کی حکومت نے یقینا ختم کیا۔اس کے علاوہ ذکر وہ CPECکا کرتے رہے۔ تحریک انصاف کے دھرنے اور احتجاجی سیاست کو اسے سبوتاژ کرنے کی کوشش ٹھہراتے رہے۔ان کی طولانی تقریر نے مجھے بہت مایوس کیا۔

میرا اصرار ہے کہ اس تقریرکے ذریعے انہوں نے یہ پیغام دیا ہے کہ تمام تر بڑھکوں کے باوجود کم از کم پاکستان مسلم لیگ (نون) عمران حکومت کے پہلے بجٹ کو نامنظور کروانے کے لئے نہایت عزم اور مؤثر حکمت عملی کے ساتھ حقیقی معنوں میں ہاتھ پائوں نہیں مارے گی۔ کڑوی گولی نگل لی جائے گی۔شاید شہباز شریف کو اقتدار کے کھیل کی مبادیات سے پوری آگہی میسر ہونے کے سبب احساس ہوگیا ہے کہ پاکستان کی سرکاری معیشت کی نگہبان مقامی اور بین الاقوامی قوتیں یہ طے کرچکی ہیں کہ ہماری بقاء کے لئے وہ سب کچھ کرنا ہوگا جو ڈاکٹر حفیظ شیخ اور رضا باقر نے طے کیاہے۔

اس سے مفر ممکن نہیں۔ ’’نیویں نیویں‘‘ ہوکر ان حضرات کے بنائے نسخے کو ہضم کرنا ہوگا۔یقینا کئی معاملات ہیں جن کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف کو اپنے پر جلنے کا خوف لاحق رہتا ہے۔ اقتدار کے کھیل سے جڑی مجبوریوں کو سمجھتے ہوئے میں ان کے خوف کی ’’مذمت‘‘ کا حوصلہ نہیں رکھتا۔ ڈنگ ٹپانے کی خواہش میں لچک اختیار کرنے کی ضرورت کو اپنے شعبے پر نازل ہوئی بے روزگاری اور کسادبازاری کی وجہ سے بخوبی جان چکا ہوں۔

سیاست دان مگر ہم دیہاڑی دار کالم نگاروں کی طرح اتنے بے بس ولاچار کبھی نہیں ہوتے۔وہ کوئی نئی بات کہنے کی راہ نکال ہی لیتے ہیں۔بدھ کے روز ایک طولانی تقریر کرتے ہوئے شہباز صاحب کو ہرگز یاد نہیں رہا کہ وہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ہونے کے علاوہ اس کی پبلک اکائونٹس کمیٹی (PAC)کے چیئرمین بھی ہیں اور انہوں نے یہ عہدہ تحریک انصا ف کی حکومت سے شیر کے منہ سے نوالہ چھیننے کی صورت حاصل کیا تھا۔

بارہا اس کالم میں چند ٹھوس واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے اصرار کرتا رہا ہوں کہ اگرPACخود کو متحرک اور توانا بنالے تو اس ملک میں کرپشن کے سدباب کے لئے نیب جیسے اداروں کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوگی۔ شہباز صاحب نے نیب کی حراست کے دوران اس کمیٹی کے کئی اجلاس بلوائے تھے۔ اپنی ضمانت ہوجانے کے بعد مگر وہ اسے بھول گئے اور بعدازاں 6ہفتوں کے لئے انگلینڈ روانہ ہوگئے۔

شہبازشریف کی بدھ کے روزہوئی تقریر کے بعد یاددلانا ضروری ہے کہ وزیر اعظم نے گزشتہ ہفتے بجٹ پیش ہونے کے فوراََ بعد رات گئے قوم سے خطاب کیا۔اس خطاب میں انہوں نے ایک ایسے کمیشن کے قیام کا اعلان کیا جوگزشتہ دس برس میں غیر ملکوں سے لئے قرض کی وجوہات،ان کے حصول کی شرائط اور ان کی بدولت میسر ہوئی رقم کے خرچ کا Auditکرے گا۔میری ناقص رائے میں مجوزہ کمیشن کا قیام ایک ماورائے آئین اقدام ہوگا۔

ہمارے آئین نے آڈیٹر جنرل نام کا ایک عہدہ قائم کررکھا ہے۔نیب کے چیئرمین کی طرح آڈیٹر جنرل بھی خودمختار ہے اور اسے حکومت اپنی آئینی مدت ختم کرنے سے پہلے ہٹانہیں سکتی۔ آڈیٹر جنرل ایک ایسے ادارے کا سربراہ ہے جس کے افسر CSSکا امتحان پاس کرنے کے بعد ’’آڈٹ سروس‘‘ میں آتے ہیں۔ان افسران کو تمام سرکاری محکموں کو میسر ہوئی رقم کی پائی پائی خرچ ہونے کا آڈٹ کرنا ہوتا ہے۔ یہ آڈٹ ہوجائے تو اس کی رپورٹ بھاری بھر کم جلدوں میں قومی اسمبلی کے روبروپیش کرنا ہوتی ہے۔پبلک اکائونٹس کمیٹی اس رپورٹ کی بنیاد پر ہی مختلف محکموں کے سربراہوں کو اپنے اجلاسوں میں بلاکر سوال اٹھاتی ہے۔

نیب کے پاس بدعنوانی کی جو بے تحاشہ رپورٹس ہیں ان کی اکثریت آڈیٹر جنرل کی جانب سے اٹھائے سوالات کی پیروی کی بنیاد پر ہی تیار ہوئی ہیں۔وزیر اعظم کو گزشتہ دس برس میں لئے قرضوں کا تفصیلی حساب لینے کے لئے اگر ایک اور اضافی کمیشن کی ضرورت محسوس ہوئی تو اس کا سادہ مطلب یہ بھی ہے کہ آڈیٹر جنرل اور آڈٹ سروس نے اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داریاں نہیں نبھائیں۔

سوال اٹھتا ہے کہ اگر آڈیٹر جنرل اور ان کا ادارہ یہ ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہا تو اس عہدے کو برقرار کیوں رکھا جائے۔ ’’آڈٹ سروس‘‘ پر اُٹھے بھاری بھرکم اخراجات کیوں برداشت کئے جائیں۔آڈیٹر جنرل اور ان کا ادارہ اپنے آئینی فرائض کماحقہ سرانجام دینے میں ناکام رہا تو پبلک اکائونٹس کمیٹی کس منہ سے ان کی تیارکردہ رپورٹوں کی بنیاد پر مختلف سرکاری محکموں کو اپنے اجلاسوں میں ’’ملزم حاضرہو‘‘ پکارتے ہوئے بلائے گی۔

مزید حیران میں اس وقت بھی ہوا جب پبلک اکائونٹس کمیٹی کے بہت ضد کے ساتھ چیئرمین منتخب ہوئے قائدحزب اختلاف نے بظاہر بہت خلوص سے سپیکر کو آگاہ کیا کہ وزیر اعظم کے تجویز کردہ کمیشن کے روبرووہ سرجھکا کر پیش ہوں گے۔

پنجاب حکومت نے غیر ممالک سے جو قرض لئے تھے ان کے خرچ کا حساب دیں گے لیکن جواباََ یہ جاننے کی بھی بھرپور کوشش کریں گے کہ پرویز خٹک صاحب نے اپنے صوبے میں غیر ملکی قرضوں کو کیسے حاصل واستعمال کیا۔ بدترین حالات میں بھی شہباز شریف سے مجھے ایسی ’’جی حضوری‘‘ کی توقع نہیں تھی۔ یہ سب کرنے سے پہلے بہتر تھا کہ وہ PACکو ایک ناکارہ ادارہ بتاتے ہوئے اس کی چیئرمین شپ سے استعفیٰ کا اعلان کرتے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).