حرف جو لب تلک نہیں آیا


باقی احمد پوری نے کیا خوب بات کہی ہے
دل میں طوفان بن گیا باقی
حرف جو لب تلک نہیں آیا

جذبہ کوئی بھی ہو خواہ، غم، غصہ، خوشی، اداسی، محبت اظہارمانگتا ہے۔ ان کہی بہت تکلیف دیتی ہے۔ آپ کے اندر توڑپھوڑکا ایک عمل جاری رہتا ہے، ایک اکیلا انسان کبھی کبھار خود کو کسی پریشانی یا کسی بھی عجیب صورتحال سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہو پاتا۔ اسے کسی بہت مخلص شخص کی تلاش ہوتی ہے جسے وہ اپنی صورتحال سے آگاہ کر سکے، وہ اس کے دوست، اس کے رشتہ دار اس کی فیملی کوئی بھی ہو سکتاہے لیکن دور جدید میں مختلف ایجادات کے باعث جہاں فاصلے سمٹ گئے وہیں انسان ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے گئے۔

اب حالات یہ ہے کہ آپ ایک گھرمیں رہتے ہوئے بھی سا تھ بیٹھ کر بات چیت کرنے کی بجائے سوشل میڈیا کے ذریعے رابطے میں ہوتے ہیں۔ اس کے پیچھے شاید وجہ مصروفیت بھی ہے اب کسی کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہے کہ کسی کو سنا جا سکے۔ آپ کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ آپ کے اردگرد کے لوگوں کو آپ کی کتنی ضرورت ہے۔ آپ کے چند قیمتی لمحے کسی کو سٹریس یا پریشانی سے نکالنے میں کتنے کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔ پرانے وقتوں میں شاید اتنے گیجٹس نہیں تھے اور فارغ وقت کو اچھے سے گزارنے کے لئے لوگ ایک دوسرے سے ملتے تھے ایک دوسرے کے پاس بیٹھتے تھے اوراپنے تجربات اور خیالات کا اظہار کرتے تھے اسی لئے ایک خاص عمر میں بھی وہ ذہنی اور جسمانی طورپر بھی تندرست رہتے تھے اور اب یہ حالات ہیں کہ بڑوں کے پاس بچوں تک کو سننے کا وقت نہیں اور بچے بھی عجیب چڑچڑے پن کا شکار ہو جاتے ہیں۔

جون ایلیا فرماتے ہیں
سب سے پر امن واقعہ یہ ہے
کہ آدمی آدمی کو بھول گیا

اور یہی حقیقت ہے ہم ایک دوسرے سے دور ہو کر بھی اس پر نادم نہیں ہوتے اور یہ سمجھ کر مطمئن رہتے ہیں کہ یہی ایک اچھا طرززندگی ہے کہ آپ اس سے بات نا کریں جو آپ سے بات نہیں کرتا، اگرکسی نے آپ کو مشکل وقت میں نہیں پوچھا تو آپ بھی اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں، آپ کے ارد گرد کیا ہو رہا ہے، کون کس حال میں ہے ہم جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے اوراگر کوئی اپنی پریشانی کا اظہار بھی کرے توہم اس سے بھاگتے ہیں۔

میری ایک دوست کا بتانا ہے کہ اس نے اپنی ایک کلاس میٹ کا اسٹیٹس دیکھا جس میں لکھا تھا کہ مرنے کا کوئی راستہ ہے؟ اس کلاس میٹ سے اب اس کی کوئی خاص بات چیت نہیں تھی اس کے باوجود اس نے اسے میسج کیا اور کہا کہ جینے کا راستہ تلاش کرو زندگی بہت خوبصورت ہے۔ اس پر اس لڑکی نے لکھا کہ آپ واحد ہیں جس نے مجھے کوئی مثبت جواب دیا اور ایسا لکھا ورنہ لوگ اس اسٹیٹس کو لائک کر رہے تھے یا اگنور۔ کسی نے مجھے پوچھا نہیں کہ میں کس پریشانی کا شکار ہوں۔

اس قصے کو بتانے کا مقصد یہاں یہ ہے کوئی شک نہیں بہت سے لوگ اپنی ذاتی زندگی کے تجربات یا مشکلات کو سوشل میڈیا پر شئیر کرنا پسند نہیں کرتے لیکن مجھے لگتا ہے ایسا کرنے والوں کے پاس پرسنل پر کوئی موجود نہیں ہوتا جس سے وہ بات کر سکیں اسی لئے وہ اسے پبلک کر دیتے ہیں اور شاید ایسا کرنے کے بعد وہ ہلکا محسوس کرتے ہیں یا توقع رکھتے ہیں کہ ان کے دوست احباب ان سے اس کے متعلق کچھ بات کر یں گے شاید انہیں کوئی مدد مل سکے لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں یا تولوگوں کو ایسا کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتاہے یا مزاح کا اور زیادہ ترنظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ آپ کے کچھ وقت صرف کرنے سے اگر کسی کو ذہنی بوجھ سے چھٹکاراملتاہو تو میرا نہیں خیال کہ آپ کو اتنی تنگ دلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

آپ اپنے سوشل میڈیا فرینڈز، اپنے گھر، اپنے آفس میں یا اپنے ارد گرد اگر کسی کو پریشان دیکھیں تو اس لئے کچھ ضرور کریں۔ اگر آپ کو لگتا ہے جو کچھ اس کی زندگی میں ہے آ پ وہ سب ٹھیک نہیں کرسکتے تو کم سے کم آپ ان کو سن کر ان تمام چیزوں کو باہمت طریقے سے سامنا

کرنے کے لئے ذ ہنی طور پر تیارضرور کر سکتے ہیں۔ وقتی ذہنی پریشانی سے نجات دلاسکتے ہیں۔ اور اس کے لئے آپ کو تھوڑا سا قمیتی وقت نکالنے کے علاوہ کوئی خاص محنت بھی درکار نہیں ہو گی۔

آخرمیں حفیظ جونپوری کا شعر لکھوں گی
آدمی کا آدمی ہر حال میں ہمدرد ہو
اک توجہ چاہیے انسان کو انسان کی طرف


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).