ڈاکٹر انور سجاد۔ اک چراغ اور بجھا


ڈاکٹر انور سجاد اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے (آمین) ۔ مجھے ڈاکٹر صاحب کی شاگردی کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب صحافتی حلقوں میں جامعہ پنجاب کے شعبہ ابلاغیات کا ڈنکا بجا کرتا تھا۔ شعبے کی سربراہی غالبا نئی نئی استاد محترم پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کے سپرد ہوئی تھی۔ ایک دن ہمیں پتہ چلا کہ نامور ادیب اور ڈرامہ نویس ڈاکٹر انور سجاد الیکٹرانک میڈیا کی جماعت کو اسکرپٹ رائٹنگ پڑھایا کریں گے۔

ہم سب بہت خوش تھے۔ کچھ دن بعد معلوم ہوا کہ یہ اہتمام صرف شام کی (سیلف سپورٹنگ) کلاس کے لئے ہے۔ ہماری جماعت نے اس فیصلہ پر احتجاج کیا کہ میرٹ پر داخلہ لینے والے مارننگ کے طالب علموں کو، ڈاکٹر انور سجاد جیسے استاد سے کیوں محروم رکھا جا رہا ہے؟ ہم نے انتظامیہ کو ایک مشترکہ احتجاجی مراسلہ لکھا اور صبح کے وقت اسکرپٹ رائٹنگ کی کلاس پڑھنے سے انکار کر دیا۔ اگلے ہی روز ہمیں لائن حاضر کیا گیا۔ پتہ یہ چلا کہ صبح کے اوقات میں ڈاکٹر صاحب اپنے کلینک پر مصروف ہوا کرتے ہیں اور صرف دوپہر کے بعد دستیاب ہیں۔ انتظامیہ نے تجویز یہ دی کہ ہم (ایم۔ اے مارننگ کے ) طالب علم، اپنی کلاسوں سے فراغت کے بعد، دو تین گھنٹے انتظار کریں۔ اور شام کی کلاس میں اسکرپٹ رائٹنگ پڑھ لیا کریں۔ ہم سب بخوشی راضی ہو گئے اور یوں ڈاکٹر انور سجاد سے پڑھنے لگے۔

ڈاکٹر صاحب کے پڑھانے کا انداز نہایت غیر روایتی تھا۔ وہ ادھر ادھر کی باتیں کرتے، قصے کہانیاں سناتے، اور اپنے تجربات و مشاہدات بیان کرتے۔ یہی ان کا لیکچر ہوا کرتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ و ہ ہمیں ڈرامہ لکھنے کی مشق کرواتے او ر کمرہ جماعت میں با آوا ز بلند وہ ڈرامے پڑھواتے بھی۔

برسوں بیت چکے، مگر مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب ہم کلاس فیلوز، ایک دوسرے کے تحریر کردہ ڈراموں، کہانیوں اور مکالموں کا مذاق اڑاتے اور جملے کسا کرتے تھے، ڈاکٹر انور سجاد ان ٹوٹے پھوٹے اسکرپٹس کو تحمل اور توجہ سے سنتے۔ انہیں درست کرواتے اور طالب علموں کی حوصلہ افزائی بھی کرتے۔ کلاس کے بعد اکثروہ شاگردوں کے جم غفیر کے ساتھ شعبہ ابلاغیات کی کینٹین کا رخ کرتے، چائے پیتے اور گپ شپ کرتے۔ ڈاکٹر صاحب ہمیں صرف ایک سمسٹر ہی پڑھا سکے۔ اس کے بعد وہ جیو ٹیلی ویژن میں غالبا اسکرپٹ رائیٹنگ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ مقرر ہوئے اور کراچی چلے گئے۔ تاہم اس کے بعد بھی وہ اپنے شاگردوں کو با آسانی دستیاب ہواکرتے تھے۔

ڈاکٹر صاحب کے انتقال کی خبر سن کر برسوں پرانا وہ زمانہ آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔ ڈاکٹر انور سجاد کی موت المیہ سہی، اصل المیہ مگر وہ سلوک ہے جس کا سامنا انہوں نے اپنی زندگی کے آخری برسوں میں کیا۔ اتنا بڑا آدمی، اتنا نامور ادیب۔ کیسی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور رہا۔ بے بسی، بے کسی اور محتاجی کی زندگی۔ شہرہ آفاق ڈرامے لکھنے والے کو، حکومتی امداد کے لئے چٹھیاں لکھنا پڑیں۔ اپنا دامن پھیلانا پڑا۔ مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی۔

ایسا نہیں ہے کہ ہمارے ہاں ادارے یا فنڈز موجود نہیں ہیں۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر اطلاعات کی وزارتیں موجود ہیں۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دور میں قومی تاریخ و ادبی ورثہ کی ایک علیحدہ وفاقی وزارت قائم ہوئی تھی۔ مشیر وزیر اعظم عرفان صدیقی اس کے سربراہ تھے۔ صدیقی صاحب کی درخواست پر، وزیر اعظم نواز شریف نے فنکاروں اور ادیبوں کی فلاح و بہبود کے لئے 50 کروڑ روپے کے خطیر فنڈ کا اعلان کیا تھا۔ وہ رقم جاری ہوئی تھی اور غالبا کوئی انڈوومنٹ فنڈ بھی قائم ہو گیا تھا۔

اسی طرح وفاقی اور صوبائی سطح پر درجنوں ادارے قائم ہیں، جنہیں ہر سال بھاری بھرکم بجٹ فراہم ہوتا ہے۔ یہ ادارے ”ثقافت“، ”ادب“، ”زبان“، اور ”فن“ کی ترویج کے نام پر باقاعدگی سے بڑی بڑی تقریبات کرتے اور میلے سجاتے ہیں۔ ان تقریبات پر لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ خوب فوٹو سیشن ہوتے ہیں۔ بسا اوقات دوست نوازیاں اور ذاتی تعلقات کی ترویج بھی۔ لیکن ڈاکٹر انور سجاد کے لئے کوئی ادارہ سامنے نہیں آیا۔ ڈاکٹر صاحب کے دوست بتاتے ہیں کہ اپنے آخری وقت میں وہ بیشتر اداروں اور ساتھیوں کے رویے سے دکھی رہا کرتے تھے۔

نہایت افسوس کی بات یہ ہے کہ ادیبوں، شاعروں، فنکاروں، اور گلوکاروں کے ساتھ برسوں سے یہی سلوک ہو رہا ہے۔ ہم سنتے ہیں کہ معروف شاعر حبیب جالب بھی غربت اور لاچاری کی زندگی گزارنے پر مجبور رہے۔ فلمی صنعت کے معروف موسیقار وجاہت عطرے اپنی زندگی کے آخری ایام میں، لاہور کے ایک ہسپتال میں حکومتی امداد کے منتظر رہے۔ مگر ان کی شنوائی نہ ہوئی۔ نامور سرائیکی لوک فنکار پٹھانے خان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ اے۔ حمید کی زندگی کے حالات بھی کچھ اچھے نہ تھے۔

ماضی قریب میں اداکار جاوید کوڈو اورپی ٹی وی کے مشہور پروگرام ”ففٹی ففٹی“ کے معروف اداکار ماجد جہانگیر کی بیماری اور مفلسی سے متعلق خبریں بھی قومی میڈیا کی زینت بنتی رہیں۔ بچوں کے معروف ڈرامہ ”عینک والا جن“ کے دو انتہائی مقبول اداکار منا لاہوری (زکوٹا جن) اور نصرت آراء ( بل بتوڑی) انتہائی غربت کی حالت میں زندگی گزارتے رہے۔

چند ماہ پہلے کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے مشہور گلوکار بشیر بلوچ جو صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سمیت 132 ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں، نے میڈیا کے ذریعے اپیل کی تھی کہ کوئی شخص ان سے تمام ایوارڈ لے لے اور بدلے میں صرف دو وقت کی روٹی کا بندوبست کر دے۔ تاکہ انہیں بھیک نہ ما نگنا پڑے۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے ڈرامہ نگار اور انگریزی زبان کے ماہر لسانیات، مشتاق کاملائی ( جو کسی زمانے میں جامشورو یونیورسٹی میں پڑھایا کرتے تھے ) ، دو وقت کی روٹی کے لئے با قاعدہ بھیک مانگتے رہے۔ کچھ ماہ قبل ان کی تصویر سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی، جس میں وہ مٹی میں لت پت، کسی سڑک کنارے سورہے تھے۔

یقینا کچھ خوش قسمت ایسے بھی ہیں جن کو حکومتی امداد مل جاتی ہے۔ مگر سینکڑوں ایسے ہیں، جو مٹی میں رل گئے۔ اور اب بھی خوار ہیں مگر کوئی پرسان حال نہیں۔ ہمارے ہاں یہ غیر اخلاقی (بلکہ غیر انسانی) رویہ بھی عام ہے کہ کسی حا جت مند کو امدادی چیک دیتے وقت، تصویر اور تشہیر کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا ہے۔ یعنی اس کی عزت نفس مجروح کی جاتی ہے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ کسی فنکار کو اس کی زندگی میں تو پوچھا نہیں گیا۔ مگر مرنے کے بعد اس کے لواحقین کو چیک تھما کر یا خراج تحسین کی محفلیں سجا کر فرض (بلکہ کفارا) ادا کر دیا گیا۔ ایسے منفی رویوں کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔

آخر کیا وجہ ہے کہ بڑے بڑے دعووں کے با وجود آج تک اتنا کچھ بھی نہیں ہو پایا کہ ہم ان لوگوں کی مناسب خدمت اور دیکھ بھال کر سکیں جو اپنی عمریں، کسی نہ کسی شعبہ زندگی کے لئے وقف کیے رکھتے ہیں۔ شاعر، ادیب، استاد، ڈرامہ نویس، فن کار، اور اداکار، معاشرے کی تعلیم و تربیت اور تفریح و تسکین کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ مہذب حکومتوں پر لازم آتا ہے کہ وہ ایسے لوگوں کے مسائل کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنائیں۔ ہم پڑھتے ہیں کہ بادشاہوں کے دو ر میں بھی ایسے افراد کی قدرو منزلت ہوتی تھی۔

انہیں انعامات، خلعتوں اور بڑے بڑے عہدوں سے نوازا جاتا تھا۔ آج بھی اہل مغرب، اہل علم و فن کی قدر افزائی میں ہم سے بہت آگے ہیں۔ حکومتیں غریب اور مقروض ہو کر بھی اپنی آسائشوں میں کمی نہیں لاتیں ( اس بجٹ میں بھی ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس کے اخراجات گزشتہ دور حکومت سے زیادہ بڑھ گئے ہیں ) ۔ لیکن جب اہل قلم اور فن کاروں کی مدد کی بات چلتی ہے تو سو سو بہانے مل جاتے ہیں۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دور میں ایک قومی سطح کی کمیٹی بنی تھی جس نے ادیبوں، شاعروں اور فن کاروں کی سرپرستی اور دیکھ بھال کے لئے ایک جامع رپورٹ حکومت کو پیش کی تھی۔ پھر پانامہ ہوا اور سب کچھ دریا برد ہو گیا۔ کاش اس رپورٹ کو نکال کر موجودہ حکومت ہی کوئی موثر اقدام کرئے۔ ڈاکٹر انور سجاد تو اب ایسی باتوں سے بے نیاز ہو گئے ہیں، لیکن اگر کوئی عملی اقدام ہوتا ہے تو ان کی روح یقینا آسودہ ہو گی کہ اب کوئی ان جیسا عظیم فرد، یوں بے چارگی سے رخصت نہیں ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).