جانے کہاں گئے وہ دن


آج سے تین، چار دہائی پہلے ہم انسان اپنے محدود آمدنی و وسائل میں بھی اپنی طرز زندگی سے نا صرف مطمئن تھے بلکہ ہماری زندگیوں میں اطمینان و سکون تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب ہمیں انٹرنیٹ اور کیبیل کی سہولتیں بھی میسر نا تھیں۔ گھر میں صرف ایک کمانے والا ہوتا تھا مگر پھر بھی پرسکون زندگی گزاری جاتی تھی۔

رشتہ دار و محلہ دار عزیز، اقارب ایک دوسرے کے دکھ، درد، اور خوشیوں کے دائمی ساتھی ہوتے تھے۔ محلہ میں کسی کا انتقال ہوجائے تو آس پڑوس کے لوگ ہی پیش پیش ہوتے تھے۔ میت والے گھر کو پتا ہی نہیں چلتا تھا کہ کس نے کب جاکر قبر کا انتظام کروا دیا اور کس نے کفن کا بندوبست کردیا۔ سب پلک جھکتے ہو جایا کرتا تھا۔ رشتے دار اور محلہ دار سوگواران کے لیے اپنے گھر سے کھانا پکاکر لاتے اور ان کو اپنے سامنے بیٹھا کر کھلاتے تھے۔

اور آج آزردہ سوگوار خاندان شدید کرب کی حالت میں تدفین سے قبل ہی کیٹرینگ والے کو بریانی و زردہ کی دیگ کا آرڈر دینے جاتا ہے۔ مردے کو ثواب بخشوانے کے لیے ایک قران پاک بھی مکمل کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ احباب کی آمد مغرب کی نماز سے عین چند ساعت پہلے ہوتی ہے جب ہمارے عزیز کا کڑوا کھانا دسترخوان پر لگا دیا جاتا ہے۔

گئے دور میں خاندان کے بڑے متاثرہ اہل خانہ کے یہاں آٹھ دس دن کے لیے اپنا پڑاؤ ڈال لیا کرتے تھے۔ تاکہ اہل خانہ کی دل جوئی ہوسکے۔ اس کے غم کا مداوا ہوسکے۔

محلہ میں کسی کی شادی ہوتی تھی تو تمام محلہ بڑھ چڑھ کر شادی کے انتظامات میں ان کا ہاتھ بٹایا کرتا تھا۔ کوئی تمبو اور کرسیاں لگوا رہا ہوتا تھا۔ کوئی کھانے والے کے پاس جاکر اس کو کھانے آرڈر دے رہا ہوتا تھا۔ پڑوس کی خواتین ملبوسات اور زیورات کی خریداری میں ان کی مدد کیا کرتی تھیں۔

محلے میں کسی کے گھر کوئی خاص پکوان بنتا تھا تو تیاری کے فورا بعد ایک حصہ کسی برتن میں ڈال کر پڑوس میں بھیجا جاتا تھا۔

پڑوس رشتے داروں میں کسی کے گھر فریج نہیں ہوتا تھا تو اس کے لیے خاص طور پر برف جمائی جاتی تھی۔ یا پانی کی ٹھنڈی بوتلیں ان کے لیے الگ سے رکھی جاتی تھیں۔ اس وقت اکثر گھروں میں رنگین ٹی وی نہیں ہوتا تھا تو پورا محلہ اس ایک گھر میں جس کے یہاں رنگین ٹی وی ہوتا تھا تھا جمع ہوجاتا تھا اور ٹی وی دیکھا کرتا تھا۔

کوئی عزیز یا محلہ دار حصول روزگار کے سلسلے میں ملک سے باہر جاتا تھا کرائے کی سوزوکی کرکے پورا محلہ اور رشتے دار اس کو الوداع کہنے ایئر پورٹ روانہ ہوا کرتا تھا۔ اور اشکبار آنکھوں سے اس کو الوداع کہتا تھا۔

محلہ کے ایک گھر میں ٹیلیفون ہوتا تھا تو پورا محلہ اور رشتے دار اس کے فون سے مستفید ہوتا تھا۔

اس وقت کی عید اور رمضان کا بھی اپنا الگ سرور ہوتا تھا۔ رمضان میں آج کل کی طرح ہم سحری تک جاگا نہیں کرتے تھے۔ بلکہ تمام عبادتوں سے فارغ ہوکر دس گیارہ بجے تک سو جایا کرتے تھے۔ اس وقت محلے دار سحری پر ایک دوسرے کے دروازوں پر دستک دے کر ان کو اٹھایا کرتے تھے۔ یا ڈھول والا گلیوں میں آکر ڈھول کی تھاپ سے جگایا کرتا تھا۔ اس وقت وہ منظر بہت دلفریب لگتا تھا۔

پھر عید کی تیاریاں ہوتی تھیں بیرون ملک یا مختلف شہروں میں مقیم اپنے عزیزوں قرابت داروں کے لیے عید کارڈز خریدے جاتے تھے۔ اس وقت ہر علاقے میں جگہ جگہ عید کارڈز کے اسٹال لگا کرتے تھے۔ جو موجودہ دور میں ناپید ہوگئے ہیں۔ عید کارڈ ایک محبتی پیغام ہوتا تو جو آپ کو قربت کا احساس دلاتا تھا۔

اس وقت شہر میں لائبریریاں کثرت سے پائی جاتی تھیں۔ جہاں سے طلباء مختلف موضوعات پر کتابیں لے کر پڑھا کرتے تھے۔ مختلف اخبارات و جرائد کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔ غالب۔ فیض اور جالب کو پڑھا کرتے تھے۔ اسکول اور کالج میں اردو ادب پڑھایا جاتا تھا۔ افسانہ نگاری اور بیت بازی کے مقابلے منعقد ہوتے تھے جس سے طلبا میں شعر و ا دب کا ذوق پروان چڑھتا تھا۔

اسکول کے بچے قلم کی مدد سے تختی لکھا کرتے کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کی لکھائی بہترین ہوا کرتی تھی۔ تختی لکھنے کا عمل بچوں میں قدرتی طور پر اردو رسم الخط میں خوش خطی کا رجحان پیدا کرتا تھا۔ جدید سائنسی ایجادات اور کمپیوٹر نے اس فن کو تقریباً ختم کر دیا ہے۔

یہ وہ دور تھا جب ادبی جرائد و رسائل کی بھرمار تھی۔ نسیم درانی صاحب کا ”سیپ“ صہبا لکھنوی صاحب کا ”افکار“ اور ”نقوش“ یہ وہ ادبی جرائد تھے جنھوں نے نئے لکھنے والے طلبا و طالبات کو لکھنے کا ایک پلیٹ فارم مہیا کیا ان ہی جرائد نے ملک کو کئی نامور ادیب و شاعر دیے۔

اس دور میں مشاعرے اور ادبی نشستیں کثرت سے ہوا کرتی تھیں۔ جس میں طلبا کی ایک بہت بڑی تعداد شامل ہوا کرتی تھی۔

شہر کے پرانے قہوہ خانوں اور ایرانی ہوٹلوں میں شام کے وقت علم و ادب سے تعلق رکھنے والی نامور ہستیاں اپنی نشستیں لگایا کرتی تھیں۔ علم و ادب پر گفتگو ہوا کرتی تھی۔ مختلف اخبارات و رسائل میں طلبا کے لئے الگ صفحات شائع کیے جاتے تھے۔ علم و ادب کا زوق پایا جاتا تھا۔

دورِ جدید میں انٹرنیٹ نے روابط کو اتنا آسان بنا دیا ہے کہ پوری دنیا سمٹ کر ایک گلوبل ویلج (Global village) کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ ہر شخص ایک ہی جگہ بیٹھے انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا بھر کی معلومات حاصل کر کے اپنے علم میں اضافہ کر سکتا ہے۔ مگر کتاب بینی کی اپنی اہمیت آج بھی قائم و دائم ہے۔

علمی ادبی و ثقافتی سرگرمیوں میں کمی واقع ہونے کی وجہ صرف انٹرنیٹ نہیں بلکہ کمپیوٹر اور اسمارٹ فون بھی ہیں۔ جب سے نوجوانوں میں اِن جدید ذرائع کے استعمال کی شرح بڑھی ہے، ہماری نئی نسل اپنی علمی ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں سے دور سے دور ہوتی جارہی ہے۔ افسوس اردو زبان کی چاشنی کی ”وہ“ خوبصورت بازگشت اب سننے کہیں کو نہیں ملتی۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے آج ہم اپنی تہذیب سے منہ موڑ کر جہالت کے اندھیروں میں گرتے چلے جارہے ہیں۔ ٫


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).